"ABA" (space) message & send to 7575

مڈ ٹرم یا ٹرم؟

ان دنوں تبدیلی کے ہوا باز‘ رنگ برنگے دھوئیں چھوڑتے ہوئے مارگلہ کی فضائوں میں قلابازیاں کھاتے اورچالبازیاں دکھاتے گھوم رہے ہیں۔ چڑیوں کووں کی باتیں ہو رہی ہیں۔ کسی چڑے مار کی چڑیا کو حکومت جاتی نظر آتی ہے‘ تو کسی اور کے کوے کی نظر چڑیا کے انڈوں پر ہے۔جمہوریت کو سولین بالادستی کے ذریعے مضبوط کرنے والے اور بابائے قوم قائداعظم ؒ کے مزار پہ دھمال ڈال کے ووٹ کو عزت دینے والے ڈیپ سلیپ کا شکار ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے‘جسے سمجھنے کے لیے شہر اقتدار کے تین مناظر دیکھنا ہوں گے۔
پہلا منظر: یہ آئین کے اندر ہے‘1973ء کا آئینِ پاکستان‘جس میں ووٹ کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے والی پارٹی کو تھرڈ شیڈول کے ذریعے آئین پانچ سال کے عرصے کا حلف اُٹھواتا ہے‘جسے کانسٹی ٹیوشنل ٹرم آف آفس کہتے ہیں۔ وقت سے پہلے اگر کوئی اس ٹرم کو توڑنے کا مطالبہ کرے ‘فوج یا عدلیہ سمیت کسی بھی سرکاری ادارے سے کہے کہ اس ٹرم آف آفس سے پہلے حکومت توڑو یا تڑوادو‘ایسے میں وہ شیڈول تھری کے حلف کو توڑنے یا تڑوانے کا مطالبہ کرے گا۔آئین کا حلف‘ آئین کا آرگینک حصہ ہے ‘اس لیے آئین کے کسی حصے کو توڑنے ‘اُسے سبوتاژ کرنے‘معطل کرنے ‘یا اس طرح کی کوئی بھی کوشش کرنے کو آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت قابل دست اندازی جرم بنتا ہے۔اس جرم کو ہائی ٹریژن کی واردات کہتے ہیںجس کے ٹرائل کے لیے ہائی ٹریژن پنشمنٹ ایکٹ مجریہ 1973 اور سال 1976 میں پارلیمنٹ سے منظور ہوئے ہیں۔ آئین میں دیے گئے ٹرم آف آفس کو توڑنے یا توڑنے کی معاونت اور سہولت کاری کے لیے اگر کوئی فیصلہ آئے تو اسے بھی18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے سے آئین کے آرٹیکل نمبر6میں جرم کے زمرے میں شامل کر دیا گیا ہے۔ ذیلی آرٹیکل 2Aکے الفاظ یہ ہیں:
[(2A)An act of high treason mentioned in clause (1) or clause (2) shall not be validated by any court including the Supreme Court and a High Court.]
دوسرا منظر: کراچی کے ریگل چوک میں پی ڈی ایم کے رہنمائوں نے اپنی سیاسی بے روزگاری کا نوحہ آئینی نظام کی رخصتی کے غیر آئینی مطالبے کے ساتھ پڑھا۔ڈیموکریسی کے نام پر رینٹ اے کرائوڈ کے صدارتی خطبہ میں فرمایا گیا ‘ اداروں نے کچھ نہ کیا تو سب کا خانہ برباد ہوگا۔ سیاسی روزگار کے حسن ِطلب کی انتہا اُس وقت ہوئی جب چیخیں یہاں پہنچ گئیں کہ تم نے کچھ نہ کیا تو یہ نظام بچے گانہ ہی (خدا نخواستہ)یہ ملک۔
تیسرا منظر وہ انویسٹمنٹ ترتیب دے رہی ہے جس کے سرمایہ کار مڈٹرم الیکشن کروائے جانے کی تکرارکے بیمار ہیں‘اسی لیے ڈاکٹر اُن کی دوسری کوئی بیماری لندن میں بھی تلاش کرنے میں ناکام رہے۔ سادہ سوال یہ ہے ہماری راج نیتی کی تاریخ میں پچھلے74سال میں سے 71سال تک اقتدار جن کے قدموں سے لپٹا رہا ‘ان چلے ہوئے سیاسی کارتوسوں نے دو‘ تین سال میں کون سے تیر مارلینے تھے۔ اُنہوںنے خاندانی کاروبار‘ذرائع ‘ وسائل‘ میگا انڈسٹریل سٹیٹ‘ بیرون ِملک محل ماڑیاں اور نسل در نسل دیار ِغیر کی قدم بوسی پر وطن کی ہوائیں اور فضائیں اپنی ترجیح کبھی نہیں سمجھیں۔ تیسرے منظر کا ایک اور پہلو ہاں البتہ دیکھنے کے قابل ہے ‘ یہ کہ اسمبلیوں کی آئینی عمر کے حوالے سے آئین واحد اختیار ملک کے منتخب آئینی وزیر اعظم کو دیتا ہے ۔ باقی سب راستے آئین سے ماورا اور قانون سے متصادم ہیں۔ اس لیگو کانسٹی ٹیوشنل سکیم کی موجودگی میں باقی کوئی بھی حرکت آئین کو پامال کرنے‘ ملک کے قانون کو پیروں تلے روند دینے اور عوام کے رائٹ آف ووٹ سے کھلا فائول پلے ہے۔
اس وقت سیاسی میدان میںپولرائزیشن کی بنیاد نہ تو لیفٹ رائٹ کی نظریاتی سیاست کی وجہ سے ہے اور نہ ہی سیکولر یا مذہبی تقسیم کی بنیاد پر ہو رہی ہے۔اس کا واحد جواز دو طرح سے دیکھا جا سکتا ہے۔ایک یہ کہ عمران خان کے اقتدار کے اولین تین سالوں میں احتساب کا عہدہ جڑ پکڑ نے سے پہلے ہی جڑ سے اُکھاڑ کر پھینک دیا جائے۔ دوسرے ‘وہ مڈ ٹرم اور لانگ ٹرم منصوبے جن کو جاری پنج سالہ مدت اقتدار کے آخری دو سالوں میں مکمل ہونا ہے انہیں ڈی ریل کردیا جائے اور پارلیمنٹ میں الیکٹورل ریفارمز اور جسٹس سسٹم میں اصلاحات کے جاری پراسیس کو ناکام بنانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کی سٹریٹیجی ہے۔
اسی ہفتے افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ ملا امیر خان متقی صاحب کی قیادت میں ایک وزارتی وفد اسلام آباد آیاجس کے ارکان نے پاکستان کو افغان ٹریڈ‘ریجنل تجارت ‘سمندر کے گرم پانیوں تک رسائی ‘ گیس ‘ریل اور بجلی کے ذریعے علاقے کے سات ممالک کے مابین پاکستان کو ''کی پلیئر‘‘ قرار دیا۔ یہی نہیں بلکہ اکنامک ریکوری‘ مضبوط اور باہمت فارن پالیسی‘ Covid-19سے حیرت انگیز نجات‘ پا کستان کے حصے میں آئی ہے۔ اسے المیہ کہیے یا ایجنڈا ‘یارلوگ پاکستان کے بارے میں اچھی خبر سننے کے ہی موڈ میں نہیں ۔یہ تو دور کی کوڑی لانے والی بات ہوئی ‘ کیوں نہ کوئی اچھی خبر لوگوں تک پہنچائی جائے اوراس کی تازہ ترین مثال چینی کی قیمت سے دی جاسکتی ہے۔جس میں پانچ ‘ دس نہیں بلکہ 33روپے تک کی کمی آگئی ہے۔ شوگر پرائس میں اس قدر کمی ملکی تاریخ میں پہلے شاید ہی ریکارڈ کی گئی ہو۔ مجال ہے کہ اس اچھی خبر کو کوئی قوم کے لیے استعمال کرے یا عوام تک پہنچانے کے لیے مہم چلائے۔سیاست ایک طرف ‘ یہ بہت خطرناک ٹرینڈ ہے۔حکومت تو ایک خاص عرصے کے لیے آتی ہے‘ ملک اور اس میں بسنے والے لوگوں نے سدا اس سرزمین پر ہی آباد رہنا ہے ۔کیا اُن کے مقدر میں فیک نیوز ‘پاکستان کے بارے میں بری خبروں کا روزانہ سیریل اور منفی رجحان پر مبنی تجزیے ہی ہیں؟ کس طرح سے ‘کس طرف قوم کی رہنمائی کررہے ہیں؟ ہیجان اور خلجان پر مبنی اس رجحان کو ٹرینڈ بنا کر چلانے والوں کے معیار کیا ہیں‘یہ جاننے کے لیے ضروری قانون سازی کے لیے مشترکہ پارلیمانی سیشن کے تجزیوں پر ایک نظر ڈال لی جائے۔جب پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کا اعلان کیا گیا‘وہ بھی قومی اسمبلی سے قانون سازی کے 28بل پاس ہوجانے کے تقریباً 10سے 12ماہ بعد توفوراً ماتم شروع ہوگیا کہ اپوزیشن بلڈوز ہو جائے گی۔ جمہوریت کی خوبصورتی کیلئے حزبِ اختلاف سے مزید بات کرلی جائے۔اسی دوران اپوزیشن نے قومی اسمبلی کے سپیکر صاحب اور مشیر پارلیمانی امور سے رابطہ کرکے مل بیٹھنے کی خواہش کا اظہار کیا ‘جس پر پرائم منسٹر عمران خان سے مشاورت کے بعد یہ اجلاس وقتی طور پر ملتوی کردیا گیا۔جس التوا کا مطالبہ کیا جارہا تھا اُس کے سامنے آتے ہی اُسی بینڈ پر دوسرا باجا بجنے لگا۔حکومت اپوزیشن کے سامنے گر گئی ‘اور پی ڈی ایم جیت گئی۔پارلیمنٹ کا مشترکہ سیشن ناکام ہوگیا۔آپ ہی بتایئے ‘اب یہ سیشن برپا کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے اندر چلیں ‘یا تجزیے کے لٹھ برداروں کے پاس؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں