"ABA" (space) message & send to 7575

مارچ اور مارچ

23 مارچ 1940ء کا دن ایسا تھا جب اسلامیانِ برصغیر کے عالی دماغ راہبر اور کارکن لاہور میں جمع ہوئے جہاں قراردادِ لاہور پیش کی گئی‘ اس عزم کے ساتھ کہ ہندوستان میں دو قومیں آباد ہیں۔ اکثریت اپنا اکھنڈ راج نافذ کرنا چاہتی تھی لیکن قائد اعظم محمد علی جناح نے اکثریت کا نشہ نیک نیتی اور حوصلے کی طاقت کے ساتھ ہرن کر دکھایا۔ بقول شاعر؎
یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
اگر آپ 1940ء کے اجتماع کی تصاویر دیکھیں تو کچھ دستار بند اور سکہ بند چہرے آرکائیو میں سے غائب نظر آئیں گے۔ ایسا نہیں کہ کسی ظالم نے تاریخ کا صفحہ پھاڑ کر اُنہیں غائب کر دیا بلکہ ایسا ہے کہ وہ قیامِ پاکستان کی تحریک کو روکنے کے لیے مہا بھارت کا جھنڈا اُٹھائے‘ انڈین نیشنل کانگریس کے حق میں اور تقسیم ہند کے خلاف پرچمِ ستارہ و ہلال کے بجائے ترنگے کے نیچے جمع تھے۔ یہی تحریک آزادی کی تاریخ ہے۔ اس تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد بار بار آزادی کے ثمر کا کیک مسلسل از خود کھانے کی ضد بھی وہی کرتے ہیں جو آزادی کے سفر کے دوران شریکِ سفر نہ تھے۔
سال 2022ء کا ماہِ مارچ تین حوالوں سے بہت اہم ہے۔ پہلا حوالہ: 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں پاس ہونے والی قرارداد کا ہے۔ یہ اجلاس موجودہ اقبال پارک میں 22 مارچ 1940ء کو شروع ہوا اور 23 مارچ تک جاری رہا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے اس 27ویں سالانہ اجلاس کی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح نے کی تھی۔ 23 مارچ 1940ء کے دن بنگال کے معروف مسلم لیڈر مولوی اے کے فضل الحق‘ جو اُس دور میں بنگال کے وزیر اعلیٰ تھے‘ نے اجلاس میں تاریخی قرارداد پیش کی جو پہلے قراردادِ لاہور اور بعد میں قراردادِ پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس قرارداد میں برصغیر کے مسلمانوں کے مستقبل کے لیے روڈ میپ کا فیصلہ ان لفظوں میں کیا گیا:
''آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس نہایت غور و فکر کے بعد اس ملک میں صرف اُسی آئین کو قابلِ عمل اور مسلمانوں کے لیے قابلِ قبول قرار دیتا ہے جو جغرافیائی اعتبار سے باہم متصل خطوں کی صورت میں حد بندی کا حامل ہو اور بوقتِ ضرورت ان میں اس طرح رد و بدل ممکن ہو کہ جہاں جہاں مسلمانوں کی اکثر یتی آبادی موجود ہو‘ جیسے ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی علاقے ہیں‘ اُنہیں آزاد ریاستوں کی صورت میں یکجا کر دیا جائے‘‘۔
اسی تسلسل میں پہلی بار 7 اپریل سال 1946 کے روز قراردادِ دہلی تین روزہ کنونشن میں پاس کی گئی‘ جس کا مسودہ چودھری خلیق الزماں اور ابوالحسن اصفہانی نے تیار کیا تھا۔ اس قرارداد کے ذریعے واضح طور پر نئی ریاستِ پاکستان میں شامل ہونے والے علاقوں کی نشاندہی بھی کر دی گئی۔
قراردادِ پاکستان کا اردو ترجمہ پنجاب سے مولانا ظفر علی خان نے اجلاس میں پیش کیا اور اس قرارداد کے حق میں یو پی کے مسلم رہنما چودھری خلیق الزماں‘ سرحد سے سردار اورنگزیب خان‘ سندھ سے سر عبداللہ ہارون‘ نواب اسماعیل خان‘ بلوچستان سے قاضی محمد عیسیٰ‘ بیگم مولانا محمد علی جوہر‘ آئی آئی چندریگر‘ مولانا عبدالحامد بدایونی اور دوسرے مسلم اکابرین نے تائیدی تقریریں کیں۔ اسی قرارداد کے نتیجے میں سال1945-1946ء کے الیکشن میں حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ نے 100 فیصد مسلم نشستیں جیت کر ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ سچ ثابت کر دکھایا۔
ان تاریخی اقدامات کو پورے برصغیر میں بسنے والے مسلمانوں کی بھرپور تائید حاصل تھی‘ اسی لیے کانگریس نوازوں کو 1946ء کے الیکشن میں پورے ہندوستان کے مسلمانوں نے بُرے طریقے سے مسترد کر دیا۔ 23 مارچ کا دن اس تاریخ اور وطن کے قیام کا اہم ترین سنگِ میل ہے‘ اسی لیے پاکستانی قوم کے لیے یہ اہم ترین یوم کے طور پر منایا جاتا ہے۔
دوسرا حوالہ: انہی ایام میں اس سال وفاقی دارالحکومت میں ایک اہم اجتماع کا انعقاد دوسرا حوالہ ہے۔ فروعی اور مفاداتی سیاست کے لیے سال کے 364 دن پڑے ہوتے ہیں۔ ایسی سیاست بازی کی بازی گری کسی بھی عام دن پر دکھانے میں کوئی حرج نہیں لیکن ایسے موقع پر جب بیرونی دنیا سے مہمان بھی آئے ہوئے ہوں‘ اپنے قومی دن کو‘ جس پر ریاست کی بنیاد اُٹھائی گئی‘ متنازع بنانے کی کوشش کرنے والے کون لوگ ہیں‘ اُنہیں تاریخ کے تناظر میں شناخت کرنا مشکل نہیں۔ یہ بھی تاریخی طور پر طے شدہ بات ہے کہ پاکستان کے چہرے پر جتنے داغ اور پاکستان کے وجود پر جتنے زخم آزادی کے بعد لگائے گئے‘ اُن میں قیامِ پاکستان کی جدوجہد کرنے والوں کی نسل کا کوئی شخص شامل نہیں تھا۔ شاید اسی لیے شاعر نے وطن کو مخاطب کر کے یہ کہہ رکھا ہے؎
اے وطن کیسے یہ دھبّے در و دیوار پہ ہیں
کس شقی کے یہ طمانچے ترے رخسار پہ ہیں
تیسرا حوالہ: یہ حوالہ ہے مارچ کے مہینے میں سیاسی مارچ کا۔ یہ بتانے کی اب کوئی ضرورت باقی نہیں رہی کہ اسلام کے نام پر یہ سارے مارچ اسلام آباد پر کیوں چڑھ دوڑتے ہیں۔ 20 اگست 2018ء کے بعد موجودہ مارچیوں نے ملک کے شہرِ اقتدار اسلام آباد میں اقتدار کی نقب لگانے کے لیے سات عدد مارچ کئے۔ پہلے مارچ کی باٹم لائن میں تین روزہ دھمکی شامل تھی جس کے ذریعے لائوڈ سپیکر پر منتخب وزیر اعظم سے کہا گیا کہ کرسی سے نیچے اُترو‘ اقتدار ہمارے حوالے کر دو ورنہ ہم تمہیں گھسیٹ کر باہر نکال دیں گے۔ اسلام آباد کے پارکوں میں جھولا جھولنے اور رینٹ اے کرائوڈ کا کرایہ وصولنے والے چند روز بعد اپنے پائوں گھسیٹنے ہوئے دیگچے اور دریاں سمیٹ کر لوٹ کے گھر کو چلے گئے‘ ناکام‘ بے نتیجہ اور بے مرام مارچ کے بعد۔ اس سال میں دو مرتبہ مارچ ہوں گے۔ پہلا مارچ جس کا اعلان ہے کہ وہ اسلام آباد پہنچتے ہی حکومت کو رخصت کر کے چھوڑے گا اور دوسرے مارچ کا یہ عالم ہے کہ وہ 'منتخب اسمبلی کو مکھی کی طرح اُٹھا کر آئینی نظام کو رخصت کرنے ‘ کا دعوے دار ہے۔ ایسے میں ایک سوال تو بنتا ہے کہ مارچ میں مارچ کرنے والوں کا ایجنڈا کیا ہے؟ اگر مرکزی حکومت کو کسی جلسے یا جلوس کے ذریعے گھر بھجوایا جا سکتا ہے تو پھر صوبائی حکومت کو کیوں نہیں بھجوایا جا سکتا؟ صوبائی حکومت کراچی میں ایک نئے قانون کے خلاف احتجاج کے لیے سڑک پر نکلنے والوں کی سرپھٹول کیوں کر رہی ہے۔ اپنی باری لٹھ برداری‘ کچھ جمہوریت پسندوں کی سمجھ میں نہیں آ رہی۔
مارچ اور مارچ اکٹھے آئیں گے اور گزر بھی جائیں گے۔ کچھ ٹریفک لائٹس‘ کچھ گملے‘ گھاس کی کچھ راہ داریاں‘ کچھ جنگلے‘ پھولوں کی کچھ کیاریاں پامال ہوں گی۔ اپوزیشن‘ جو ایک دوسرے کو سینیٹ کے الیکشن کا چور کہتی ہے‘ ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گی۔ جی ہاں اور بس!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں