"ABA" (space) message & send to 7575

بوڑھا‘ جہاز اور چودھری کی چادر… (2)

جائنٹ بحری جہاز کے رکتے ہی ایک نوجوان انجینئر کو بلوایا گیا‘ تاکہ جہاز کا انجن دوبارہ سٹارٹ کیا جا سکے۔ مال اور مسافر منزلِ مقصود سے ابھی بہت پیچھے تھے۔ ویسے ہی جیسے کوئی ملک‘ معاشرہ یا قوم اور سلطنت‘ جو اپنے زمینی حقائق اور ضرورتوں کے مطابق قوانین اور ضابطے نہیں بنا پاتے‘ وہ قوموں کی عالمی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں اسی لئے مختلف طرح کے قوانین لاگو ہوتے ہیں۔ آئیے! اپنے پڑوس میں ہی دیکھ لیں‘ ایران‘ افغانستان‘ چین‘ ہندوستان اور عربستان کے ممالک اپنا اپنا قانونی ماڈل رکھتے ہیں۔ ہاں البتہ ایک ہی قدرِ مشترک سارے گلوبل ویلیج میں ڈھونڈی جا سکتی ہے‘ اور وہ یہ کہ انصاف اندھا ہوتا ہے‘ یعنی: ''Justice is Blind‘‘۔ مغربی دنیا کی بڑی بڑی عدل گاہوں کے باہر اسی لئے انصاف کی دیوی کے مجسموں کی آنکھیں نہیں ہوتیں۔ آپ اسے اُلٹی چال چلنا کہیے یا چال بازوں کی فتح سمجھ لیں کہ وطنِ عزیز میں قانون بھی کہیں بھینگا ہے اور کہیں پہ نابینا۔
اسی خطے سے اچھے دہشت گرد اور بُرے دہشت گرد‘غریب ملزم اور امیر زادے مجرم‘ بے آسرا قیدی اور سُوپر ڈُوپر وی وی آئی پی قیدی جیسی اصطلاحیں اُبھر کر سامنے آئیں جس کا نتیجہ دیوار پر لکھا ہے‘ قانون کی بالادستی کی دستی علیحدہ ہے اور بالا اس سے بہت دور جا پڑا ہے۔ چھوٹے چور ہتھکڑیوں میں‘ حادثاتی ڈاکو بیڑیوں میں اور بڑے چور لینڈ کروزروں پر اور منظم ڈاکو جہازوں اور ایمبولینسوں پر براجمان ہو کر انصاف کے مندر کی پیشی بھرتے ہیں۔
اس کلچر کی تشریف آوری نے تھانے میں بھی ایک نیا کلچر پیدا کر چھوڑا ہے۔ بڑی بڑی کالی گاڑیاں اور ڈالے‘ رنگی ہوئی بے ڈھنگی مونچھوں والے بندوق بردار‘ لاء اینڈ آرڈر کے سب سے بڑے کسٹمر ہیں۔ آج تھانوں کے باہر کہیں قبضہ مافیا اور کہیں لینڈ مافیا ہر دن اپنی ایزی لوڈ منی کی نمائش کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
انصاف کہاں پہ اندھا اور قانون کس جگہ ٹیڑھا؟ یہ ملین ڈالر سوال‘ حال ہی میں حل ہوا ہے۔ کسی غریب یا متوسط آبادی میں بارات پر نوٹ پھینکنے والا‘ ہزار‘ پانچ ہزار روپے کے نوٹ کا لمبا ہار پہننے والا‘ اور تو اور ملتان میں بھیک مانگ کر بچوں کو درمیانے سکول بھجوانے والا‘ سب کو ٹیکس نوٹس جاری ہوتے ہیں لیکن پچھلے تین ہفتے سے لندن تا لاہور بے روزگار سیاسی خانوادے کی ایک شادی میں ایزی منی کی شاندار نمائش جاری ہے مگر مجال ہے کوئی سوال پوچھے‘ آپ کی لندن میں تو کیا‘ پاکستان میں بھی کوئی پراپرٹی نہیں‘ پھر کہاں سے آئے ہیں یہ نوٹ‘ کس نے بھجوائے ہیں یہ نوٹ ‘ اور کتنے لٹائے ہیں یہ نوٹ؟
اب وہ مرحلہ آ گیا ہے جہاں یہ بتانا ضروری ہوگا کہ چودھری کی چادر نے اپنے نیچے سے گزرنے والے چور وں کو کیوں نہیں پکڑا؟ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ چور چالاک تھے‘ حلیے سے معززیں علاقہ لگتے تھے‘ اور چادر کے چاروں کونے خود چوروں نے پکڑ رکھے تھے۔ اس لئے اُنہیں کوئی قانون کی چادر کے نیچے سے گزار کر عدل کی دہلیز تک نہ پہنچا سکا۔
ان دنوں ایک سابق منصف کی مبینہ لیک شدہ آڈیو کے پس منظر میں فریڈم آف ایکسپریشن کا مباحثہ زور و شور سے سوشل میڈیا پر چل رہا ہے‘ ہر طرح کی گفتگوئیں ہورہی ہیں۔ اس تنازعے کے کانٹینٹ پر ہمارا تبصرہ اس لئے بھی نہیں بنتا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل چیف جسٹس جناب اطہر من اللہ نے 100 باتوں کی ایک بات اپنے ریمارکس میں کہہ ڈالی۔ یہ کہ تنازع کے براہ ِراست فریق یا متاثرین کو خود عدالت آنا چاہئے۔ اس لئے ہمارا تبصرہ اس حد تک محدود رہے گا‘ جہاں تک کچھ لوگوں کی خواہش ہے۔ اُن کی یہ خواہش درست ہے کہ کاش اُنہیں کوئی لندن یا امریکہ میں ڈی فیم کرنے کی جرأت کرے۔ قانون ہوتا کیا ہے‘ اسے لگ پتہ جائے گا۔ تھوڑا عرصہ پہلے پاکستان میں فیک نیوز اور توہین آدمیت کے حوالے سے قانون پر بحث ہوئی۔ اس بحث کا سہ حرفی نتیجہ نکل کر سامنے آیا۔ یہ تین حرف تھے ''میں نہ مانوں‘‘۔
اس وقت وطنِ عزیز کے طول و عرض میں تین بڑے شعبے ایسے ہیں جہاں انہی تین لفظوں کا سکہ چلتا ہے۔
پہلا شعبہ: بزنس اینڈ انڈسٹری۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں خواہ وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو یا وہ ترقی کی منزل طے کرکے ویلفیئر سٹیٹ بن گیا ہو‘ جہاں ہر روز لاکھوں اور کروڑوں کا کاروبار کرنے والے نہ اپنے آپ کو رجسٹر کرانا چاہیں‘ اپنے سامان کی خریداری کی رسید دکھانے سے انکار کریں اور لسٹڈ بزنس کی مارکیٹ میں آنے سے کترائیں۔ ٹیکس کلیکشن کو شناختی کارڈ یا کسی بھی دوسرے سسٹم سے جوڑنے کے خلاف مزاحمتی مظاہرے کریں یا احتجاج کی ریلیاں نکالیں 22 کروڑ لوگوں کے ملک میں 22 لاکھ ٹیکس دینے والے بھی 74 سال کے دوران سامنے نہیں آئے۔ ملک کی سڑکوں کا حال یہ ہو کہ ہر سڑک پر گاڑیوں کی لمبی قطاروں کی وجہ سے ہر وقت رش آور کا منظر ہو اور رش آور میں میلوں دور تک ٹریفک جام۔
دوسرا شعبہ: لاء اینڈ آرڈر‘ قانون و انصاف‘ ہیلتھ اینڈ سیفٹی‘ ایجوکیشن‘ سوشل ویلفیئر ‘پولیس اور بیوروکریٹ‘ انڈسٹریل اینڈ لیبر ریفارمز‘ ہر جگہ اصلاحات‘ ملازمین کی حاضری پوری کرنے‘ Efficiency and Discipline Rules لاگو کرنے کی مزاحمت ہو اور اس کے خلاف ہڑتالیں ہوں۔تیسرا شعبہ: یہ ہے شعبۂ سماجیات۔ گندگی سے سب نفرت کرتے ہیں‘سب گندگی پھیلاتے ہیں۔ چیزیں سستی خریدنا چاہتے ہیں‘ مہنگی بیچنے کے عادی مجرم ہیں۔ ٹریفک کا نظام درست کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن ٹریفک قانون پر پابندی سے چڑ ہے۔ تبدیلی کے خواہش مند ہیں‘ لیکن تبدیلی سے ڈرتے ہیں۔ بھاشن‘ تقریروں‘ مباحثوں اور خطبوں میں جو دوسروں سے کہتے ہیں‘ وہ خود نہیں کرتے۔ روشنی کی خواہش ہے ‘روشنی سے ڈرتے ہیں۔
جائنٹ بحری جہاز سٹارٹ نہیں ہورہا تھا‘جہاز کا عملہ اورمسافر تنگ آنے لگے؛چنانچہ بوڑھا انجینئر بلایا گیا۔اُس نے گھوم پھر کر انجن کو چیک کیا ‘ سارے حصے دیکھے اور ایک پرزے پر جاکر رک گیا۔اپنے ٹول باکس میں سے 5نمبر کا ہتھوڑا نکالا اور ایک ڈھیلے ڈھالے نٹ کے سر پر زور سے دے مارا ۔نٹ اپنی جگہ بیٹھ گیااور جائنٹ بحری جہاز کا انجن سٹارٹ ہوگیا۔ بوڑھے انجینئر سے کہا گیا‘ وہ اپنا بل بھجوائے تاکہ اُسے پیمنٹ کی جاسکے ۔جائنٹ بحری جہاز کا مالک یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اتنی سی محنت کا بل بوڑھے انجینئر نے 10ہزار یو ایس ڈالر بھیج دیا۔جہاز کے مالک نے بوڑھے انجینئر کو زچ کرنے کے لئے آئٹم وائز بل دوبارہ بھجوانے کو کہا۔آئٹم وائز بل میں لکھا تھا:پہلی آئٹم‘ہتھوڑا مارنا‘قیمت:1 ڈالر۔ صحیح جگہ ہتھوڑا مارنے کا علم رکھنا‘ فیس: 9ہزار999ڈالر۔ مورال آف دی سٹوری آپ جانتے ہی ہیں‘دہرانے کی کیا ضرورت ! (ختم)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں