"ABA" (space) message & send to 7575

عشق سے ذرا آگے

قانون کی دنیا میں کہتے ہیں‘ انصاف وہ ہے جو ہوتا ہوا نظر آئے۔ دنیائے عشق کی بات مگر دوسری ہے۔ یہاں جو نظر آئے وہ اور کچھ تو ہو سکتا ہے مگر عشق نہیں۔ عشق وہ ہے جس کے بارے میں کہتے ہیں:
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
کہا جاتا ہے‘ کسی زمانے میں عشق کی دنیا دو علیحدہ علیحدہ جزیروں‘ مجاز اور حقیقت میں تقسیم ہوا کرتی تھی۔ اب مگر حقیقت کہیں دور جا چکی ہے‘ ساتھ ہی مجاز والی دنیا بھی ٹیکنالوجی کے ہاتھوں یرغمال ہو کر بازاری سی بن گئی۔ انسانوں کی تاریخ مگر ایک سچائی کو کبھی بھی تبدیل نہیں کر سکی۔ یہ سچائی کہتی ہے:
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں،بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا
پچھلے تقریباً 10 سال خدا کے بندوں سے پیار رکھنے والی ایک سحر انگیز ہستی کا ذکر سنتے گزرے۔ ساتھ ساتھ میں نے ہمیشہ اپنے گھر میں یہی سنا کہ وقت کو بُرا مت کہو‘ وقت ہمیشہ اچھا ہوتا ہے‘ جو کبھی کبھی کم اچھا ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک وقت میں خدا کے بندوں سے پیار کرنے والے‘ سادگی اور محبت کے حقیقی پیکر سے ہمارا تعلق شروع ہوا۔
یو کے میں قانون کی تعلیم سے فارغ ہو کر گھر واپس آنے کے بعد میں نے تربیلا سے ذرا آگے پہاڑوں کے درمیان عمرا نامی بستی میں حمید خان صاحب کے پاس پہلی حاضری دی۔ چند دن پہلے والد صاحب اور کچھ دوستوں کے ساتھ پھر عمرا جانا ہوا۔ اسلام آباد سے شمال کی طرف M1پر 55منٹ کی ڈرائیو کے بعد نشانِ حیدر کیپٹن کرنل شیر خان شہید کے نام سے انٹر چینج آتا ہے۔ جہاں سے اُتر کر ضلع اٹک اور ہزارہ کے سنگم پر واقع تحصیل غازی کی مین سڑک سری کوٹ کو جاتی ہے۔ اس روڈ پر غازی بروتھا نہر سے 10‘ 12 منٹ کی ڈرائیو کے بعد دائیں طرف گائے ‘بھینس اور بیلوں کاایک بڑا باڑا نظر آتا ہے جبکہ اُس کی عین بائیں طرف سڑک پر ہم رُک گئے۔سامنے بان کی ایک پرانی چارپائی پر ہمارے گوہرِ مقصود براجمان تھے۔پرانی طرز کا دیہاتی سا ایک تکیہ جسے ہندکو پوٹھوہاری میں سرہانہ کہتے ہیں‘اپنی طویل عمری کی چغلی کھاتے ہوئے پڑا تھا۔یہ گھر یا ڈیرہ پچھلے تقریباً نوعشروں سے سری کوٹ اور اس سے آگے ناردرن ایریا یا پھر کشمیر جانے والے مسافروں کیلئے شجرِ سایہ دار چلا آرہا ہے۔ 24گھنٹے بھوک سے ستایا ہوا جو مسافر یہاں رُکے گا ‘اُس کیلئے لنگر موجود ہوتا ہے‘بلکہ چائے بھی۔آپ سوچ رہے ہوں گے میں نے گائے ‘ بھینس کے بڑے باڑے کا ذکر کیوں کیا؟یہ باڑا ان کا ہے اور اس سے پیچھے ندی کنارے حمید خان صاحب گندم اُگاتے ہیں۔ سال بھر جو بچھڑے اور کٹے جوان ہوتے ہیں ‘اُنہیں ذبح کرکے اُن کا گوشت اُن مسافروں کو گندم کی روٹیوں کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے ‘ جن سے نہ کوئی جان ہوتی نہ پہچان۔
دور دراز پہاڑی علاقے میں طبقے ‘فرقے اور رتبے کی پروا کئے بغیر اس لنگر میں محتاج و غنی سب سے ایک سا سلوک ہوتا ہے۔بے غرض مالک کی خوشنودی کیلئے مہمان نوازی کا سلوک ۔آج کی دنیا میں کئی قسم کی تقسیم انسانوں کے ساتھ جدا جدا سلوک کا باعث بن رہی ہے مگر یہاں آنے والوں کے ڈرائیور‘ کارندے اور کسی صاحب میں رتی بھر فرق نہیں کیا جاتا۔ایک جیسی پیالیوں میں سب کے لیے چائے آتی ہے۔ایک ہی تندور کی ایک جیسی روٹیاں سب مہمانوں کے سامنے رکھی جاتی ہیں اور ایک ہی جیسی دال ‘سبزی یا گوشت کی سنگل ڈش سب کو ایک جیسی مٹی کی بڑی بڑی پلیٹوں میں کھانے کو ملتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے اسی خطے کے درّوں‘وادیوں اور چٹانوں سے کبھی ایک ہی صف میں کھڑے ہونے والے محمود و ایاز گزرا کرتے تھے۔یہاں پہنچ کے نہ کوئی وی آئی پی رہتا ہے اور نہ ہی کوئی ایک جیسی محبت سے محروم رہ سکتا ہے۔
جناب حمید خان صاحب قد آور اور وجیہ بزرگ ہیں۔عجز اور انکسار کا یہ عالم کہ جب تک چپل ٹوٹتی نہیں تب تک وہ تبدیل نہیں ہوتی۔اپنا ذاتی مال اور اسباب انجان لوگوں پر قربان کرنے والے رمز میں بات کرتے ہیں۔پاکستان کو سونے کے پر والا شاہین سمجھتے ہیں ۔بہت کم گو مگر بولیں تو محبتوں کے پھول جھڑتے ہیں۔آپا دھاپی اور مار دھاڑ کے کلچر میں اللہ کی مخلوق سے بے غرض محبت کرنے والی ایسی ہستی اور اُس کا وجود صحیح معنوں میں نعمت ہے۔ ایسی نعمت جس کی وجہ سے لاتعداد مسافر اور حاجت مند جنگل کے بیچوں بیچ نعمت کدے سے استفادہ کر رہے ہیں۔
سیانے کہہ گئے ‘سفر ہے شرط !مسافر نواز بہتیرے۔پچھلے ہفتے مجھے لال حویلی جانے کا اتفاق ہوا جہاں شیخ رشید صاحب کھلی کچہری میں بیٹھے تھے۔سینکڑوں حاجت مند بوہڑ بازار سے شیخ رشید صاحب تک لائن میں لگے ہوئے ملے۔مجھے کمال شفقت سے شیخ رشید صاحب نے اپنے ساتھ نشست دی ۔دوستوں سے میرا تعارف کروایااور اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ ان سے کھل کر بات چیت کریں ‘یہ بیرسٹر تو ہیں مگر گپ شپ لگانے کی کوئی فیس نہیں لیتے۔ اُنہوں نے سٹاف سے کہا ‘ انہیں لال حویلی کا ٹور کروائیں اور میری رہائش گاہ سمیت انہیں چھت پہ اندرون شہر کا نظارہ کروائیں۔میں تقریباً100منٹ تک شیخ رشید صاحب کے ساتھ بیٹھ کر اُن کی آرٹ آف پبلک ریلیشننگ میں مہارت دیکھتا رہا۔میرا ایک تجربہ حیران کن حد تک دل کو چھو جانے والا نکلا ۔میں چونکہ اُن کے بالکل ساتھ بیٹھا تھا‘ آگے لوگوں کا ہجوم‘اس لئے اُن کی گفتگو اور ڈھیلی ڈھالی نشست پہ ہر موومنٹ کو دیکھ سکتا تھا۔ایک بزرگ خاتون آئیں ‘کہا: شیخ پتر‘ آج گھر میں راشن نہیں ہے۔شیخ رشید صاحب نے اپنے ایک سٹافر کو بلا کر اُس کے کان میں کچھ کہا۔چند منٹ میں وہی لڑکا ایک ہاتھ میں دال کے پیکٹ اور ایک ہاتھ میں آٹے کا تھیلا لے کر بزرگ خاتون کو ساتھ لے کر لال حویلی کی سیڑھیاں اُتر گیا۔
شیخ رشید صاحب چوکڑی مارے بیٹھے تھے ۔ میں نے دیکھا وہ کچھ لوگوں کے لیے اپنے گھٹنے کو تھوڑا سا اوپر کرتے اور اُن کے کان میں کچھ کہہ کے انہیں انتہائی غیر محسوس طریقے سے کچھ دے رہے تھے۔ اتنی دیر میں ایک متین اور پڑھے لکھے حلیے والی بزرگ خاتون شیخ رشید صاحب کے پاس تشریف لائیں اور آہستہ سے کہا '' بیٹی کی فیس جمع کرانی ہے۔‘‘شیخ رشید صاحب نے گھٹنے کے نیچے سے مالی امداد نکالی اور خاتون کو تھمادی۔اس دنیا میں کسی کے پاس کوئی ظاہری رتبہ ہو یا پھر باطنی‘ اس کے پیچھے اللہ ربّ العزت کی کوئی عطا ضرور ہوتی ہے‘یہ ضروری نہیں کہ ہم ایسی کسی عطا کی وجہ جان سکیں ۔ شیخ رشید صاحب کے سٹاف نے لال حویلی دکھائی اور اُن کا پرائیویٹ رہائشی پورشن بھی۔یہ حویلی پچھلی سے بھی پچھلی صدی کی عشق سے ذرا آگے والی داستان سے جڑی ہوئی ہے۔جس میں حیرت کا ایک دروازہ وہاں کھلتا ہے جہاں ایک ہی کمپائونڈ میں چھوٹی سی مسجد بنی ہوئی ہے اور چھوٹا سا مند ر بھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں