"ABA" (space) message & send to 7575

مسلم بیانیے کی جیت …(6)

مسلم بیانیے کی جیت کا اگلا مرحلہ طارق بن زیادہ اور موسیٰ بن نصیر کی فتوحات سے شروع ہوا۔ ایفروعرب اور یورپ‘ دونوں کی تاریخ میں ایک بربر اور دوسرا سیرین، دو بے مثال جرنیلوں کا نام بے دریغ لڑنے والے شجیع کمان داروں میں شامل ہے۔ ہسپانوی تاریخ طارق بن زیاد کو Taric el Tuerto کے نام سے جانتی ہے۔ طارق بن زیاد کا پہلا عہدہ بنو اُمیّہ کے عہد میں صوبہ افریقہ کے نائب گورنر کا تھا، جہاں موسیٰ بن نصیر گورنر تھے۔ 30 اپریل 711 عیسوی کو طارق کی افواج جبرالٹر کے ساحل پہ اُتریں۔ سپین کی سرزمین پہ قدم رکھتے ہی طارق بن زیاد نے اپنی فوج کی تمام کشتیاں جلا ڈالیں۔ اب اُن کے سامنے ایک ہی راستہ تھا، فتح، نہیں تو 7000 لشکریوں کی موت۔
ہسپانیہ میں قدم رکھنے کے تقریباً ڈھائی ماہ بعد 19 جولائی کو وادیٔ لکہ میں اِن 7000 مجاہدوں کو 1 لاکھ فوج کے ہسپانوی لشکر کا سامنا تھا‘ جہاں ایک ہی دن میں سپین کی تاریخ اگلے 700 سال کے لئے بدل گئی۔ طارق بن زیاد کے سینئر جرنیل موسیٰ بن نصیر کے آبائواجداد کرسچین خاندان سے تھے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے جب شام اور ایران کی سرحد پر واقع اہم تجارتی شہر ''عین التمر‘‘ فتح کیا تو اُن کے والد نصیر کو گرفتار کرلیا جنہوں نے جلد اسلام قبول کیا، اور وہ غلام سے موالی (دوست) بن گئے۔
فتح اُندلس اور یورپ میں مسلم بیانیے کا آغاز کائونٹ جولین کی دعوت سے ہوتا ہے جس کا بادشاہ راڈرِک جنگ میں طارق بن زیاد کے ہاتھوں مارا گیا۔ اس دعوت کی وجہ راڈرک کے اپنی ہی رعایا پہ مظالم تھے۔ تخت شاہی پر بیٹھے اس بے رحم درندے نے اپنی ہی فوج کے اہم جرنیل کائونٹ جولین کی خوبرو بیٹی کو بے آبرو کیا تھا۔
سپین اور یورپ کے کئی ملکوں اور جزیروں میں مسلمانوں نے 711 عیسوی سے لے کر 1492 عیسوی تک 756 سال تک اقتدار دیکھا۔ حضرت علامہ اقبالؒ ہسپانیہ کے دورے کے دوران وادیٔ الکبیر بھی گئے تھے۔ یہ قرطبہ شہر کا مشہور دریا ہے، جس کے ساتھ ہی مسجد قرطبہ کے بلند مینار مسلم تہذیب اور اختیار کی لازوال داستان سناتے ہیں۔ بالِ جبریل میں حضرت علامہ اقبالؒ نے مسجدِ قرطبہ میں نماز ادا کی اور اس مسجد کی عظمت کا نقشہ یوںکھینچا:
اے حرم قرطبہ عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود
تیری بنا پائیدار تیرے ستون بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجومِ نخیل
تیرا مینارِ بلند جلوہ گہ جبرئیل
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں کار کشا کار ساز
بوئے یمن آج بھی اس کی ہوائوں میں ہے
رنگِ حجاز آج بھی اس کی نوائوں میں ہے
مغرب کے مؤرخین اور احوال نگاروں کے بے شمار آرکائیوز اور تحریریں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ ان 8 صدیوں کے عرصے میں غرب کے بادشاہوں، ملکائوں، لینڈ لارڈز، اور وارلارڈز، بلکہ کلیسا سے لے کر کامن مین تک سب جگہ سب سے بڑا اور سب کا مشترکہ ہدف مسلم بیانیہ تھا، جو تہذیب کیساتھ ساتھ، سائنس، جغرافیہ، علمِ نجوم، گلیکسی، میڈیسن اور سرجری کی تمام جدید دریافتوں پر مشتمل تھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ آج کا یورپ اُسی مسلم بیانیے کی روشنی میں ڈارک ایجز سے آگے بڑھ کر ویلفیئر سٹیٹ کے درجے تک پہنچا۔ مسلمان حضرت علامہؒ کے بقول یوں دیکھتے رہ گئے:
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو
پھر سال 1138 عیسوی میں موجودہ ملک عراق کے شہر تکریت میں ایک بچہ پیدا ہوا۔ تب یہ علاقہ کردستان کہلاتا تھا۔ یہاں کے سلطان نورالدین زنگی کے ایک بہادر فوجی گھرانے میں پیدا ہونے والے اس بچے کا نام الناصر صلاح الدین بن یوسف بن ایوب رکھا گیا۔ تکریت کے اسی شہر کو پچھلی صدی کے آخری عشرے میں ایک بار پھر عالمی شہرت تب ملی جب صدام حسین التکریتی کے دورِ حکومت میں مغربی افواج نے حملہ کیا، جسے اُمّ الحرب کہا گیا۔ اسی جنگ کے دوران ایک کینگرو کورٹ نے صدام حسین کو پھانسی کی سزا دی۔
سلطان نورالدین زنگی کے زمانے میں مصر کو فتح کرنے والی فوج میں صلاح الدین ایوبی بھی شامل تھے، جنہوں نے اپنی بے مثال بہادری اور جنگی صلاحیت کا لوہا منوایا۔ اس فوج کے سپہ سالار جنابِ شیر کوہ‘ صلاح الدین ایوبی کے چچا تھے۔ مصر فتح ہو جانے کے بعد صلاح الدین ایوبی کو سال 564 ہجری میں مصر کا حاکم اعلیٰ مقرر کر دیا گیا۔ صلاح الدین ایوبی نے اگلے 4 سالوں میں ناممکن نظر آنے والا کارنامہ سرانجام دیا اور یمن کو بھی فتح کرلیا۔ نورالدین زنگی جیسے جذبہ جہاد سے سرشار اور عشقِ رسولﷺ کے عظیم راہی کے انتقال کے بعد حاکم مصر الناصر صلاح الدین ایوبی، غازی سلطان صلاح الدین ایوبی کے نام سے حکمرانی پر فائز ہوئے (الناصر عربی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب ہے عظیم فاتح)۔
منصبِ اقتدار ملتے ہی سلطان صلاح الدین ایوبی نے اعلان کیا کہ اُن کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش، قبلہ اوّل بیت المقدس کی آزادی ہے‘ جس پر صلیبیوں نے بزورِ بازو قبضہ کرلیا تھا۔
ایک بار اور بھی یثرب سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجد اقصیٰ تیرا
(احمد ندیم قاسمی )
1182 عیسوی تک سلطان صلاح الدین ایوبی شام، موصل، حلب سمیت بے شمار علاقے صلیبیوں سے چھین کر اسلامی سلطنت میں شامل کرچکے تھے۔ اس عرصے کے دوران صلیبی کمانڈرز نے مسلمانوں کے قافلوں کو لوٹنا اپنا کاروبار بنا لیا؛ چنانچہ اس اشتعال انگیز فضا میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کی آزادی کا سفر جنگ سے نہیں صلح سے شروع کیا۔ اس سلسلے میں صلیبی فوجوں کے کمانڈر رینالڈ کے ساتھ مذاکرات کئے اور 4 سال کے لئے صلح کا معاہدہ لکھا گیا جس کے ذریعے دونوں ریاستیں راستے محفوظ بنانے کے لئے ایک دوسرے کی مدد کرنے کی پابند بنائی گئیں، لیکن یہ معاہدہ محض کاغذی اور رسمی ثابت ہوا۔
1186ء میں جنگ حطین ہوئی۔ کئی اعتبار سے یہ تاریخِ اسلام کی خطرناک ترین جنگ تھی جس کا آغاز صلیبی فوجوں کے سربراہ رینالڈ کی ناپاک جسارت تھی کہ وہ صلیبی فوجیں لے کر سرزمین حجاز مقدس پر حملہ آور ہوا۔ صلیبی سرداروں کا اصل ہدف مدینہ منوّرہ تھا۔ صلاح الدین ایوبی نے امن معاہدے کے باوجود صلیبیوں کی سرگرمیوں پر گہری نگاہ رکھی۔ خاص طور سے مدینہ منورہ کے خلاف ہونے والی سازشوں پر سلطان صلاح الدین ایوبی کی بھرپور تیاری تھی؛ چنانچہ سلطان نے تیز رفتار حملے کے ذریعے حطین کے مقام پر 1187ء میں صلیبی فوجوں کو گھیر کر اُن پر ایسے آتشیں حملے کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں 30,000 صلیبی فوجی مارے گئے اور اتنے ہی فوجیوں کو قیدی بنا لیا گیا۔ رینالڈ بھی گرفتار ہوا اور سرزمین حجاز مقدس پر حملے کی پاداش میںصلاح الدین ایوبی نے اپنی تلوار سے اس کا سر قلم کیا۔ اس طرح سلطان صلاح الدین ایوبی کی قسم پوری ہوگئی۔
آئیے دیکھتے ہیں، صلاح الدین ایوبی نے کون سی قسم کھائی تھی۔ 20 سالہ حکمرانی کی پہلی اور آخری قسم۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں