"ABA" (space) message & send to 7575

مسلم بیانیے کی جیت …(8)

یوں تو نیشنل انسائیکلوپیڈین‘ گارڈین (روری میکارتھی)‘ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا سمیت ان گنت جگہوں پر غازی سلطان صلاح الدین ایوبی کو انتہائی قابل اور دانش مند حکمران بتایا گیا ہے لیکن اُن کی زندگی اور سیرت و کردار کے کچھ پہلو بلا شبہ حیران کر دینے والے ہیں۔
پہلا پہلو: قاہرہ پر قبضے کے بعد جب سلطان نے فاطمی حکمرانوں کے محلات کو اندر سے ملاحظہ کیا تو وہ ہیرے‘ جواہرات اور سونے چاندی کے برتنوں کا میگا سٹاک دیکھ کر حیران رہ گئے۔ وہ چاہتے تو یہ سارا مال فاتح کی حیثیت سے اپنی ملکیت میں لے لیتے لیکن اس درویش منش سلطان نے ایسا نہیں کیا بلکہ یہ سارا قیمتی خزانہ بیت المال میں جمع کرا دیا۔ نیل کے ساحل پہ حکمرانوں کی عیاشی کے لیے بنائی گئی عالی شان محل سرائیں اور خواب گاہیں فوری طور پر عام استعمال کے لیے کھول دی گئیں جبکہ ایک محل میں عظیم الشان خانقاہ بنائی گئی۔
دوسرا پہلو: سلطان نے قاہرہ میں اَن گنت شفا خانے اور لاتعداد درس گاہیں قائم کر دیں جہاں طالب علموں کی بورڈنگ اور کھانے پینے کا انتظام بھی سرکار کے ذمے تھا۔ قاہرہ کے ایک شاہی محل میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے قائم کردہ شفا خانے کے بارے میں مشہور سیاح ابن جبیر نے لکھا ہے کہ یہ شفا خانہ اگرچہ ایک محل کی طرح سے ہی معلوم ہوتا تھا مگر اُس میں مختلف دوائیوں کا بہت بڑ اذخیرہ رکھا گیا تھا۔ ابن جبیر نے عورتوں کے علیحدہ شفا خانے بھی دیکھے اور ذہنی امراض یا خلجان کے مریضوں کے لیے علیحدہ ہسپتال بھی دیکھے۔
یہاں اس دلچسپ حقیقت کو جاننا بھی ضروری ہو گا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کا زمانہ‘ ہند کے مسلم حکمران شہاب الدین غوری اور مراکش کے مسلمان سلطان یعقوب المنصور کے ادوار سے ہی تعلق رکھتا تھا‘ لیکن جو عالمی شہرت‘ امتیاز اور تاریخ ساز فتوحات سلطان صلاح الدین ایوبی کے حصے میں آئیں‘ اُس کی دوسری کوئی مثال شرق و غرب میں کسی دوسرے حکمران کے دور میں عشر عشیر بھی نہیں ملتی۔ اسی لیے ایک قدیم عرب تاریخ دان ابن خلکان اور دورِ جدید کے انگلش تاریخ دان لین پول نے سلطان کو لا جواب الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ لین پول نے سلطان صلاح الدین ایوبی کی بہت زیادہ تعریف کی ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ صلاح الدین ایوبی کے ہم عصر بادشاہوں اور سلطان میں ایک عجیب فرق تھا‘ باقی بادشاہوں نے اپنے شاہی جاہ و جلال کے سبب عزت پائی جبکہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے سادگی سے عوام کی محبت اور سب سے نچلے درجے کی زندگی گزارنے والے لوگوں کے معاملات میں دلچسپی لے کر ہر دل عزیزی کی دولت پائی۔
سلطان کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ اُنہوں نے پوری زندگی ریشمی کپڑا استعمال نہیں کیا۔ سلطان کی رہائش گاہ پر بھی تاریخ حیران ہے۔ اُنہوں نے کبھی کسی شاہی محل میں قیام نہیں کیا بلکہ اُن کے رہنے کی جگہ ایک معمولی سا‘ عام لوگوں جیسا مکان تھا۔ ایک اور مغربی مؤرخ نے صلیبی حکمرانوں سے سلطان کی صلح ہو جانے کے بعد صلاح الدین ایوبی کی طرف سے مسیحی زائرین کو بیت المقدس کی زیارت کی اجازت دینے کے حوالے سے عجیب واقعہ بیان کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ اجازت ملنے پر یورپ کے زائرین‘ جو کئی برسوں سے اس انتظار میں تھے کہ بیت المقدس جانے کا موقع ملے‘ اتنی کثیر تعداد میں زیارت کے سفر پر چل پڑے کہ رچرڈ شیر دل کے لیے اُن کے سفر وغیرہ کا انتظام قائم ر کھنا بہت مشکل ہو گیا۔ اس وجہ سے کنگ رچرڈ لائن ہارٹ نے سلطان صلاح الدین ایوبی سے درخواست کی کہ وہ اُس کی تحریر اور اجازت نامے کے بغیر کسی مسیحی کو بیت المقدس میں داخل نہ ہونے دیں۔ سلطان نے کنگ رچرڈ کو کمال کا جواب دیا '' زائرین بڑے بڑے لمبے سفر طے کر کے زیارت کے شوق میں بیت المقدس آتے ہیں۔ ان کو روکنا ہرگز مناسب نہیں‘‘۔ یہ کہہ کر سلطان نے اُن زائرین کی نہ صرف آزادیوں میں اضافہ کر دیا بلکہ اپنی جانب سے لاکھوں زائرین کی خدمت‘ آرام‘ آسائش اور شاہانہ دعوت کا اہتمام بھی شروع کر دیا۔
4 مارچ 1193 عیسوی کو صرف 54 سال کی عمر میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے آخرت کا رختِ سفر باندھا تو مؤرخ ابن خلکان نے اُس لمحے عالمِ اسلام کے رنج و الم کو ان لفظوں میں بیان کیا ''سلطان صلاح الدین ایوبی کی موت کا دن اتنا تکلیف دہ تھا کہ ایسا تکلیف دہ دن اسلام اور مسلمانوں پر خلفائے راشدین کی موت کے بعد کبھی نہیں آیا‘‘۔
9/11 کے بعد ساری دنیا میں مسلمانوں کو اسلاموفوبک نفرتوں کی آگ کا سامنا کرنا پڑا۔ اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے سب سے مؤثر آواز پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے عالمی فورمز پر اُٹھائی‘ بلکہ مسلسل اُٹھاتے چلے جاتے ہیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان اور ملائیشیا کے آئیکون جناب مہاتیر محمد نے بھی اُمت کے لیے اس میدان میں بے جگری سے بیانیہ بنایا۔ اب یہ مسلم بیانیہ جیت رہا ہے‘ جس میں بہت بڑا حصہ وہ unsung heroes ڈال رہے ہیں جنہوں نے نئے میڈیا کے ذریعے اسلاموفوبیا کی وبا کا علمی میدان میں منہ موڑنے والے محاذ سنبھال رکھے ہیں۔ یہ عام مسلمان ہیں جو کسی خاص سکول آف تھاٹ‘ دنیاوی فائدے یا سیاسی برتری کے لیے ایسا نہیں کرتے۔ انہیں اللہ کی رضا اور رسول اللہﷺ سے تابع داری اور محبت کی عطا اُس ففتھ جنریشن وار میں کھینچ لائی ہے جس کا سامنا پوری مسلمان اُمت کو ہے‘ خاص طور پر مسلمان اقلیتوں کو۔
مسلم بیانیے کی جیت کا تازہ ثبوت امریکن کانگریس سے پاس ہونے والا Combating International Islamophobia Act بھی ہے جو 15 دسمبر 2021ء کے روز امریکی House of Representatives نے پاس کیا۔ اس ایکٹ کی خاص بات یہ ہے کہ امریکہ کے اندر اسلاموفوبیا سے متعلقہ جرائم کو پارلیمان کے اندر رپورٹ کیا جائے گا تاکہ اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان کی مانیٹر نگ کی جا سکے اور ساتھ ساتھ اُس کے سدباب کے لیے اقدامات بھی۔ اس ایکٹ کے ذریعے اسلاموفوبیا پر کنٹرول کا سرکاری دفتر بھی قائم کیا جائے گا۔ امریکی پارلیمان میں بننے والا یہ تازہ قانون گلوبل اہمیت کا حامل ہے۔ امریکہ کے عالمی اثر و رسوخ کی وجہ سے دوسرے معاشروں اور ملکوں میں‘ جہاں جو بعض انتہا پسند سیاسی لیڈر اسلاموفوبیا کو گورے ووٹوں کی اکثریت حاصل کرنے کا سستا ٹُول سمجھتے ہیں‘ اُن کی بھی اس قانون سازی سے حوصلہ شکنی ہو گی۔ شاید مسلم اُمہ کے اُن منیجرز کو بھی کچھ حوصلہ ملے اور وہ مغرب میں ماڈریشن کی پالیسی کی لکیر پر چلنے کی وجہ سے اسلاموفوبیا جیسے اینٹی مسلم رویوں پر آوازِ مذمت بلند کرنے کے قابل ہو جائیں۔ اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے۔ اُتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبائیں گے۔ (ختم )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں