"ABA" (space) message & send to 7575

India\'s War on Muslims…(1)

مودی راج میں بھارت بطور سوسائٹی یا سماج کہاں جا رہا ہے؟ اقلیتوں کے خلاف تعصب اور نسلِ انسانی کے خلاف دشمنی اور نفرت کے اس طوفان پر ہمارے ہاں تحقیق کا کوئی خاص تکلف نہیں ہوتا۔ شاید اسے ریٹنگ والا موضوع نہیں سمجھا جاتا‘ دوسری جانب مغربی دنیا کے کئی بڑے صحافیوں کے لیے یہ ایک انسانی مسئلہ ہے‘ اسلاموفوبیا سے جڑا ہوا۔
اسی حوالے سے یکم جولائی کو آسٹریلیا کے معروف مصنف‘ جرنلسٹ‘ اسلاموفوبیا اور مسلم کشی کے خلاف مغربی دنیا کی بہت مؤثر آواز CJ Werleman کی تحقیق جاری ہوئی۔ اس تحقیق کو برٹش پولیٹیکل ویب سائٹ bylinetimes.com نے چھاپا ہے۔ CJ Werleman نے اسی سال جون کے مہینے میں اتر پردیش کے عمر گوتم کی کہانی سنائی۔ یو پی کے رہائشی عمر گوتم پیدائشی نہیں بلکہ مسلم کنورٹ ہیں‘ اور کافی عرصے سے امام بن چکے ہیں۔ اس پُرامن دین دار شہری کو یہ الزام لگا کر اُتر پردیش کی ریاستی پولیس نے گرفتار کر لیا کہ عمر گوتم نے ایک ہزار سے زائد ہندوئوں کو زبردستی مسلمان کیا۔ یاددہانی کیلئے عرض ہے کہ اتر پردیش کا وزیر اعلیٰ یوگی ادتیا ناتھ انتہا پسند ہندو تنظیموں کا تشدد پسند لیڈر بھی ہے‘ جو مسلمانوں کو پردیسی سمجھتا ہے اور بھارت ماتا کو غیر ہندو اقلیتوں کے وجود سے پاک کرنے کا پرچارک ہے۔ وہ مسلم دشمنی کو اپنی پوجا گردانتا ہے۔ عمر گوتم کے خلاف نہ کوئی زبردستی اسلام قبول کروائے جانے کی کمپلینٹ فائل ہوئی نہ ہی اُس کے ہاتھوں مسلمان ہونے والے کسی شخص نے اُس پر زبردستی مذہب بدلوانے کا الزام لگایا۔
مسلم کشی کی اس ہمہ گیر سرکاری مہم کو آگے بڑھانے کے لیے اتر پردیش سرکار اور اسمبلی‘ دونوں میں گٹھ جوڑ پایا جاتا ہے‘ جس کا نتیجہ کئی سخت ظالمانہ قانون بنائے جانے کی صورت میں سامنے آیا۔ ان میں سے ایک کو اینٹی کنورژن قانون کہتے ہیں جس کے تحت جرم ثابت کرنے کے لیے بارِ ثبوت پراسیکیوشن کے بجائے اُن مسلمانوں پر رکھا گیا جن پر زبردستی ہندوئوں کو مسلمان کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ اینٹی کنورژن قانون کے مطابق ریاست کسی بھی مسلمان کو گرفتار کر کے اس کا جرم ثابت کرنے کی کوئی گواہی یا ثبوت پیش کرنے کی پابند نہیں رہی۔ اس لئے اس طرح کے مقدمات میں کوئی مدعی اور گواہ پیش کرنے کے بجائے گرفتار مسلمانوں کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
انڈین پرائم منسٹر نریندر مودی کے دورِ حکومت میں ریاست اور اس کے ادارے بھارتی سماج کو کدھر دھکیل کر لے جا رہے ہیں‘ مسلم نفرت پر مبنی کس طرح کے قانون بی جے پی سرکار بنا رہی ہے‘ آئیے اس سلسلے میں انڈین قانون سازی کے چند تازہ نمونے دیکھ لیں۔
پہلا نمونہ: مودی راج میں وار آن مسلمز کا آغاز سٹیزن شپ ترمیمی ایکٹ کے قانون کی منظوری کے ساتھ شروع ہوا۔ یہ قانون ہندوستانی شہریت رکھنے والے مسلمانوں کے خلاف بے رحمی سے استعمال ہو رہا ہے۔ اس قانون کے مطابق کسی بھی مسلمان کو کوئی بھی ریاستی سہولت حاصل کرنے سے پہلے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ اس کا دادا‘ پردادا اور نانا‘ پرنانا دونوں ''اصلی‘‘ بھارتی تھے۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستان کے پیدائشی مسلمانوں کو شہریت ثابت کرنے کے ثبوت کا پابند بھی بنایا گیا ہے۔
دوسرا نمونہ بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے والا قانون ہے جس کے ذریعے مقبوضہ جموں و کشمیر کا مسلم سٹیٹس تبدیل کرنے اور جغرافیہ بدلنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ آج دنیا اپنی کھلی آنکھوں سے انڈین سوسائٹی کے ہر لیول پر بالعموم مذہبی اقلیتوں اور خاص طور سے مسلم اقلیت کو دیوار میں چنوا دینے کی کوششیں دیکھ رہی ہے۔
تیسر انمونہ بھارتی انتہا پسندوں کی طرف سے منظور کروایا گیا انٹر فیتھ شادیوں پر پابندی کا قانون ہے‘ جسے توہین آمیز طریقے سے ''love jihad‘‘ کا قانون کہا جا رہا ہے۔ یہ قانون ایک عجیب اسلاموفوبک کانسپائریسی تھیوری کو آگے بڑھاتا ہے جس کے مطابق مسلمان لڑکوں پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ ہندو لڑکیوں کو دھوکا دہی کے ذریعے شادی پر آمادہ کر لیتے ہیں۔ مودی راج کی سازشی تھیوری یہ بھی کہتی ہے کہ یہ سب شادیاں بھارت کو اسلامی خلافت میں تبدیل کرنے کی سازش کا حصہ ہے حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ مغرب کے تعلیم یافتہ اور متمدن معاشروں میں سب سے تیزی سے پھیلنے اور آگے بڑھنے والا مذہب اسلام ہی ہے‘ جس کی وجہ سازش ہے نہ زور زبردستی بلکہ قرآن کا پیغام اور رسولِ خداﷺ کی حیاتِ طیبہ ہے‘ جس کی رُو سے عورت کو عزت اور احترام ملتا ہے۔ اسی وجہ سے مغرب کی پڑھی لکھی خواتین اسلام قبول کرکے اپنی ذات اور زندگی میں سکون محسوس کر رہی ہیں۔
چوتھا نمونہ‘ مسلمانوں کو نشانے پر رکھ کر اُٹھائے جانے والے دو اقدامات پر مشتمل ہے۔ ان میں سے پہلا قانونی طور پر اینٹی ٹیررازم سکواڈ (ATS)کا قیام ہے جبکہ دوسرا اَن لا فُل ایکٹیویٹیز پریوینشن ایکٹ (UAPA)کا اجرا ہے۔ اسی تناظر میں الجزیرہ ٹیلی ویژن نے بھارتی ریاست مہاراشٹر کے 33 سالہ عرفان کی دردناک داستان بیان کی ہے جسے ان قوانین کے تحت چار دوسرے مسلم نوجوانوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔ اُن پر پاکستان کے اندر سے کسی تنظیم کی حمایت کا الزام لگا کر اُنہیں ممبئی کی خصوصی عدالت کے حکم پر نو سال زیرِ حراست رکھا گیا اور آخر کار اُن کے خلاف چارجز ڈراپ ہو گئے۔ ایسی ہی ظالمانہ کہانی بشیر احمد بابا کی بھی ہے جو سری نگر کے بھارتی مقبوضہ علاقے رین واری سے گجرات کے شہر احمد آباد میں دعوت پر گیا۔ بشیر احمد بابا جس این جی او کے لیے کام کر رہا تھا اُس نے احمد آباد میں کینسر کے علاج پر ورک شاپ آرگنائز کی تھی۔ احمد آباد پہنچتے ہی گجرات پولیس نے اُسے گرفتار کر لیا۔ الزام یہ تھا کہ وہ سری نگر سے احمد آباد مسلم لڑکے ریکروٹ کرنے آیا تھا تاکہ انہیں پاکستان کے ٹریننگ کیمپس بھجوا کر انڈیا میں دہشت گردی کروائی جا سکے۔ بشیر احمد بابا کے خلاف 11 سال ایڈوانس قید کاٹنے کے بعد چارج ڈراپ ہوا۔
وکالت نامہ یہاں تک پہنچا تھا کہ بھارت سے یوسف خان کی رحلت اور سٹین سوامی کی قید میں موت کی خبر آ گئی۔ یوسف خان پشاور میں 1922ء میں پیدا ہوئے۔ 1935ء میں یوسف خان کے والدین برٹش راج میں بمبئی شفٹ ہو گئے تھے۔ دلیپ کمار کو ممبئی کے پرانے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ دلیپ کمار کے فلمی نام سے شہرت حاصل کرنے والے یوسف خان کہتے تھے کہ انہیں پاکستان میں اپنے وطن اور مولد کی خوشبو ہمیشہ محسوس ہوتی ہے۔ وہ فلمی دنیا کے بے تاج بادشاہ رہے۔ زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے!!
84 سالہ سٹین سوامی کیتھولک چرچ کے پُرامن پادری اور ہندوئوں کی سب سے نچلی ذات دلت کے حقوق کیلئے آواز اُٹھانے والے ایکٹیوسٹ کے طور پر جانے جاتے تھے۔ اس سینئر سٹیزن کو دلت کے حقوق پر بولنے کے جرم میں 2018ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اُن پر دہشت گردی کا ایسا الزام لگایا گیا جس کا نہ کوئی سر تھا نہ پیر۔ بیمار فادرسٹین نے ضمانت کیلئے درخواست دی تو مودی حکومت نے اُنہیں علیحدگی پسند مائوسٹ باغی قرار دے ڈالا۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں‘ سب سے بڑی عدالت نے‘ دہشت گردی کے الزام میں پکڑے جانے والے سب سے بڑی عمر کے ملزم کو میڈیکل ضمانت تک نہ دی۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں