"ABA" (space) message & send to 7575

جی! یہ کھلا تضاد نہیں…(1)

ایک طرف 1973ء کا آئین ہے‘ جسے پاکستانی متفقہ عمرانی معاہدہ کہنا پسند کرتے ہیں۔ اُسی عمرانی معاہدے میں 12 اپریل 1973ء کے روز یہ طے کیا گیا کہ پاکستان میں Bicameral پارلیمانی سسٹم ریاست کی ایگزیکٹو اتھارٹی استعمال کرے گی۔ اسی آئین کے تحت یہ بھی طے کر دیا گیا کہ ون مین ون ووٹ کے ذریعے پارلیمنٹ کے جو صوبائی اور مرکزی ایوان منتخب ہوں گے‘ اُن کی آئینی عمر پانچ سال ہو گی۔ یہ پانچ سال کا دستوری عرصہ کب شروع ہو گا‘ یہ بھی اسی آئین میں طے کر دیا گیا ہے‘ یعنی جس دن پارلیمنٹ اپنے پہلے اجلاس میں 1973ء کے آئین کے تحفظ کا حلف اُٹھائے گی‘ وہاں سے اُس کی پانچ سالہ ٹرم کا آغاز ہوجائے گا۔
عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے 20 اگست 2018ء کے روز حلف اُٹھاکر آئین کے آرٹیکل 52 کے تحت اپنے پنج سالہ اقتدار کا آغاز کیا تھا۔ جب یہ وکالت نامہ چھپے گا‘ اُس وقت پی ٹی آئی کی پہلی وفاقی حکومت اپنے اقتدار کے تین سال چار مہینے 26 دن مکمل کر چکی ہو گی اور اُس کی ٹرم آف پاور میں ایک سال سات مہینے چار دن کا عرصۂ اقتدار باقی رہ جائے گا۔ یہ ہے وہ دستوری نظام جسے قیامِ پاکستان کے 25 سال سات مہینے اور 28 دن بعد قوم نے اپنے لیے پولیٹیکل ''وے آف لائف‘‘ کے طور پر منتخب کیا تھا۔
1973ء کے آئین کے یومِ نفاذ کے صرف چار سال دو مہینے 23 دن بعد اس آئین کو کاغذ کا چیتھڑا کہہ کر اقتدار پر غیرمنتخب صاحب نے قبضہ کرلیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایوانِ صدر میں بیٹھے ان صاحبِ موصوف نے اپنے ارد گرد ایسے مصاحب جمع کئے جن کی قیمت پچھلے جنرل الیکشن میں پھوٹی کوڑی کے برابر بھی نہیں تھی۔ پچھلا جنرل الیکشن ون مین ون ووٹ کے اصول پر منعقد ہوا تھا‘ جس میں عام لوگوں نے ان مصاحبوں کی سیاسی ناک خاک آلود کرکے رکھ دی تھی‘ لیکن یہ مصاحب پاکستان کے بیت المال کو ایسے چمٹے کہ ان کے لگائے ہوئے زخموں سے پاکستان کی معیشت اور معاشرت دونوں کے چہرے پر آج بھی خون کے آنسو بہہ رہے ہیں۔
مصاحب کیا ہوتا ہے‘ اس بارے حضرتِ اسداللہ خاں غالب سے اچھا کون کہہ سکتا ہے۔
بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اِتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
ابھی تک مصاحبوں کا یہی ٹولہ صاحبِ موصوف کی باقیاتِ سیاست پر فیڈ ہو رہا ہے مگر نعرہ لگاتا ہے ووٹ کی آبرو بڑھانے کا۔ وہ کس طرح سے‘ آپ خود ووٹ کو با آبرو بنانے کے سیاسی سوپ سیریل سے ملاحظہ کرلیں۔
قسط نمبر1: یہ بات اب مطالعہ پاکستان میں بھی شامل ہے کہ ایسے مصاحبوں کے آبائواجداد نے پانچ جولائی1977ء والے صاحبِ موصوف کی جانب سے غیر منتخب مجلس شوریٰ کے جھولے میں نامزدگی کی چوسنی سے ووٹ کی آبرو کو بڑھانا شروع کیا تھا۔ اس تاریخی حقیقت میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ پوری عرق ریزی کے ساتھ چُن چُن کر ووٹ کی عزت افزائی کرتے رہے۔ پھر جب صاحبِ موصوف کا اقتدار ختم ہو گیا تو یہی مصاحب ووٹ کی مزید آبرو بڑھانے کے لیے خم ٹھونک کر چل نکلے۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ اس قافلہ میں کوئی پیدل تھا‘ کسی کے کندھے پر قلم دوات تھی‘ کسی نے آستینیں چڑھا کر آ ہنی ہتھوڑا تھام رکھا تھا‘ کوئی تانگے پر تھا‘ کوئی بائیسکل پر اور کوئی کوئی موٹر سائیکل پر بھی‘ مگر آج یہی سارے پاکستان میں ہر طرح کے میگا بزنس کے مالک اور 50 نسلوں کے معاشی تحفظ کی کاروباری اور مالیاتی پروٹیکشن کی گارنٹی رکھتے ہیں۔
دوسری قسط سال 1999ء اکتوبر کے مہینے کی 12 تاریخ کو شروع ہوئی۔ ووٹ کی آبرو بڑھانے والے مصاحب پھر اکٹھے ہوئے اور پاکستان کو ساڑھے نو سال کے عرصے تک کے لیے Enlightened Moderation کے سفر پر روانہ کردیا۔ اس سفر سے بھی اُنہوں نے ووٹ کی آبرو بڑھانے کی منزلِ مُراد پانے کے لیے در در کی خاک چھان ڈالی۔ درِ اقتدار سے شروع کر کے درِ سرور پیلس جدہ تک۔ مگر مجال ہے کہ وہ ووٹ کی آبرو مندی سے کبھی پیچھے ہٹے ہوں۔
تیسری قسط: یہ مصاحب آج بھی تحریکِ استقلال کی طرح پوری طرح سے پُراستقلال ہیں۔ ان کے جذبے اور حوصلے‘ دونوں ماند نہیں پڑ رہے‘ دونوں نہیں بلکہ ترلے سمیت تینوں کہہ لیں۔ اسی لیے کبھی رائیونڈ سے خبر بنوائی جاتی ہے کہ چھوٹے بھائی کو گرین سگنل مل گیا ہے جس کے ری ایکشن میں مے فیئر والے فلیٹ سے یہ درفطنی چھوڑی جاتی ہے کہ 'جی نہیں‘ ڈیل بڑے بھاء جی کی ہوئی ہے‘ چھوٹے میاں کی ہرگز نہیں۔
چھوٹے میاں کی ڈیل کا ذکر آیا ہے تو آئیے آپ کو پہلے ایک چشم دید واقعہ سنا دیتے ہیں۔ پچھلے ہفتے لندن کے اینکر اور سوشل ایکٹوسٹ مبین رشید‘ والد صاحب سے ملنے کے لیے پارلیمنٹ ہائوس میں اُن کے چیمبر تشریف لائے (یہ محض اتفاق ہے کہ سیکرٹریٹ میں وزیروں کے دفتر کو منسٹرز آفس کہا جاتا ہے جبکہ پارلیمنٹ کے اندر جن چند وزیروں کو ورک پلیس ملتی ہے‘ اُسے وکیل کے دفتر کی طرح منسٹرز چیمبر کہا جاتا ہے)۔ مبین رشید ایڈووکیٹ کے ساتھ اُن کے دوست ایک اوورسیز پاکستانی بھی تھے جن کے بھائی 2013ء کے الیکشن میں ضلع وہاڑی حلقہ 164 سے آزاد حیثیت میں ایم این اے منتخب ہوئے تھے‘ لیکن بعد میں وہ حکومتی بینچوں میں شامل ہو گئے۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے دو دیگر ارکان بھی والد صاحب سے ملنے آئے ہوئے تھے۔ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان میں پیش ہونے کے بعد شاہراہِ دستور کی دوسری طرف پارلیمنٹ ہائوس چلا گیا اس لیے مجھے بھی وہ تاریخی کہانی سننے کا موقع مل گیا جو ڈیل اور ڈھیل کی سیاست کا چہرہ بے نقاب کرتی ہے۔ ڈیل اور ڈھیل کے ذکر پر ایم این اے صاحب نے بتایا کہ وہ پچھلی حکومت کی اُس پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں شریک تھے جہاں بڑے بھاء جی نے چھوٹے میاں کو شام ڈھلے خود سپریم کورٹ آف پاکستان سے نااہل (28 جولائی 2017ء) ہونے کے بعد اپنی جگہ وزارتِ عظمیٰ کا اُمیدوار نامزد کیا تھا (20 دسمبر 2017ء)۔ ایم این اے صاحب کہنے لگے: بڑے بھاء جی نے جونہی چھوٹے میاں صاحب کو حکومت کی پارلیمانی میٹنگ میں اگلے وزیر اعظم کے طور پر منتخب کرنے کا اعلان کیا تو ایسے لگا جیسے ولیمے میں کسی شخص نے اُٹھ کر کہا ہو ''اوئے‘ روٹی کھل گئی جے!‘‘۔ چھوٹے میاں کا نام آتے ہی پارلیمانی پارٹی کے ارکان اور پارٹی ممبرز پھلانگتے ہوئے نئے وزیر اعظم کو مبارک باد دینے کے لیے ٹوٹ پڑے۔ میں بھاء جی کے سامنے بیٹھا بے بسی اور حسرت میں ڈوبا انہیں دیکھ رہا تھا۔ اُن کے چہرے پہ جیسے کسی نے لکھ ڈالا ہو ؎
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
اس سے اگلی صبح برادرانِ سیاست کا خون سفید ہو گیا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں