"ABA" (space) message & send to 7575

گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیر… (آخری حصہ)

6مارچ 1958ء کے دن اپنے معرکۃُالآرا ناول ''اور تلوار ٹوٹ گئی‘‘ کے پیش لفظ میں نسیم حجازی صاحب نے دو کمال کے فقرے لکھے۔ پہلا فقرہ یہ ہے ''آج ڈیڑھ سو سال بعد سلطان شہیدؒ کی روح سرنگاپٹم کے کھنڈروں کی طرف اشارہ کرکے ہمیں یہ پیغام دے رہی ہے کہ جو قوم اپنی صفوں میں کسی میر صادق کو جگہ دیتی ہے‘ اِس کا کوئی قلعہ محفوظ نہیں ہوتا‘ جس جہاز کا کوئی مسافر اس کے پیندے میں سوراخ کررہا ہو، اُسے دنیا کے بہترین ملاح بھی ڈوبنے سے نہیں بچا سکتے‘‘۔
حضرت ٹیپو سلطان ؒ نے برطانوی حکومت اور میسوری سلطنت کی آخری جنگ کے آخری دن غدارِ وطن میر صادق سے کُھل کر کہہ دیا تھا، ''ایسی بات نہیں کہ ہم تمہاری غداری سے آگاہ نہیں ہیں۔ تم اپنی اِس بے وفائی کا مزا جلد ہی چکھو گے، اور تمہاری آئندہ نسلیں تمہارے سیاہ کارناموں کی نحوست سے ایک ایک دانہ کی محتاج ہوں گی‘‘۔
یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اگر حضرتِ ٹیپو سلطانؒ 4، 5 صدیاں پہلے دنیا میں آتے تو وہ میسور کے نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے سلطان ہوتے۔ تاریخ سے اس کے لاتعداد ثبوت ملتے ہیں۔ حضرتِ ٹیپو سلطانؒ صرف ایک جنگجو نہیں تھے بلکہ ایک ریفارمر حکمران، دین و دنیا کے عمل کا مرقع اور سائنس میں گہری دلچسپی رکھنے والی شخصیت تھے۔ حضرتِ ٹیپو سلطانؒ نے ایک ایسے دور میں فلاحی ریاست کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا، جب باقی ہندوستان کے نواب زادے اور راجواڑے اپنی اپنی رعایا کی ہڈیوں پر اُن کے خون اور پسینے سے اپنے لیے عشرت کدے تعمیر کررہے تھے۔
حضرتِ ٹیپو سلطانؒ کا علاقہ ہندوستان کا انتہائی پسماندہ علا قہ تھا‘ جس میں بے شمار صدیوں سے جہالت، افلاس اور بھوک راج کررہی تھی۔ ٹیپو سلطانؒ اور اُن کے والدِ گرامی حیدر علی سے پہلے ریاستِ میسور کے عوام کی کوئی اپنی تاریخ نہیں تھی، اور نہ ہی شناخت لیکن ٹیپو سلطانؒ کی حکمرانی کے صرف چند سال سارے کے سارے ہندوستان کی تاریخ پر چھائے ہوئے ہیں۔ وہ ایک ایسے دور کے حکمران ہیں، جب ہر روز ہندوستانیوں کے گلے میں برٹش راج کی غلامی کا نیا طوق پہنایا جارہا تھا۔ خاص طور ہر مشرقی ہندوستان کے قلعوں پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے جھنڈے نسب ہورہے تھے۔ دوسری جانب ریاست میسور کے باپ بیٹا شیردل معمار کی حیثیت سے سرنگا پٹم، منگلور اور چیتل ڈرگ کے علاقوں میں قوم کی آزادی کے نئے مرکز تعمیر کررہے تھے۔
یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ جو میر اور مرہٹے ریاستِ میسور پر انگریزوں کی پشت پناہی کے ساتھ بھیڑیوں اور گیدڑوں کی طرف جھپٹ رہے تھے، وہ حضرت ٹیپو سلطانؒ کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کا کہیں مقابلہ نہ کرسکے چنانچہ 1803 عیسوی، یعنی حضرت ٹیپو سلطانؒ کی شہادت کے صرف تین سال بعد سندھیہ ھونسلہ، جن کی فوجیں میسور سے بہت بڑی تھیں، اُنہیں روندتے ہوئے ایسٹ انڈیا کمپنی دہلی میں داخل ہوگئی۔ 1804 میں مرہٹوں کے اقتدار نے آخری ہچکی لی اور کھڑے ہونے کی کوشش کی لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی کے سامنے اِن کے لاکھوں سپاہی گیدڑوں کا اکٹھ ثابت ہوئے۔
حضرت ٹیپوسلطان کے خاندان کی تاریخ بتاتی ہے کہ اُن کا تعلق قریش کے قبیلے بنو ہاشم سے تھا۔ یہ عظیم النسب حیدر علی کے پردادا کی زندگی میں ہمارے موجودہ صوبہ پنجاب سے ریاست دکن کے علاقے گلبرگہ میں جاکر آباد ہوئے تھے۔ حیدر علی کے والد فتح محمد ریاست میسور میں فوجدار کے عہدے پر فائز تھے۔ جب سلطان حیدر علی کی عمر صرف پانچ سال تھی تو اُن کے والد ایک لڑائی میں مارے گئے۔ والد کے بعد چچا نے حیدر علی کو فنون سپاہ گری سکھائے تھے۔ نوجوان حیدر علی نے 1752 میں میسور کے ہندو راجہ کی فوج میں ایک سپاہی کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ تب اس چھوٹی سی ریاست پہ مرہٹوں کے مسلسل حملوں کا دور تھا۔ اپنی بے پناہ بہادری اور خداداد قابلیت کے بدولت حیدر علی 1755 میں راجہ کی فوجوں کے سالار بن گئے۔ سلطان حیدر علی کی حکومت کا آغاز 1761 عیسوی سے ہوتا ہے۔
سلطان حیدر علی کی تخت نشینی کے وقت ریاست میسور میں صرف 33 گائوں شامل تھے‘ مگر حیدر علی نے تھوڑے ہی عرصے میں 80 ہزار مربع میل سے زیادہ علاقے میں اپنی حکومت قائم کرلی۔ وہ اصلاح کار، رحم دل اور بہادر سلطان تھے، جنہوں نے انگریزی فوج کے خلاف دو جنگیں لڑیں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے فوجیوں کو دونوں جنگوں میں فیصلہ کن اور ذلت آمیز شکست دی۔ پہلی جنگ میسور 1767 سے 1769 تک دو سال لڑی جاتی رہی۔ اس جنگ کے دوران حیدر علی مدراس کی دیواروں کے نیچے پہنچ کر قلعہ بند گوروں پر ایسے حملہ آور ہوئے کہ گوروں نے سلطان کی شرط پر صلح نامہ تحریر کرکے سرنڈر کردیا۔ دوسری جنگ میسور چار سال تک لڑی جاتی رہی۔ 1780 میں یہ جنگ شروع ہوئی اور اس کا اختتام 1784 میں تب ہوا جب ٹیپو سلطانؒ نے کرنل بیلی اور میجر منرو کی فوجوں کو عبرتناک شکستوں سے دوچار کیا۔ جنگ کے دنوں میں، جب سخت سردی کا موسم تھا، 7دسمبر 1782 کے دن سلطان حیدر علی‘ جو سرطان کے مریض تھے‘ وفات پا گئے۔
حضرت ٹیپو سلطانؒ 20 نومبر سال 1750 کو پیدا ہوئے جبکہ عمر عزیز کے 48ویں سال میں، 4مئی 1799 کو شیر میسور نے شہادت کو گلے لگالیا۔ حضرت ٹیپو سلطانؒ کا مزار موجودہ بھارت کے علاقے کرناٹک کے شہر سرنگاپٹم میں دنیا بھر کے آزادی پسندوں کیلئے مرکزِ نگاہ ہے۔ حضرت ٹیپو سلطانؒ صرف سیاست دان، حکمران ہی نہیں مصنف بھی تھے۔ وہ فارسی، عربی، کنڑ زبان، ملیالم اور تیلگو زبانوں کے ماہر تھے۔
حضرت ٹیپو سلطانؒ اور ڈاکٹر اے کیو خان میں ایک اور قدر مشترک اسلامی ریاست کے لئے خود ساختہ راکٹ کی ایجاد بھی ہے۔ حضرت ٹیپو سلطان نے دنیا کا سب سے پہلا فوجی راکٹ طغرق کے نام سے بنایا تھا۔ پورے ہندوستان کے حکمرانوں میں میسور کی سلطنت خداداد کے سلطان ٹیپو اور اُن کے والد حیدر علی نے بحری طاقت کی اہمیت اور اُس کے عسکری استعمال کو اہمیت دی۔ ٹیپو سلطان نے قدرتی بندرگاہوں میں توسیع کرائی، ساحلوں پر حفاظتی انتظامات کئے اور اپنی ذاتی نگرانی میں 20 بڑے اور 32 چھوٹے جہاز تیار کروائے۔ بڑے جہازوں پر 72 عدد بڑی توپیں نصب کی جا سکتی تھیں۔ اس کے علاوہ 66 جہاز اور بھی بنوائے جو فوجی نقل و حرکت کے لئے استعمال ہوتے تھے۔ اِن میں 110 فٹ کے تین جہاز، 112 فٹ کے 65،105 فٹ کے 2 بحری جہاز بھی شامل تھے۔
اردو ادب اور عالمی سیاست میں حضرت ٹیپو سلطانؒ نے گہرے نقش ثبت کئے ہیں۔ سیماب اکبر آبادی اور حضرت علامہ اقبال جیسے شاعروں نے ٹیپو سلطانؒ کے حضور خراج تحسین پیش کیا۔ علامہ صاحب نے ضرب کلیم میں سلطان ٹیپو کی وصیت کے عنوان سے معرکۃُ الآراء نظم لکھی۔ اس کے دو شعر یوں ہیں:؎
صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبریل نے
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول
باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں