"ABA" (space) message & send to 7575

اُن کا اندھیرا، اُجالا ہمارا …(1)

فلم ساری دنیا میں بن رہی ہے۔ عشروں پر طویل فلمی سفر میں اِنٹرٹینمنٹ، فکشن، ایکشن، سسپنس، ہارَر، رومانس اور آرٹ فلموں کی تعداد اتنی ہے کہ اَب گنی بھی نہیں جا سکتی۔ عجیب سی بات ہے مگر بات سچ ہے اس لئے کہنا پڑے گی کہ مسلم ملکوں اور خاص طور پر پاکستان سے ایسی فلموں کو آسکر ایوارڈ ملے، جن میں 22 کروڑ روشن دماغ لوگوں کے ملک سے صرف کالے دھبے اُٹھا کر اُن کا چرچا کیا گیا۔ پاکستان کے علاوہ باقی ساری دنیا میں تازہ فلم سازی کے رجحان میں بھی وطن، اہلِ وطن اور وطنی ہیروز کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ اپنے ہاں زندگی کی علامتیں بے پناہ ہیں، اور موت کے سائے کم کم۔ انسانی سماج اندھیرا اُجالا کی کہانی تو ہے، مگر یہ چوائس فلم میکرز کی ہوتی ہے کہ وہ روشنی کے پیامبر بن جائیں یا ظلمت فروشی کا انٹرنیشنل کاروبار کر لیں۔
جدید انسانی تاریخ میں مغرب کا ایلیٹ، مڈل ایجِز کو ڈارک ایجِز کہنا پسند کرتا ہے۔ اصل میں یہ وہ زمانہ ہے جب اندھیرا اُن کا تھا اور اُجالا ہمارا۔ ساتھ ہی مغرب میں دلیرانہ طور پر موضوع چُن کر فلم بنانے والے ہمت والے کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ ایسی دو تازہ مثالیں اس حوالے سے تاریخ ساز ہیں۔
پہلی مثال ہالی وُڈ کی بنائی ہوئی Kingdom of Heaven فیچر فلم سے ملتی ہے۔ مشرق سے مغرب تک، یہ گلوبل بلاک بسٹر مووی تھی جس کے ہیرو غازی سلطان حضرت صلاح الدین ایوبی ہیں جبکہ فلم کا ولن بادشاہ Richard-I (جس کی برطانیہ پہ 3 ستمبر 1189 سے 6 اپریل 1199 تک حکومت رہی) یہ بادشاہ ساری دنیا میں رِچرڈ شیردل کے نام سے مشہور تھا۔ توسیع پسندی کی خواہش دل میں لے کر رچرڈ شیردل کے ساتھ آنے والے صلیبی حملہ آور، بادشاہ، ملکائیں، نائیٹ اور حکمران بھی بیت المقدس کے ولن ہی تھے۔ اس فلم کو مغرب میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ تنقید کی بنیاد یہ تھی کہ فلم میں کروسیڈر فوجوں کے مظالم اور غازی سلطان صلاح الدین ایوبی کی دریا دلی کے بارے میں سچے واقعات کو فلم کے فیتے پر کیوں دکھایا گیا۔
دوسری تاریخ ساز شخصیت احمد سلیم ہیں۔ یوکے میں سماجی کاموں اور بزنس کمیونٹی کی جانی پہچانی شخصیت۔ وہ ٹرانس میڈیا پروڈکشنز کے کرتا دھرتا ہیں۔ احمد سلیم صاحب کی ان پروڈکشنز میں فلمیں، بین الاقوامی نمائشیں، براہ راست شوز، کتابیں اور تعلیمی اور سماجی مہمات شامل ہیں‘ جن میں آج تک پوری دنیا سے 40 کروڑ سے زائد لوگ شریک بن چکے ہیں۔ احمد سلیم صاحب 2015، 2016، 2017 اور 2018 میں دنیا کے 500 بااثر ترین مسلمانوں کی فہرست میں بھی شامل رہے ہیں۔
احمد سلیم 1001 Inventions کے ڈائریکٹر ہیں جو برطانیہ میں قائم تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ممتاز ورثہ کی تنظیم ہے۔ اس تنظیم کا کام عالمی تعلیمی پروگرامز، لائیو شوز، شارٹ فلمیں، کتابیں اور تعلیمی وسائل سامنے لانا ہے۔ ان کی شارٹ فلم 1001 Inventions and the Library of Secrets ایسا لینڈمارک شاہکار ہے جس میں سر بین کنگزلے نے اداکاری کی۔ اس معرکۃ الآرا شارٹ فلم کو اب تک 10 کروڑ مرتبہ ڈائون لوڈ کیا جا چکا ہے‘ جبکہ اس فلم کو 27 انٹرنیشنل ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔
سال 2015 میں احمد سلیم صاحب نے مسلم سائنسدان سکالر کے بارے میں ایک شارٹ فیچر فلم پروڈیوس کی، جو ایک اور گلوبل ہٹ ثابت ہوئی۔ فلم کا نام 1001 Inventions and the World of Ibn Al-Haytham رکھا گیا‘ جس کا بنیادی خیال ابن الہیثم کی طرف سے سائنس کے تعاقب میں ٹریولنگ تھا۔ اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں اداکاری کے بادشاہ، مصری اداکار عمر شریف نے کام کیا۔ یاد رہے اس فلم کے شروع ہونے سے بہت پہلے ہالی وُڈ کے کریکٹر ایکٹر عمر شریف ایکٹنگ سے ریٹائرمنٹ لے چکے تھے۔ احمد سلیم صاحب کی شارٹ فیچر فلم میں کام کرنے کے لیے عمر شریف نے وَن ٹائم اداکاری کے لیے ریٹائرمنٹ سے واپسی اختیار کی۔ المیہ یہ ہوا کہ یہ فلم عمر شریف کی زندگی کی آخری پکچر ثابت ہوئی۔ مزید المیہ یہ کہ عمر شریف اس کی ریلیز سے پہلے ہی انتقال کر گئے۔
13 منٹ کی اس شارٹ ڈاکومنٹری فلم کا آغاز ایک لائبریری سے ہوتا ہے، جہاں بچے کچھ جاننے کے خواہش مند ہیں۔ فلم میں آسکر ایوارڈ یافتہ ایکٹر سر بین کنگزلے لائبریری کے سیکرٹس سے واقف ہیں۔ ان بچوں کو لائبریری میں سکول کی ایک استاد لے کر آئی ہے جو بچوں سے کہتی ہے، میں آپ میں سے ہر ایک کو ریسرچ کے لیے تاریخ کا ایک دور دے رہی ہوں۔ اس دور کے حوالے سے سوال یہ ہے کہ آپ کو دیئے گئے دور نے جدید دنیا پر کیا اثرات مرتب کئے۔ پھر ٹیچر بچوں سے مخاطب ہو کر بولتی ہے کہ سارہ، آپ کے گروپ کے پاس قدیم یونانی ہیں۔ روی کے پاس رومنز ہیں، اور ڈینی کے گروپ کے لیے تھوڑا چیلنج ہے، آپ کے پاس مڈل ایجز ہیں، جن کو کچھ لوگ ڈارک ایجز کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔ منظر آگے بڑھتا ہے اور اس کے ساتھ سوال جواب بھی۔ اب یہ سوال جواب بین کنگزلے یعنی لائبریرین سے بچوں کی گفتگو ہے، کچھ اس طرح سے:
طالب علم: ڈارک ایجز کا ہمارے ساتھ کیا لینا دینا ہو سکتا ہے؟ جناب آپ کو تنگ کرنے کے لیے معذرت چاہتا ہوں۔
لائبریرین: کیا چاہئے آپ کو؟
طالب علم کہتا ہے کہ ہمیں پتہ کرنا ہے کہ ڈارک ایجزِ نے جدید دنیا پر کیا اثرات مرتب کئے؟ ڈارک ایجِز کا نام سن کر لائبریرین مایوسی کا مظاہرہ کرکے یوں بولتا ہے! تاریخ کا کوئی ایسا دور نہیں گزرا، جس کا نام اتنا غلط رکھا گیا ہو۔ یہ priceless دور ہے۔ میرے خیال میں آپ کے دماغ میں کسی نے معمول کی nonsense بھردی ہے‘ وہ یوں کہ انسانیت کے ایک ہزار سال ضائع ہوئے، تاریخ میں ایک بلیک ہول آیا، صحیح کہا نا میں نے؟
طالب علم نے جواب دیا: ہاں، ایسا ہی کہہ سکتے ہیں۔
لائبریرین: دیکھیں، ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ آپ لوگ فرض کر لیتے ہیں کہ اس زمانے میں صرف کیچڑ، بیماری، موت اور تباہی تھی‘ جس میں وحشیوں کے ہجوم نے سابقہ تہذیبوں کو تہس نہس کر دیا‘ جو کچھ ان کے راستے میں آیا، وہ سب جلا ڈالا اور صرف لوٹ مار کرتے رہے‘ مڈل ایجِز میں کوئی قابل قدر چیز ایجاد نہیں کی گئی۔
یہاں سے سٹوری ٹرن لیتی ہے۔ لائبریرین سٹوڈنٹ سے کہتا ہے: چلو، جائو یہاں سے۔ کوئی فائدہ نہیں ہے اس گفتگو کا۔ ویسے بھی آپ سب جانتے ہیں کہ گریکس اور رومنز نے ہی سارا کچھ ایجاد کیا ہے۔ بچوں کے اصرار پر لائبریرین نے ہامی بھرنے کے لہجے میں کہا: میرے پاس آپ کے لئے ایک خاص چیز ہے۔ آپ تیار ہیں تو میرے ساتھ چلئے۔ میرے پاس آپ کو دکھانے کے لیے ایک کتاب ہے۔ پھر لائبریرین ایک بند دروازے کی طرف بڑھتا ہے۔ حیرت میں مبتلا بچے پوچھتے ہیں: ہم کہاں جا رہے ہیں؟
لائبریرین آگے بڑھ کر لائبریری کے اندر سے ایک بڑے دروازے کو کھولتے ہوئے بولا: مائے فرینڈز، ہم اندھیرے سے اُجالے کی طرف جا رہے ہیں۔ ہم سمندر سے زمین کی طرف سفر کررہے ہیں۔ لائبریری کا سیکرٹ ڈور کھلا۔ بچے حیرتوں کے جہان میں ڈوب گئے۔ ایک نے سوال کیا: یہ کیا ہورہا ہے؟ لائبریرین بولا: ویلکم ٹو دی گولڈن ایجِز۔ اسی زمانے پر کچھ لوگوں نے ڈارک ایجز کا لیبل لگا رکھا ہے۔ بچے حیران ہو کر پوچھتے ہیں: آپ کون ہیں؟ لائبریرین نے جواب دیا: میں الجزری ہوں‘ انجینئر اور ذہین موجد، نئی نئی چیزیں بنانے والا۔ نئی نئی ایجادات دیکھ کر طالب علم کہتے ہیں، ہم کہتے تھے، یہ ڈارک ایجِز ہیں؟ لیکن یہ ڈارک لگ کیوں نہیں رہیں؟
حیرت کا اگلا دروازہ کھل رہا تھا ۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں