"ABA" (space) message & send to 7575

بزرگوں کی یادگار

پرویز مشرف صاحب کے ساڑھے 9 سالوں میں 3 وزیر اعظم آئے، جس کے بعد چوتھا ایک عبوری وزیر اعظم تھا۔ مشرف صاحب کے بعد پی پی پی کی حکومت قائم ہوئی تو اُس میں بھی 2 وزیر اعظم لائے گئے‘ جس کے بعد آنے والے عبوری وزیر اعظم کو ملا کر کُل 7 عدد پرائم منسٹر بنتے ہیں۔ پھر پی ایم ایل (این) کی باری آئی، وہ بھی تیسرے نواز دور میں، جب 2 وزیر اعظم اور ایک عبوری پرائم منسٹر کا اضافہ ہو گیا۔ اس طرح سب کو شامل کرکے وُزرائے اعظم کی کُل تعداد 10 بن جاتی ہے لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی احتساب آرڈیننس کی مقدس گائے کو چھیڑنا تو دور کی بات، ہاتھ تک نہ لگایا۔ کیا کوئی دیوار پر لکھی ہوئی اس تاریخی حقیقت سے انکار کر سکتا ہے؟
اب چلتے ہیں دوسری کُھلی سچائی کی طرف۔ 12اکتوبر 1999 کے دن آئین پاکستان کو معطل کرکے جو صدارتی احکامات جاری کئے گئے تھے، اُن میں پریزیڈینشل آرڈر نمبر1 کے ذریعے نیشنل اکائونٹیبلٹی آرڈیننس مجریہ 1999 کا نفاذ بھی شامل تھا۔ اس قانون کو عرفِ عام میں نیب آرڈیننس کہہ کے بلایا جاتا ہے مگر اسے کس کی ناکامی کہا جائے یا کس کی بے جرأتی کہ ادارہ جاتی احتساب کے اس آرڈیننس نے کبھی پارلیمنٹ کا منہ تک نہیں دیکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ پارلیمنٹ کے کسی ایوان نے پارلیمانی پروسیس مکمل کرکے اس آرڈیننس کو کبھی باقاعدہ قانون میں تبدیل نہیں کیا۔ نہ کبھی اسے بل کی شکل میں نیشنل اسمبلی یا سینیٹ آف پاکستان کے فلور پر لایا گیا، اور نہ ہی اس میں کبھی کوئی لاء ریفارم کا پیکیج آیا۔
اس تسلسل کی تیسری ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ لاتعداد مرتبہ ملک کی پانچوں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس قانون میں اصلاحات لانے کیلئے احکامات جاری کئے۔ عدالتی احکامات جاری ہونے کا یہ سلسلہ انور سیف اللہ کیس سے شروع ہوا، اور پھر چلتا ہی چلا گیا‘ مگر پچھلے 10 کے 10 وزیر اعظم ٹس سے مس نہ ہوئے۔ دو تہائی کی بھاری اکثریت والے نواز شریف صاحب نے بھی احتساب آرڈیننس 1999 کو احتسابی بزرگوں کی یادگار سمجھ کر سینے سے لگائے رکھا۔
آگے بڑھنے سے پہلے بزرگوں کی نشانی والی کہانی سن لیجئے۔ یہ ہندوستان میں راج واڑوں کی حکمرانی کا دور تھا۔ کہتے ہیں مغل ایمپائر قائم ہونے سے بھی پہلے کا۔ کوئی راجہ جی اگلے جہان کو سُدھارے تو اُن کے ولی عہد نے راج سنگھاسن پر پہلا قدم رکھا۔ عقل مند وزیر نے نوآموز راجہ کو قیمتی مشورہ دیا کہ بندی خانے میں موجود قیدیوں کو ریلیف دینے سے دیوتا اُن پر راضی ہو جائیں گے اور جب تک سورج چاند رہے گا‘ اُن کا راج دربار چلتا رہے گا۔ راجہ جی قید خانے کے دورے پر پہنچے تو پہلے سیل کے قیدی سے پوچھا: کس جرم میں پکڑے گئے ہو؟ جواب ملا: گھوڑے چوری کئے تھے۔ فرمان آیا: اسے رہا کردو۔ اگلے سیل میں اغواکار بند تھے، اُن کو رہا کرنے کا حکم بھی جاری ہوگیا۔ جب تمام سیل قیدیوں سے خالی ہو گئے، تو جیل جمعدار سے نئے راجے نے پوچھا: کوئی اور ہے؟ جواب ملا: جی ہاں، آخری وارڈ کی کال کوٹھڑی میں بند ایک شخص باقی رہ گیا ہے۔ راجہ جی وہاں بھی پہنچ گئے اور بوڑھے قیدی کے بارے میں پوچھا کہ اسے کس جرم میں یہاں بند کر رکھا ہے؟ جواب آیا کہ جرم کا تو پتہ نہیں لیکن یہ آپ کے دادا حضور کے زمانے کا قیدی ہے۔ راجہ صاحب مسکرائے، قیدی سے منہ موڑا، واپس مڑے اور فرمانے لگے: اسے یہیں رہنے دو، یہ بزرگوں کی یادگار ہے۔
ریکارڈ پر آئی ہوئی اس حقیقت کو بھی کون جھٹلا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے برسر اقتدار آتے ہی پہلے سال میں نیب آرڈیننس میں اصلاحات لانے کیلئے 7نومبر 2019 کے دن آرڈیننس جاری کیا۔ قومی اسمبلی میں اکثریت کی بنیاد پر عمران خان کی حکومت نے اسے منظور کرا لیا تھا‘ جس کے بعد آئینی تقاضا پورا کرنے کیلئے اس آرڈیننس کو ہائوس آف فیڈریشن سے پاس کرانے کیلئے پیش کردیا گیا۔ سینیٹ کی کمیٹی میں آج کی دونوں بڑی پارٹیوں کی اکثریت اور سربراہی تھی۔ سینیٹ کے رولز آف بزنس کے مطابق اس احتساب ترمیمی بل کو 60 دن میں پاس ہونا تھا، مگر کبڈی کبڈی کی طرح کمیٹی کمیٹی کھیلتے ہوئے اپوزیشن کے ہاتھوں یہ بل فوت ہوگیا۔
اگلی حقیقت یہ ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے جو قوانین بزرگوں کی نشانی سمجھ کر پچھلی حکومتوں نے بیک برنر پہ رکھے ہوئے تھے، موجودہ حکومت نے انہیں پارلیمنٹ سے پاس کرانے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران شوروغوغا مچ گیا کہ حکومت اپوزیشن سے مذاکرات کیوں نہیں کرتی‘ چنانچہ پارلیمانی مذاکرات شروع ہوئے جن کے 22-21 سیشن بھی ہوئے‘ اس پر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے 34 نکاتی تاریخی این آر او پہلے دینے اور اس کے بعد احتسابی اصلاحات پر ووٹ دینے کا ناجائز مطالبہ قوم کے سامنے آیا۔ سب جانتے ہیں اسی مطالبے کے نتیجے میں مذاکرات کی لائن کٹ گئی اور ایف اے ٹی ایف کی ٹائم لائن میں چونکہ صرف دو ہفتے باقی رہ گئے تھے، چنانچہ حکومت نے پارلیمنٹ کے جوائنٹ سیشن سے قومی اور بین الاقوامی اہمیت کے 12بل ایک ہی دن میں پاس کر دکھائے۔
پچھلے سات عشروں کی حکومتوں کے بزرگوں کی ایک اور بڑی یادگار ہر الیکشن کے بعد دھاندلی کے الزامات کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ ملک کی ہر سیاسی پارٹی نے انتخابی دھاندلی کا شور مچایا مگر کسی میں ہمت اور اخلاقی جرأت پیدا نہ ہوئی کہ وہ الیکٹورل ریفارمز کا پیکیج قوم کے سامنے رکھے۔ اکتوبر 2020 میں مگر یہ سٹریک توڑ دی گئی اور ایک نہیں بلکہ دو انتخابی اصلاحات کے بل موجودہ حکومت قومی اسمبلی کے فلور پر لے گئی۔
ان میں سے پہلا بل 72 اصلاحات پر مبنی ہے‘ جن کے ذریعے 2017 کے الیکشن ایکٹ کے 34 سیکشن ترمیم، اجرا اور تنسیخ کی زَد میں آئے۔ انتخابی اصلاحات کا یہ بل 8 مہینے تک رُل رُل کر تھک گیا، مگر اپوزیشن اس میں ترمیم کیلئے ایک تجویز بھی سامنے نہ لا سکی‘ چنانچہ پی ٹی آئی گورنمنٹ نے اس بل کو اسمبلی سے منظور کروا کر سینیٹ میں ٹرانسفر کردیا‘ جہاں پھر بل تین ماہ کمیٹی کمیٹی کھیلنے کی نذر ہوتا رہا اور اسے منظور یا نامنظور کئے بغیر قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کو واپس کردیا گیا۔ اس پہ اپوزیشن نے دونوں ایوانوں کی جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا۔ حکومت مان گئی چنانچہ اسد عمر صاحب اور بابر اعوان صاحب نے سپیکر چیمبر میں اپوزیشن سے مذاکرات مکمل کرکے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کی قرارداد ہاتھ میں لے کر ہائوس کا رُخ کیا۔ جب پارلیمنٹری امور کیلئے وزیر اعظم کے مشیر، موشن کو ہائوس میں پیش کرنے کیلئے کھڑے ہوئے تو اپوزیشن نے کورم پوائنٹ آئوٹ کر کے اجلاس ملتوی کروا لیا۔ اس طرح پارلیمانی کمیٹی کا خواب اپوزیشن نے پورا ہونے سے پہلے ہی بکھیر کر رکھ دیا۔
دو ہفتے پہلے حکومت اس بل کو نئی موشن کے ذریعے جوائنٹ پارلیمنٹری سیشن میں لے گئی۔ دوسری جانب اپوزیشن کے خطیب میڈیا پر خطابت کے ڈونگرے برسا رہے ہیں۔
شعبدہ گر بھی پہنتے ہیں خطیبوں کا لباس
بولتا جہل ہے بدنام خرد ہوتی ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں