"ABA" (space) message & send to 7575

فاسٹ، چِیپ مائنڈسیٹ

پتہ نہیں کیوں اور کس زمانے میں یہ محاورہ تخلیق ہوا تھا، سستا روئے بار بار اور مہنگا روئے ایک بار۔ گلوبل ولیج کے شہری ان دنوں بار بار، رونے پر مجبور ہوتے ہیں اور یقینا ان سب کے ذہن میں یہ محاورہ دُور دُور تک موجود نہیں ہوتا۔ سان فرانسسکو کی بات مگر دوسری ہے۔
پچھلے 50 سال میں دنیا بھر میں سستی انفارمیشن کا سونامی آیا ہوا ہے جسے لانگ نائو فائونڈیشن نے فاسٹر اینڈ چیپر انفارمیشن کا نام دیا ہے۔ یہ یو ایس اے میں قائم ہونے والی پہلی غیر منافع بخش تنظیم ہے، جو سال 1996 میں سان فرانسسکو میں قائم کی گئی۔ اس این جی او کا مقصد لوگوں کو جیٹ سپیڈ والی فیک نیوز کے پیچھے بھاگنے سے روکنا اور انہیں Slower and Better سوچ کو فروغ دینے کی طرف واپس لانا ہے۔ اگر کوئی ہلکی سی تکلیف کرکے سرسری سی تحقیق کرے تو بھی فاسٹ اور چِیپ مائنڈسیٹ کے دل دہلا دینے والے فیک نیوز آئٹم، بلاگ، وڈیو اور یوٹیوب چینل ملیں گے جن کے ذریعے دنیا کے اربوں انسانوں تک یہ وبا پہنچائی جا رہی ہے۔
مثال کے طور پر ایسی چِیپ اور فاسٹ انفارمیشن جس کی گرافکس میں چھپکلی کا منہ کھول کر اس میں ہاتھی کی سونڈ گُم ہوتی ہوئی دکھائی دے گی‘ آپ وڈیو سبسکرائب کریں اور آخر تک چھپکلی والا معجزہ دیکھتے رہ جائیں، لیکن نہ ہاتھی ملے گا نہ ہی چھپکلی۔ انسانی آنکھ اور جذبات دونوں کے لئے ہیجان انگیز اور تلاطم خیز چیپ اینڈ فاسٹ سوچ، سماج میں کیا کیا بیماریاں اور وارداتیں کروا رہی ہے، اسے جاننے کے لئے اب کسی لمبی بحث کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس فاسٹ اینڈ چِیپ مائنڈسیٹ والوں میں فرد‘ شہری، مرد عورت ہی نہیں رہے بلکہ سماج اور ملک بھی اب اس کے نشانے پر ہیں۔
اس حوالے سے ایک بہت دلچسپ تناظری گفتگو مسٹر Kishore Mahbubani نے کی۔ مسٹر کشور سنگاپورین سوِل سرونٹ ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک کیریئر ڈپلومیٹ اور اکیڈمکس کی دنیا کا بڑا نام بھی ہیں۔ عالمی امور میں ان کے تجربے کی گہرائی کا اندازہ لگانے کے لئے اتنا جان لینا ہی کافی ہوگا کہ مسٹر کشور ماہبوبانی نے 1971 سے سال 2004 تک سنگاپور کی منسٹری آف فارن افیئرز میں اپنے دور کے دوران اقوام متحدہ میں سنگاپور کے مستقل مندوب کے طور پر بھی خدمات سرانجام دیں۔ اسی دوران جنوری 2001 سے مئی 2002 تک کے عرصے میں مسٹر کشور اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے صدر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
دس پندرہ سال پہلے مغربی دنیا نے عوامی جمہوریہ چین کو سلیپنگ جائنٹ آف ایشیا کا لقب دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی چائنیز کو ہالی وُڈ کی فلموں میں ولن کے طور پر دکھایا جانے لگا جس کا مرکزی نکتہ یہ ہوتا کہ چائنا کے لوگ کسی آہنی دیوار کے پیچھے بند ہیں۔ یہ فاسٹر انفارمیشن کی چِیپر مائنڈسیٹ کو آگے بڑھانے کی گلوبل مثال ہے۔
مسٹر کشور نے Slower and Better سوچ کو آگے بڑھانے کے لئے فیکٹس، یعنی حقائق اور فگرز، یعنی اعدادوشمار جمع کرکے سوچ کے ان دو دھاروں کے مابین نہ صرف تقابلی جائزہ پیش کیا بلکہ فیک نیوز کے طوفان کو دھول بھی چٹا دی۔ اس حوالے سے پھیلائے گئے کچھ ناقابلِ تردیدحقائق یوں سامنے رکھے:
پہلی حقیقت: ہر سال 120 ملین سے زیادہ چائنیز شہری (چین کے بیرون ملک جانے والے سیاحوں کی یہ تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق ریاست کیلی فورنیا کی آبادی سے زیادہ ہے) بڑی آزادی سے بطور ٹریولر چائنا سے باہر نکلتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر یہ 12 کروڑ افراد آزادی سے چائنا واپس بھی پہنچ جاتے ہیں۔ اگر ملک چین کمیونسٹ gulag (سابق روسی لیبر کیمپس) جیسی ریاست ہوتی تو کیا چین کے یہ شہری کبھی اپنے ملک میں واپس آتے؟
دوسری حقیقت کا تعلق عوامی جمہوریہ چین کے معاملے میں ایک مکمل اور بھرپور غلط فہمی پر مبنی ہے۔ کھلی آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے کہ جہاں چائنا میں سیاسی آزادی مغربی ماڈل سے کم اور بہت مختلف ہے، وہیں پہ چین کے عوام کی ذاتی آزادیوں میں دھماکہ خیز اضافہ ہوا ہے۔ کسی بھی ملک میں شہری آزادیوں کا مطلب صرف بے تکا بولنا نہیں ہے بلکہ اس کا آغاز معاشی آزادیوں اور ترقی کے ایک جیسے مواقع ملنے سے ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ وطن پارٹی کیس اور کئی دوسرے مقدمات میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس جیسی آزادیوں کو رائٹ ٹو لائف قرار دیا‘ جس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ اب کوئی اپنا پیٹ تقریروں، لیکچرز اور بھاشن سے نہیں بھر سکتا بلکہ پیٹ صرف راشن سے بھرتا ہے۔ بھاشن سے حبیب جالب یاد آتے ہیں، جنہوں نے کیا خوب کہا:
بہت میں نے سنی ہے آپ کی تقریر مولانا
مگر بدلی نہیں اب تک مری تقدیر مولانا
تیسری حقیقت کا تعلق ایسے حیرت کدے سے ہے جو مستقبل کے تاریخ دانوں اور وقائع نگاروں کے لئے Déjà vu ثابت ہوگا، وہ ہے امریکہ کی جانب سے چائنا سے متعلق ججمنٹس کا۔ آئیے جانتے ہیں وہ کیونکر حیران ہوں گے۔ امریکہ تقریباً 245 سال پرانا ملک ہے۔ اس کے مقابلے میں چائنا کی تاریخ شاید 2,450 سال پرانی ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج کی دنیا میں آپ کے پاس ایک ایسی سوسائٹی ہے، جس کی عمر 245 سال ہے۔ اس کی طرف سے ایک ایسی سوسائٹی پر ججمنٹ پاس کرنا جو 2,450 سال پرانی ہے، اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب چین نے اپنی تاریخ کے بہترین 30 سال گزارے ہوں، اور دنیا بھر میں کوئی دوسری قوم یا ملک اس کا مقابلہ نہ کر سکا ہو۔ ایسے وقت میں امریکنز، چائنیز سے کہہ رہے ہیں ''آپ لوگوں کے حالات اچھے نہیں ہیں، آپ کو اپنا سیاسی نظام بدل لینا چاہئے، ہماری بات سنیں اور آپ ہمارے جیسی جمہوریت بن جائیں، پھر آپ کے ساتھ سب اچھا ہوگا۔‘‘
چوتھی حقیقت: چائنیز لیڈرز کے درمیان رائے کے کئی رنگ ہیں مگر ایک نکتے پر سب اتفاق کرتے ہیں، انہوں نے دیکھا کہ سوویت یونین کے ساتھ کیا ہوا۔ وہ لوگ راتوں رات جمہوریت میں تبدیل ہو گئے، معیشت تباہ ہوگئی، زندگی کا معیار نیچے آگیا۔ اس پہ گہری سوچ والے چائنیز تھنکرز نے کہا: ہم تبدیلی اپنے طریقے سے لائیں گے۔ پھر سب نے دیکھا، چین میں چائنیز کے طریقے سے تبدیلی آئی۔ آدھی دنیا اس تبدیلی سے خوش ہے اور آدھی دنیا اس تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے ہاتھ پیر مار رہی ہے۔
کبھی نہ کبھی آپ کے موبائل فون پر ایسا پیغام ضرور آیا ہوگا کہ آپ کے پَردادا جو افریقہ اور جمیکا کے دورے کے دوران اپنا سونا اور بینک بیلنس وہیں بھول گئے تھے‘ اب افریقہ اور جمیکا کی حکومت وہ خاندانی خزانہ آپ کو واپس کرنا چاہتی ہے۔ آپ صرف تین ہزار ڈالر، اپنا بینک اکائونٹ، کوڈ پِن اور ڈیٹا، ای میل کریں اور بیٹھے بٹھائے کروڑوں‘ اربوں کے مالک بن جائیں۔
چیپ اینڈ فاسٹ ذہنیت والے، ایسے پیغام کو سچ سمجھ لیتے ہیں اور فاسٹ ٹریک امیر بننے کے اس سچے طریقے کو آزماتے بھی ہیں۔ نیشن سٹیٹس کے درجے پر بھی پچھلے 200 سال سے بالکل ایسا ہی ہورہا ہے۔ مغرب کی سُپر معاشی اور سیاسی طاقتیں آپ کی بہتری کے بارے میں آپ سے زیادہ جانتی ہیں۔ وہ آپ کی دنیا کے بہترین جج ہیں۔ انہیں پکی عادت ہو گئی ہے کہ وہ دوسروں کو بتائیں کہ اُنہیں اپنی بہتری کیلئے کیا کرنا ہے۔
ذرا ٹھہریئے! فاسٹ اینڈ چِیپ فیڈر ہاتھ سے پھینک دیں۔ دھیرے سے گہری سوچ میں جائیں، خود فیصلہ کریں‘ آپ کے اور آپ کے ملک کے حق میں کیا بہتر ہے۔ خود مختاری کا سفر یہیں سے شروع ہوتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں