"ABA" (space) message & send to 7575

دھاندلیات

فیروز الّلغات کہیں پیچھے رہ گئی۔ فرہنگِ آصفیہ دھند میں گُم۔ باقی لغات بھی بے بس دکھائی دیتی ہیں۔ میر پور سے لیپا تک دھاندلیات کے کالے بادلوں کی پیش گوئیاں۔ راہ نمائی! واہ رے راہ نمائی۔
یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں‘ جو عام آدمی کے علم میں نہ ہو۔ الیکشن کے پراسیس میں دھاندلی کے تین جانے پہچانے سٹیج آتے ہیں۔ ان میں سے پہلا مرحلہ پری پول یعنی الیکشن سے پہلے کی دھاندلی ہے۔ یہ والی دھاندلی کرنے کے ذمہ دار یا تو برسرِ اقتدار حکمران ہو سکتے ہیں جن کی حکومت چل رہی ہو‘ یا پھر انتخابات کا سٹیج سجانے والے ادارے یہ دھاندلی کروا سکتے ہیں۔ اختیار کے دائرے سے باہر بیٹھے ہوئے سیاسی لوگ‘ جن کو عرفِ عام میں اپوزیشن کہا جاتا ہے‘ وہ پری پول دھاندلی نہیں کر سکتے۔ ان کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں ہوتے ۔
کھلا کھلا معاملہ یوں ہوتا ہے کہ حکومت الیکشن کمیشن میں لوگوں کا انتخاب کرتی ہے۔ حکومت کے مختلف محکموں سے ہی الیکشن کروانے کا ذمہ دار عملہ لیا جاتا ہے۔ اکیلی حکومت ہی اُن محکموں کے لوگوں کے بازو مروڑنے کی طاقت رکھتی ہے یا پھر ایسے محکموں کی ہتھیلی پر انعامی اشرفیاں ڈالنے کی صلاحیت۔ انتخابات سے پہلے حلقہ بندیوں کے لیے فیلڈ سٹاف سارے کا سارا حکومت کے ہی ماتحت ہوتا ہے۔ اسی سٹاف کو اختیار ہوتا ہے کہ ووٹرز بلاک بنائے‘ حلقہ بندیوں میں کسی کی مرضی کے مطابق یا کسی کے خلاف کانٹ چھانٹ کرنے کی ڈنڈی مارے۔ حکومت سے باہر بیٹھے لوگ زیادہ سے زیادہ اس طرح کے اقدامات پر یا تو پریس کانفرنس کر سکتے ہیں یا پھر کوئی رٹ پٹیشن وغیرہ دائر کر کے عدالت کو اپنے حصے کی درد بھری داستان سنا سکتے ہیں۔
ان زمینی حقائق کی روشنی میں آزاد کشمیر کے الیکشن پر نظر ڈالیں تو پچھلی رات کے پچھلے پہر 12 بجے تک آزاد کشمیر کی حکومت کا پرائم منسٹر اے جے کے کی ساری کیبنٹ‘ تمام محکمے‘ تمام تر اختیارات کے ذریعے پری پول دھاندلیات کی واردات ڈالنے کے قابل تھے۔ مزے کی بات ہے یہ سارے کے سارے پی ایم ایل این کے ماتحت تھے۔ ایسے میں نون لیگ کی نائب صدر اور اے جے کے والے وزیر اعظم کے دھاندلی والے نعرے لوگوں کی سمجھ میں نہ آ سکے۔ ہاں البتہ ایک بات واضح ہے‘ جو سب کی سمجھ میں آئی۔ اتنی سی کہ اگر انتخابات میں پری پول دھاندلی ہوئی تو وہ ایسی کسی بھی سیاسی پارٹی کے دائرہ اختیار سے 100 فیصد باہر تھی۔ اس لئے ایسی پری پول دھاندلی برپا کرنے کے تمام وسائل پچھلے پانچ سال سے نون لیگ کے قبضے میں ہی رہے‘ وہ بھی بلا شرکتِ غیرے۔ اے جے کے الیکشن میں دھاندلی کا دوسرا مرحلہ یومِ انتخاب پر سرکاری وسائل‘ دھونس اور دھمکی کے استعمال کا تھا۔ سادہ سی بات ہے‘ کیا حکومت کی طرف سے دھونس اور دھاندلی کے ذریعے الیکشن پر اثر انداز ہونے کے لیے کوئی دبائو ڈالا گیا؟ چلئے یوم انتخاب کو تھوڑی دیر کے لیے چھوڑ دیتے ہیں‘ ایک اور پہلو پر بات کر لیتے ہیں۔اس سے بھی پہلے اے جے کے میں نون لیگی پی ایم نے کھل کر وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید کو دھمکی دی کہ وہ اس کے حلقے میں ایک مرتبہ صرف داخل ہو کر دکھا دیں۔ اگر موصوف کوئی عام سے امیدوار ہوتے‘ حکومت سے باہر بیٹھے ہوتے‘ اس دھمکی پر اُن کے خلاف اے جے کے پولیس حرکت میں آتی‘ لیکن پولیس کے وڈے صاحب کے چھوٹے پرسن نے سڑک سے بہت دور چیڑ کے درختوں کے ایک جھنڈ سے قافلے پر فائرنگ کی اور پتھر پھینکے جس کی فوٹیج خود برسرِ اقتدار پارٹی نے ریلیز کی۔ اس کے علاوہ بھی سرکاری سرپرستی میں جلسے جلوس روکنے اور مخالفوں کو کیمپین سے نکال باہر کرنے کے رپورٹڈ واقعات ہوئے۔
انتخابی دھاندلی کا تیسرا مرحلہ پوسٹ پولنگ دھاندلی کا آتا ہے۔ اُمید ہے‘ اس بارے میں واقعاتی کہانیاں الیکشن پٹیشن دائر کرنے کے مرحلے پر ضرور سامنے آ ئیں گی۔ نواز شریف صاحب کی بیٹی نے اے جے کے الیکشن کی مہم کے دوران پاکستان کے ریاستی اداروں سے لا زوال عشق کے ترانے چھیڑے‘ کشمیریوں کے ساتھ رشتے داری اور نسلی تعلق کو بھی اُجاگر کیا‘ لیکن اسی الیکشن مہم کے اختتامی روز دونوں کی 'باہمی دلچسپی‘ کا تصویری خبر نامہ سامنے آ گیا۔ پاک سرزمین کے خلاف غیر اخلاقی زبان بولنے کے لیے مشہور‘ کابل کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر کا بیان سامنے آیا۔ جس وطن نے 40 سال سے اس کے 40 لاکھ ہم وطن پناہ گزینوں کے نام پر برداشت کر رکھے ہیں‘ عین اُسی سرزمین پر احسان فروشوں نے بے ہودہ الزامات لگائے۔ آپ اسے اتفاقات کی اتفاق فائونڈری کہیں یا این ایس اے کی زبان میں 'کامن انٹرسٹس‘ کہ پاکستان کے خلاف دشنام طرازی کرنے والا این ایس اے گالی دے کر نواز شریف کو ملنے سیدھا لندن پہنچ گیا۔ اُس کے ساتھ اینٹی پاکستان سرکاری وفد بھی تھا۔ کون نہیں جانتا کہ ریاست پاکستان نے اس این ایس اے کو منہ لگانا چھوڑ رکھا ہے‘ جس کا سبب کچھ اور نہیں‘ پاکستانی قوم کے خلاف کی گئی دشنام طرازی بنی۔
اگر آپ آزاد کشمیر الیکشن‘ این ایس اے کی گالی‘ پھر این ایس سے لندن میں ہونے والی ایک ملاقات جوڑ کر دیکھیں تو اس کے دو ہی مقاصد سامنے آتے محسوس ہوتے ہیں‘ ایک یہ کہ نواز شریف بھارت اور ہمارے مغربی بارڈر کے پار اُن عناصر سے تعلق کو فخریہ بیان ظاہر کرتے ہیں‘ جو پاکستان اور اُس کے لوگوں کو غلیظ ترین زبان و بیان کے نشانے پر رکھتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے نزدیک اس ملاقات کی ٹائمنگ زیادہ اہم ہے۔ ان کے مطابق یہ موقع سیاسی بلیک میل کے لیے استعمال کیا گیا۔ بلیک میلنگ؟ بلیک میلنگ یوں کہ اگر آزاد کشمیر کے اقتدار میں سے نون لیگ باہر ہو گئی تو وہ انتخابی نتائج کو بھارتی مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی الیکشن سے جوڑ دیں گے۔ خدا کرے ایسا نہ ہو۔
لیکن ایک ڈویلپمنٹ دھاندلیات کے الزامات میں اور بھی ہوئی جس کے دو حصے ہیں: پہلے حصے میں چیف الیکشن کمشنر آزاد کشمیر کا انتخابات کے روز اعتراف ہے کہ اُنہیں الیکشن پراسیس میں اے جے کے کی نون لیگی حکومت کی مکمل معاونت حاصل رہی۔ کچھ لوگ اس معاونت کی تشریح کرنا چاہتے ہیں‘ مگر ہم نہیں۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر آئی کہ نون لیگ کی نائب صدر صاحبہ نے اُسی این ایس اے کے آفیشل ٹویٹ کو اپنے اکائونٹ سے ری ٹویٹ کیا۔ جب اس پر لوگوں نے واویلا کیا تو آلِ شریف کی جانب سے اس ملاقات پر اعتراض کو ''جلن‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس کا مطلب کیا ہوا؟ آپ سیانے ہیں‘ بہت سی باتوں کا ادراک رکھتے ہیں۔ سوچ سکتے ہیں‘ معاملات کو پرکھ سکتے ہیں۔ خود فیصلہ کر لیں۔ فیصلے سے پہلے مگر انڈین نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوول کی لاہور والے جاتی امرا میں نواز شریف اور ان کے پورے خاندان کے ساتھ دعوت کی ویڈیو دیکھنا نہ بھولیں۔
مفتیٔ خانہ ساز زندہ باد‘ ناز نینوں سے ہم نوائی ہے
بیچ بازار ٹاپتے رہنا‘ نام اس شے کا رہنمائی ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں