"ABA" (space) message & send to 7575

Graveyard of Empires

اتنا ڈالر افغانستان کی ساری تاریخ میں کبھی نہیں برسا، جتنا پچھلے 20 سالوں میں امریکہ بہادر نے اپنے ٹیکس پیئرز کی جیب سے نکال کر اپنے پسندیدہ افغان منیجرز پہ نچھاور کیا‘ مگر اسے کیا کہیے! کہ جب لیڈر دور دیس سے کرائے پر لائے جائیں تو دنیا کی سب سے بڑی آرمی کے ٹرینڈ کردہ لڑاکے‘ منیجرز کے نافذ کردہ کرپٹ نظام کو بچانے کے لیے کیوں لڑیں؟ دوسری جانب لڑنے والوں کے سامنے دو محرکات تھے: ایک افغان سرزمین سے غیر ملکی فوجوں کا انخلا، اور دوسرا ان کے خیال میں درست متبادل نظام۔
یہ دو دھاری حقیقت ذہن میں رکھیں تو افغان نیشنل آرمی کے تین لاکھ ٹرینڈ فوجیوں کے نہ لڑنے کی وجہ آسانی سے سمجھ میں آتی ہے۔
آئیے ذرا پیچھے چلتے ہیں۔ افغانستان وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا میں واقع ایک لینڈ بلاکڈ ملک ہے۔ انٹرنیشنل افغان بارڈر کے جنوب اور مشرق میں پاکستان، مغرب میں ایران، شمال مشرق میں عوامی جمہوریہ چین‘ شمال میں ترکمانستان، اُزبکستان اور تاجکستان واقع ہیں۔ تاریخی، مذہبی اور ثقافتی طور پر اِرد گرد کے تمام پڑوسی ملکوں سے افغانستان کا تعلق بہت گہرا ہے۔ افغانستان میں اقتدار کا مطلب کابل پر قبضہ سمجھا جاتا ہے۔کابل بالترتیب ایرانیوں، یونانیوں، عربوں، ترکوں، منگولوں، سکھوں، برطانویوں اور روسیوں کے بعد پچھلے 20 سال سے امریکہ کے قبضے میں رہا‘ اس کے باوجود اسے آزاد ملک اور حکومت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ افغانستان پچھلے 35 سال سے مسلسل حالتِ جنگ میں ہے‘ جس کی تباہی کا اندازہ دور بیٹھ کر نہیں لگایا جاسکتا۔ افغانستان میں پچھلے حکمرانوں کے اَدوار کے اثرات مختلف زبانوں کی صورت میں آج بھی واضح طور پر موجود ہیں‘ جس کی بڑی مثال سرکاری زبانوں کی فہرست ہے‘ جس میں پشتو، درّی فارسی، ترکمن زبان، اُزبک زبان، عربی اور بلوچی زبان، نورستانی زبانیں اور پامیر زبانیں ہیں۔ 1979 کے بعد اردو زبان بھی افغانستان میں قدم جما چکی ہے۔
روس کے خلاف افغان جہاد کے عرصے کو چھوڑ دیا جائے تو بھی پچھلے 20 سالوں میں امریکہ نے افغان کانفلکٹ میں قریب 2 ٹریلین ڈالرز جھونکے‘ مگر اب دو ہفتے کے اندر اندر یہ ساری انویسٹمنٹ اور دو عشروں کی محنت بیکار جاتی نظر آرہی ہے۔ لگ رہا ہے کہ افغان سرزمین کا تاریخی سبق پھر دہرایا جارہا ہے جس کے نتیجے میں افغانستان کو '' Graveyard of Empires‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی تین بڑی اور جدید مثالیں یوں ہیں: پہلی مثال 19ویں صدی میں برٹش رائل آرمی کی افغانستان آمد اور پھر بہت سبکی کے ساتھ شکست کھا کر واپسی سے ملتی ہے۔ دوسری مثال 20ویں صدی عیسوی کی ہے، جب سوویت یونین افغانستان میں قبضہ کرنے آیا۔ 9سالوں کی شدید جنگ کے بعد شرمندگی اور پسپائی کے سوا اس کے ہاتھ بھی کچھ نہ آسکا۔ تیسری اور جاری مثال یو ایس اور نیٹو ملٹری الائنس کی ہے‘ جس کے ایک فوجی پر اتنا خرچہ کیا اور جدید جنگی سازوسامان لادا جاتا ہے، جس سے ہمارے خطے کی ایک فوجی بٹالین کھڑی کی جاسکتی ہے۔ آج 20 سال بعد یوکے اور کمیونسٹ روس کے بعد تیسری سُپر پاور کے اتحادیوں کی سپریم فوج کو افغانستان سے ایسے نکالا، جیسے جلی ہوئی بستی کی راکھ مَل کر جوگی نکلتا ہے۔
سال2007 میں Charlie Wilson War کے نام سے ایک امریکن بائیوگرافیکل کامیڈی ڈرامہ فلم سامنے آئی جس میں Julia Roberts، Tom Hanks اور Phillip S. Hoffman نے بہترین اداکاری کے ذریعے مختلف بین الاقوامی فریقوں کے کردار، منافقت کی سیاست اور مفادات کی جنگ کے بارے میں چشم کُشا انکشافات کئے۔ تازہ افغان کانفلکٹ کو صحیح تناظر میں دیکھنے کے لیے چارلی وِلسن وار فلم اور Yaroslav Trofimov کی کتاب The Siege of Mecca دلچسپی رکھنے والے خواتین و حضرات ضرور دیکھیں۔
9/11 کے بعد شروع ہونے والے نئے افغان کانفلکٹ میں اہم ترین موڑ پچھلے امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کے دور میں سامنے آیا تھا۔ اس وقت جب صدر ٹرمپ نے افغانستان سے ساری امریکی فوج کی واپسی کا اعلان کیا۔ تب افغان اقتدار کے منیجرز کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا، جو اَب ہو رہا ہے۔ ایک اور امریکی صدر George W. Bush Junior نے دنیا سے وعدہ کیا تھا کہ وہ پہلے کی طرح اب افغانستان سے فوجیں واپس بلانے سے پہلے لڑاکا فریقوں میں شراکت اقتدار کو یقینی بنائیں گے‘ مگر جو ہوا وہ ساری دنیا کے سامنے ہے۔ نئے افغان کانفلکٹ کے پس منظر میں ایک کالا سایہ چھپ چھپ کر پاکستان پر وار کرتا رہا۔ یہ تھا افغانستان کانفلکٹ کا بظاہر سلیپنگ پارٹنر نریندر مودی کا بھارت۔ بھارت کا نہ تو افغانستان کے ساتھ کوئی بارڈَر لگتا ہے اور نہ ہی افغانستان سے بھارت کی ثقافت، مذہب یا کوئی اور علاقائی رشتہ جوڑا جا سکتا ہے۔ بھارت کی ڈیپ سٹیٹ، پاکستان میں بداَمنی پھیلانے کیلئے کہاں تک آگے بڑھ گئی تھی، اس کا ثبوت تب ملا جب سروِنگ انڈین نیوَل کمانڈر کلبھوشن یادیو کو پاکستان کی سرزمین سے گرفتار کیا گیا۔
اس وقت مودی کے بھارت کی سپانسرڈ شدہ فِفتھ جنریشن ہائبرِڈ وَار جاری ہے‘ جس کا ثبوت بھارت کے اندر سے پاکستان کے خلاف چلائے اور بنائے جانے والے سوشل میڈیا ٹرینڈز ہیں‘ جن کا دورانیہ ہزاروں گھنٹے بنتا ہے، اور ایسی ہی ٹویٹس اور سوشل میڈیا پوسٹس کی تعداد ملینز سے بھی آگے ہے۔ اس پس منظر میں چند اہم سوال یہ ہیں۔پہلا سوال: جاری افغان کانفلکٹ میں پاکستان نے امن مذاکرات کی نہ صرف سپورٹ کی بلکہ سہولت کاری بھی کی۔ امریکی اور نیٹو فورسز کی افغانستان سے واپسی کا فیصلہ پاکستان کا نہیں ہے، یہ نیٹو کمانڈ اور یو ایس آرمی کمانڈ کا فیصلہ ہے۔ اس لئے ایسے میں پاکستان پر عدم استحکام پھیلانے کا الزام کیسے لگایا جاسکتا ہے؟
دوسرا سوال: امریکی افواج کے ماہر ترین جرنیلوں کو پورا یقین تھا کہ ان کے جانے کے بعد اے این اے آرمی بیسز، مورچے، محاذ اور امن و امان سنبھالنے کی اہلیت بھی رکھتی ہے اور جدید ترین صلاحیت بھی۔ اگر اے این اے کابل کے حکمرانوں کیلئے لڑنے سے انکاری ہو جائے تو اس سے پاکستان کی سرزمین، حکومت اور افواج پاکستان کا کیا تعلق واسطہ ہے؟
تیسرا سوال: مغربی طاقتوں نے امن ڈیل کروانے کیلئے دوحہ اور جہاں جہاں بھی کابل کے حکمرانوں اور ان کے مخالف جنگجوئوں کے درمیان معاہدے کروائے، ان سے انکار کا الزام کابل کے حکمرانوں کے علاوہ دوسر ے ملک کی حکومت پر کیسے لگایا جا سکتا ہے؟
چوتھا سوال: یہ سوال وزیر اعظم عمران خان نے اگلے روز منسٹریل اَپ ڈیٹ میں افغان کانفلکٹ کے بارے میں بریفنگ کے دوران اُٹھایا۔ سوال یہ تھا کہ موجودہ حکومت شروع سے ہی افغانستان میں جنگ کے بجائے امن کو مسئلے کا حل کہتی آئی ہے۔ پاکستانی حکومت اور فوج نے کھل کر کہا: افغانستان میں امن ہمارے حق میں ہے، اس لئے وہاں ہمارا کوئی فیورٹ نہیں ہے۔ 40 لاکھ افغان مہاجرین کو 40 سال سے پاکستان میں مہمان نوازی اور عزت کے ساتھ ٹھہرایا گیا۔ ہم کسی کی جنگ میں فریق نہیں بنیں گے۔ اس کے بعد پاکستان پر اُنگلی اُٹھانا زمینی حقائق سے آنکھیں بند کرنے کے علاوہ اور ہے کیا؟پاکستان امن چاہتا ہے۔ 70/80 ہزار انسانی جانوں کی قربانی، جوان سے جرنیل تک شہادتیں، 150 ارب ڈالر کا معاشی نقصان، پاکستانیوں کو یاد ہے۔ اسی لئے افغانستان کے ساتھ 2600 کلومیٹر لمبے انٹرنیشنل بارڈر پر سرحدی باڑ کی دیوار کھڑی کی گئی‘ 500 کے قریب چوکیاں اور قلعے اس سرحد کی سرویلنس کیلئے بنائے۔ پاکستان کی طرف سے امن کی خواہش کے اس سے بڑے ثبوت اور کیا ہو سکتے ہیں؟
لمبے عرصے بعد پاکستان کے سارے ادارے اور عوام امن کے پیج پر اکٹھے ہیں۔ پراکسی وار، ابھی بھی اور کبھی بھی #Absolutely Not#۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں