"ABA" (space) message & send to 7575

مسلم بیانیے کی جیت …(2)

فارس کا ہرمز شہزادہ صرف زریں تاج پہنے ہوئے میدانِ جنگ میں نہیں اُترا تھابلکہ اس کا شمار ایران کے مشہور پہلوانوں میں کیا جاتا تھا۔ بڑی لڑائی شروع ہونے سے پہلے مخالف لشکر کے اہم کمانڈروں کے ساتھ انفرادی مقابلوں کے لئے وہ ایرانی فوج کا اوپنر تھا۔ اسی لئے اُسے سب سے پہلے میدانِ قادسیہ میں مردانگی کے جوہر دکھانے کے لئے اتارا گیا۔
جنگ قادسیہ کی ابتدا کی طرف آنے سے پہلے ذکر ہورہا تھاخلیفہ ثانی سیدنا فاروقِ اعظم ؓ کی سادگی کا‘ جو شتر سوار کے ساتھ ساتھ اُس کی رکاب پکڑ کر دوڑتے ہوئے مدینہ میں داخل ہورہے تھے۔ اونٹ پر سوار قاصد جنگ قادسیہ کا آنکھوں دیکھا حال بتاتا ہوا مدینے کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ شہرِمدینہ میں داخل ہوکر اونٹ سوار قاصد حیران ہونا شروع ہوگیا‘جس کی وجہ یہ تھی کہ جو بھی مدنی شہری راستے میں آتا تھاوہ سیدنا فاروقِ اعظم ؓ کو السلام علیکَ یا امیر المومنین کہہ کر مخاطب کررہا تھا۔ اونٹ پر سوار قاصد یہ جان کر ٹھٹک گیا کہ جو شخص اُس کے ساتھ پیدل دوڑ رہا ہے‘ وہ مدینے کا کوئی عام باسی نہیں بلکہ خلیفۂ وقت ہے۔ یہ جان کر قاصد ڈر بھی گیا۔ اُس نے اونٹ سے نیچے اترنے کی کوشش کی لیکن سیدنا فاروقِ اعظم ؓنے اُسے منع کرتے ہوئے کہا:تم قادسیہ کے میدان کے حالات سناتے جائو اور بدستور اپنے اونٹ پر ہی بیٹھے رہو۔ اسی طرح سے خلیفہ ثانی ؓنے مسجد نبوی میں پہنچ کر لوگوں کو جمع کیا اور اُن کو ساسانی ملوکیت کے خلاف فتح کی خوشخبری سنائی۔
اس تاریخ ساز لمحے پر سیدنا فاروقِ اعظم ؓ نے ایک نہایت اثر انگیز تقریر فرمائی اور اُسے ان لفظوں کے ساتھ ختم کیا: ''بھائیو!میں بادشاہ نہیں کہ تم لوگوں کو اپنا غلام بنانا چاہوں‘میں تو خود اللہ تعالیٰ کا غلام ہوں؛البتہ خلافت کی ذمہ داری میرے سپرد ہے۔ اگر میں یہ کا م اس طرح انجام دوں جس کے نتیجے میں تم آرام سے اپنے گھروں میں اطمینان کی زندگی بسر کرتے رہو تو یہ میری خوش نصیبی ہے‘اگر خدا نخواستہ میری خواہش ہو کہ تم لوگ میرے دروازے پر حاضری دیا کرو تو یہ میری بد بختی ہوگی۔ میں آپ لوگوں کو تعلیم دیتا ہوں اور نصیحت کرتا ہوں لیکن صرف قول سے نہیں بلکہ عمل سے بھی‘‘۔
قادسیہ کی تاریخی جنگ کے حالات تاریخ طبری‘ Encyclopedia Iranicaڈی- ہارپر انسائیکلوپیڈیا آف ملٹری ہسٹری‘The Battle of Al-Qadissiya and the Conquest of Syria and Palestine Daryaee سمیت مختلف تاریخی حوالوں میں جزیات سمیت موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اردو‘ انگریزی‘ عربی‘ فارسی‘ فرانسیسی اور تُرک سمیت دیگر بہت سی زبانوں میں اس پر ڈاکیومنٹری فلمیں اور تاریخ نامے موجود ہیں۔
جنگ قادسیہ کا پہلا انفرادی مقابلہ ایرانی شہزادہ ہرمز اور غالب بن عبداللہ اسعد کے درمیان شروع ہوا۔ غالب میدان میں اترتے ہی شہزادہ ہر مز پر غالب آگئے‘اُسے گرفتار کرکے سپہ سالار سعد ابن ابی وقاصؓ کے سپرد کر دیا۔ جس کے بعد دوسرا زوردار مقابلہ اہل فارس کے سجے سجائے گھوڑے کے شہ سوار اور اسلامی لشکر کے سپاہی عاصم کے درمیان شروع ہوا‘اس مقابلے میں تلوار کے ابھی صرف دو‘دو وار ہی ہوئے تھے کہ ایرانی گھڑ سوار مقابلے سے بھاگ نکلا‘ عاصم نے اُس کا تیزی سے پیچھا کیااور ایرانی لشکر کی صف اول کے قریب پہنچ کر اُس کے گھوڑے کی دُم پکڑ کر اُسے روک لیا۔ عاصم لپکے اور ایرانی شہ سوار کو اُس کے گھوڑے سے کھینچ کر زور آوری سے اپنے آگے بٹھا کر گرفتار کرلیا۔
لشکر اسلام کے یہ دو بہادرانہ مقابلے دیکھ کر ایران کے لشکر نے ایسا زور آور بہادر پہلوان مقابلے کے لئے آگے کیاجس نے ہاتھ میں چاندی کا بڑ ا گرز پکڑا ہوا تھا۔ اس کے مقابلے پر عمرو بن معدیکرب نکلے‘ وہ ایرانی بھی عمرو کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا۔ رستم اس ذلت آمیز ابتدا کے بعد چیخا‘فوراً غلبے کی جنگ شروع کرو؛ چنانچہ ہاتھیوں کا حملہ شروع ہوگیا‘بحیلہ قبیلہ نے بڑے نقصان کے بعد اسے سست کیا۔
اسلامی فوج کے کمانڈر اِن چیف نے جنگ کے میدان کا رنگ دیکھ کر فوراً قبیلہ بنو اسد کے لوگوں کو بحیلہ کی مدد کا حکم دیا۔ بنو اسد نے ہاتھیوں کے آگے آکر خوب دادِ شجاعت دی مگر ہاتھی آگے بڑھتے رہے اور سعد بن ابی وقاص ؓنے قبیلہ کندہ کے بہادروں کو ہاتھی روکنے کا حکم دیا۔ بنو کندہ نے اس شان سے ہاتھی پر حملہ کیا کہ اہل فارس کے پائوں اُکھڑ گئے اور وہ میدان سے پیچھے ہٹنے لگے۔
اس کے بعد انسانوں کے دو بڑے سمندر ایک دوسرے پر اُمڈ آئے۔ جنگی ہاتھیوں نے اسلامی لشکر کو نقصان پہنچا نا شروع کیا تو فوراً عرب کے تیر اندازوں نے ہاتھیوں پر اور ان پہ سوار مہابتوں پر تیر وں کی بارش شروع کردی۔ ایسے میں عاصم ایک بار پھر تڑپ اُٹھے۔ نیزہ لے کر ہاتھیوں پہ حملہ آور ہوئے‘اُن کے پیچھے پیچھے دوسرے بہادروں نے بھی ہاتھیوں کی سونڈھوں اور آنکھوں پر تلواروں اور نیزوں سے زخم لگانے شروع کردیے۔
جنگ قادسیہ کے میدان میں ایک طرف نیزے‘بلم‘ تلواریں‘برچھے‘ تیر اور دوسرے روایتی ہتھیار چل رہے تھے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ دو متحارب بیانیے بھی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا تھے۔ پرشین ایمپائر کی افواج اپنے شہنشاہ کے حق میں نعرے مار رہی تھیں جبکہ لشکرِ اسلام سے رب العالمین کی توحید اور رحمۃ للعالمینﷺ کی آخری رسالت کی نشید اور تکبیر بلند ہو رہی تھی۔ (نشید عربی زبان میں ترانے کو کہتے ہیں۔ عرب ممالک میں قومی ترانے کو نشید الوطنی کہا جاتا ہے)عربوں کی تاریخ میں جس قدر ترانے جنگ قادسیہ کے میدان سے اُبھرے‘اُس کی شاید ہی کوئی دوسری مثال تاریخ سے ڈھونڈی جاسکے۔ یہ ترانے بعد کی مسلم فتوحات کے قومی ترانے ثابت ہوئے۔ اس طرح جنگ قادسیہ کے بطن سے جرأت‘ عزیمت‘بہادری اور شجاعت کا نیا لٹریچر پیدا ہواجس نے قادسیہ کے شہدا اور اور غازیوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حیاتِ جاوداں بخش دی۔
جنگ قادسیہ سے پہلے حجاز کے لوگوں نے جس حملہ آور کے ساتھ ہاتھی کو پہلی بار دیکھا وہ عیسائیت کا پرجوش حامی ایتھوپیا کا بادشاہ ابرہہ تھا۔ جس نے 525عیسوی میں ملک یمن کو فتح کیا۔ ابرہہ نے یمن کے دارالحکومت اور تاریخی شہر صنعا میں بہت بڑا گرجا تعمیر کروایا۔ عمارت کو شان و شوکت دینے کے لیے بے پناہ دولت لٹائی گئی‘ جس کا مقصد اسے عربوں کی مرکزی عبادت گاہ کا درجہ دینا تھا۔ جب عرب اس طرف متوجہ نہ ہوسکے تو ابرہہ ایک بڑی فوج لے کر خانہ کعبہ کو مسمار کرنے کے بدارادے سے مکۃ المکرمہ کی طرف چڑھ دوڑا۔ ابن ہشام نے لکھا ہے اس سے 50دن پہلے نبی آخرالزماں حضرت محمد ﷺ اس جہانِ رنگ و بُو میں جلوہ افروز ہوئے۔
ابرہہ کے حملے کو ''عام الفیل‘‘ یعنی ہاتھی کا سال کہہ کر پکارا گیا۔ قرآن مجید کی سورۃ الفیل میں موجود ہے‘ ابرہہ کے مکے پر حملے میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے پرندوں کے جھنڈ کے ذریعے حملہ آوروں پر ایسی کنکریا ں برسائی گئیں کہ جس شخص کو لگ جاتیں اُس کا جسد پھٹ جاتا اور وہ سسکتے تڑپتے واصلِ جہنم ہوجاتا۔ اب دیکھتے ہیں‘ اَنشودہ‘ قادسیہ‘ الریاحین اور قادسیہ النصر کو۔ (جاری)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں