"ABA" (space) message & send to 7575

18 کروڑ 70 لاکھ انسان اور دو انجان… (1)

پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کے اعدادوشمار کے مطابق 2021 میں اکتوبر کے مہینے تک پاکستان کے طول و عرض میں سیلولر سبسکرائبرز کی تعداد 18 کروڑ 70 لاکھ سے بھی آگے بڑھ چکی ہے‘ مگر یقین کیجئے! اگر یقین نہ آئے تو پھر امجد اسلام امجد کی بڑی دل نشین اور کمال کی تخلیق ''محبت کی ایک نظم‘‘ پڑھ کر مزہ لیجئے یا پھر 22 کروڑ لوگوں کے ایک ایسے سابق وزیر اعظم پر ترس کھا لیجئے جو ویسے تو تمام دن اور ساری ساری رات ٹی وی سکرین پر یا پھر میڈیا پر ہوتے ہیں، لیکن اِنہیں ابھی تک واٹس ایپ پر میسج کرنے کا فن بھی نہیں آتا۔
واٹس ایپ میسج کی طرف چلئے بعد میں آ جائیں گے، امجد اسلام امجد صاحب نے اگر اور مگر جیسی سیاسی اصطلاحوں کو رومانوی شاعری میں کیسے دل فریب انداز سے استعمال کیا‘ پہلے وہ دیکھ لیتے ہیں:
کسی ستارے کو دیکھ لینا
اگر وہ نخلِ فلک سے اُڑ کر
تمہارے قدموں میں آ گرے
تو یہ جان لینا وہ استعارہ تھا
میرے دل کا
اگر نہ آئے، مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے کہ تم کسی پر نگاہ ڈالو
اور اس کی دیوارِ جاں نہ ٹوٹے
وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے
ایک منٹ کے لیے سابق وزیر اعظم کے دعوے کو بھول جاتے ہیں، اور چلتے ہیں 22 کروڑ لوگوں کے دیس میں جہاں گلی گلی کوچے کوچے موبائل فون استعمال کرنے والے خواتین و حضرات کی طرف جو 3G ٹیکنالوجی اور 4G کی دنیا کے موبائل یوزرز بھی ہیں۔ ایسے پاکستانیوں کی تعداد 10 کروڑ 60 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔
قارئین وکالت نامہ، اگر آپ یوتھ گروپ کی عمر کے زمرے میں آتے ہیں تو آپ کو بتانے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اگر آپ ماں باپ یا دادا دادی، نانا نانی ہیں تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ان دنوں قوم کے بچے اور آپ کے گرینڈ چلڈرن بات چیت کرنا بعد میں سیکھتے ہیں، ٹیبلِٹ پکڑنا اور موبائل سے کھیلنا پہلے سیکھ جاتے ہیں‘ اس لئے آئی ووٹنگ اور ای وی ایم ووٹنگ کے قانون پاس ہونے کے بعد یہ کہنا کہ پاکستان میں ووٹر انٹرنیٹ یا الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا بٹن نہیں دبا سکتا، ایسا ہی ہے جیسے یہ کہنا کہ میں وزیر اعظم ہائوس تو چلا سکتا ہوں مگر میں واٹس ایپ پر پیغام نہیں چلا سکتا۔
پی ایم ہائوس چلانے سے یاد آیا کہ چند روز پہلے بڑے دھوم دھڑکے سے ایک آڈیو لیک جاری کیا گیا‘ جس کے بارے میں دعویٰ یہ تھا کہ یہ ایک خفیہ ٹیلی فون کال ہے، جس کے ذریعے نامعلوم افراد نے انصاف کے سب سے بڑے عہدے پر براجمان ایک ریٹائرڈ شخصیت سے فون پر سیکرٹ پلان بنایا تھا۔ اس آڈیو کو لیک کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ 2018 کا الیکشن پہلے سے طے شدہ میچ تھا اور نواز شریف صاحب اور مریم نواز صاحبہ کو کرمنیلٹی پر نہیں بلکہ فرمائش پر سزا دی گئی۔ اس حوالے سے پاکستان کے ایک انگریزی روزنامے کے رپورٹر نے امریکہ سے اس آڈیو ٹیپ کا فورنز ک ٹیسٹ کرنے والی کمپنی Garrett Discovey کے سی ای او مسٹر گیرٹ کا انٹرویو کیا‘ جو کل، یعنی جمعرات کے دن پاکستان میں پبلش ہوگیا۔ گورے گیرِٹ صاحب نے اس آڈیو ٹیپ کے ساتھ وہی کیا جو مریم نواز صاحبہ نے اباجی کے تیسرے دور حکومت والے میڈیا سیل کے ساتھ کردکھایا ہے۔
مریم صاحبہ سے پہلے آئیے گورا گیرٹ صاحب کے انٹریو کے صرف تین نکات دیکھ لیں۔
پہلا نکتہ: گیرٹ ڈسکوری کا سی ای او کہتا ہے کہ پاکستانی میڈیا میں رپورٹس چل رہی ہیں کہ فورنزک ایکسپرٹ کو ریکارڈنگ کی سیکنڈ کاپی دی گئی تھی۔ اس طرح کوئی رستہ ہی نہیں ہے کہ یہ جانا جا سکے کہ اوریجنل کاپی authentic ہے یا نہیں۔
دوسرا نکتہ یہ بیان ہوا کہ اگر کسی چیز کی ریکارڈنگ کی جائے، ایک ڈیوائس پر‘ پھر اس ریکارڈنگ کو کسی دوسری ڈیوائس پر ریکارڈ کیا جائے، تو سیکنڈ ریکارڈنگ کو authentic نظر آنے والی بنایا جا سکتا ہے۔ اگر آپ گیرٹ ڈسکوری کے سی ای او کے اس بیان کو مدنظر رکھیں، پھر آڈیو لیک میں استعمال کی گئی اسلام آباد ہائیکورٹ بار والی تقریر کی ریکارڈنگ میں شامل کئے گئے شور کو سنیں تو ثابت ہو جائے گا کہ اس تقریر کو خفیہ ٹیلی فونک گفتگو بنا کر پیش کرنے کے لیے بالکل یہی تکنیک استعمال کی گئی ہے۔
تیسرا نکتہ: بہتر ہوگا کہ یہ نکتہ گورے گیرٹ صاحب کے اپنے الفاظ میں بیان کردیا جائے‘ جو یہ ہیں:
"The credibility is on the reporter who has it, wherever they got that file from, I have no idea"۔
بات ہورہی تھی وزیر اعظم ہائوس چلانے کی،جہاں سے کسی زمانے میں ڈان لیکس 1 اور ڈان لیکس 2 چلائے گئے تھے۔ یہ سال تھا 2017 کا، تب وزیر اعظم صاحب کی صاحبزادی پر الزام آیا کہ وہ بغیر کسی عہدے کے کئی وزارتوں کے کام خود چلا رہی ہیں۔ اسی دور میں انہوں نے اپنے میڈیا سیل کی خبر کو سوچا سمجھا پروپیگنڈا قرار دیا اور فرمایا کہ میں کوئی میڈیا سیل نہیں چلا رہی۔ اگلے روز پچھلا بیان بھول کر مریم صاحبہ نے پریس رپورٹروں کو یوں اعترافی بیان دیا ''اشتہار بند کرنے والی آڈیو میری ہے، اس زمانے میں میں پارٹی کا میڈیا سیل چلا رہی تھی‘‘۔ تفصیل میں جانا غیر ضروری ہوگا۔ بس اتنا جان لیں کہ موصوفہ کی لندن میں تو کیا سرے سے پاکستان میں بھی کوئی پراپرٹی ہے ہی نہیں۔
ذکر چل رہا تھا، گلوبل ڈیموکریٹک انڈیکس کا، درمیان میں پاکستانی ڈیموکریسی کے ذریعے ووٹ کو عزت دینے کا معاملہ بھی آ گیا۔
ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کا موجودہ نظامِ جمہوریت یوکے‘ کے گورا صاحب والے ویسٹ منسٹر ماڈل کی نقل ہے۔ اس ماڈل میں ووٹ کو عزت دینے کی تاریخ بڑی دلچسپ ہے‘ جس کی چند مثالیں اس طرح سے ہیں۔ برطانیہ میں پارلیمانی الیکشن کے وہ امیدوار جو ایک سے زیادہ انتخابی حلقے میں ووٹ حاصل کر سکتے تھے، انہیں یہ حق تھا کہ وہ جہاں سے ووٹ لیں ہر ایسے حلقے میں جاکر اپنا ووٹ ڈال سکیں۔ دوسری مثال یہ کہ بہت لمبے عرصے تک ووٹ ڈالنے کا حق ان لوگوں کے پاس تھا، جن کے نام پر کوئی پراپرٹی موجود ہو۔ پھر ایسا بھی ہوا کہ جس جس کی جس جس شہر میں پراپرٹی ہے، اس کو ان سارے شہروں میں ووٹ ڈالنے کا حق دار گردانا گیا۔
اس وقت کرّہ زمین پر ڈیموکریٹک انڈیکس نامی رپورٹ دنیا بھر کے 165 ممالک اور 2 عدد خود مختار خطوں میں رائج جمہوری سسٹم کا جائزہ لینے کے لیے مشہور ہے‘ جس کی رپورٹ دی اکنامسٹ میں وقفے وقفے سے سال 2006 تا 2010، اور 2011 تا 2019 شائع ہوئی جبکہ اس سلسلے کی تازہ ترین رپورٹ 2020 میں ڈیموکریٹک انڈیکس نے جاری کی تھی۔ یہ رپورٹ ہے کیا؟ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں