"ABA" (space) message & send to 7575

No Confidence Against Whom?

اس وقت ملک کے سیاسی منظرنامے پر کئی گرما گرم مباحثے جاری ہیں۔ معیشت پر چل رہی بحث میں نکتہ اعتراض اُٹھانے والے 99.9 فیصد اکانومی کے ایکسپرٹ ایسے حضرات ہیں جو سب کے سب کسی نہ کسی حکومت، ریاست اور ملکی نظام کے اعلیٰ ترین عہدوں پر بیٹھ چکے ہیں۔ ان میں شاید ہی کوئی ایسا کاریگر ہو جس کو پاکستان نے اپنی مہارت صرف ایک بار استعمال کرنے کی اجازت دی ہو ورنہ کئی کئی حکومتوں کے عرصے میں یہ ماہر ملکی معیشت کے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے۔ ٹی وی سکرین کے ان مسیحائوں کے ہاتھوں مگر ملک کی مسلسل بیمار معیشت صحت یاب نہ ہو سکی۔ آج دنیا کے بڑے بڑے معاشی ادارے اور میگزین بلکہ اشاریے بھی پوسٹ Covid بحران کی حالت میں پاکستانی معیشت کی تعریف کر رہے ہیں مگر یہ ماہرین ایسے ڈٹے ہوئے ہیں کہ زبانی کلامی حرف کاری کی فن کاری سے گزر جانے پہ ہرگز تیار نہیں۔ چلئے ساون کے اندھے والا محاورہ رہنے دیتے ہیں۔
ان میں شامل ایک دوسرا طبقہ بھی ہے جو معیشت کے نام پہ سیاست کرتا ہے۔ اس بینڈ ویگن میں سے ایک صاحب کے پاس ملک کے خزانے کی سب سے بڑی چابی بھی رہی۔ پچھلے تین سال میںاُن کے اپنے ریکارڈ پر ڈکلیئر کئے گئے منافع میں کروڑوں کا نہیں بلکہ اربوں روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ تحدیثِ نعمت کو چھوڑ دیجئے، اتنی بڑی منافع کی برسات کے باوجود بھی اُنہیں نفع پہنچانے والے پاکستان میں معاشی ترقی کی رفتار بالکل بھی پسند نہیں آ سکی۔ اسی تسلسل میں پاکستان کے سسٹم آف گورننس پر عدم اعتماد کی ایک اور بحث بھی زور و شور سے چلائی جا رہی ہے۔ اس بحث کے مطابق ملک کا پارلیمانی نظام ناکام ہوچکا ہے، اس لیے ان کے نزدیک مسئلے کا فوری حل، فوری طور پر پارلیمانی نظام کا بوریا بستر گول کرکے اقتدار کا سارا اختیار قصرِ صدارت میں جمع کرانا بہت ضروری ہوگیا ہے۔
یہ بتانے کی ضرورت ہرگز نہیں کہ وطنِ عزیز کے صرف چار عدد صدور ایسے اقتدار میں آئے جس کو One Man Rule کا نادر موقع کہا جاتا ہے۔ ان چار صدور میں سے میجر جنرل اسکندر مرزا نے نظامِ صدارت میں زمامِ اقتدار 7 اگست 1955ء کو بحیثیت گورنر جنرل سنبھالی تھی مگر پھر محض چند مہینے بعد ہی موصوف نے 23 مارچ 1956ء کے دن اپنے آپ کو خود ہی صدر مملکت کا عہدہ دے دیا۔ دوسرے نمبر پر صدرِ پاکستان کی حیثیت سے فیلڈ مارشل محمد ایوب خان آئے‘ جن کا عرصہ اقتدار 27اکتوبر 1958ء کو شروع ہوا اور 25 مارچ 1969ء تک جاری رہا۔ پھر اُن کے بعد اُن کے اپنے ہینڈ پِکڈ یحییٰ خان کے تین سال آتے ہیں، اگر تین سال کا یہ عرصہ چھوڑ دیا جائے تب بھی پہلے دو صدر صاحبان 14 سال سے زائد عرصے تک برسرِ اقتدار رہے جس کا سادہ مطلب یہ ہوا کہ کسی بھی جمہوری نظام میں حکومت کی تین ٹرمز کا عرصہ اقتدار اُن کو ملا۔
16دسمبر 1971ء کے المناک سانحہ‘ سقوطِ ڈھاکہ کے دوسال بعد 12 اپریل 1973ء کے دن پاکستان کا پہلا متفقہ آئین ملک میں لاگو ہوا تھا۔ اس متفقہ آئین کے نافذ ہونے کے صرف تین سال 11ماہ اور 22دن بعد چار اپریل 1977ء کو پی این اے کے عزیز ہم وطنوں کی پُر زور فرمائش پر جنرل ضیاالحق صاحب نے اپنے آپ کو عین اسلامی صدر ڈکلیئر کردیا۔ جنرل ضیا صاحب 17 اگست 1988ء تک 11سال 4ماہ اور 13دن بلا شرکتِ غیرے ملک کے صدر رہے۔ پھر جنرل ضیا صاحب کی غیرجماعتی سیاسی پنیری کی پیداوار نوازشریف صاحب کی پُرخلوص کوششوں اور مسلسل محنت کے نتیجے میں 12 اکتوبر 1999ء کا دن آگیا۔ اس روز کا سورج پرویز مشرف کا دور لے کر طلوع ہوا‘ جو 18 اگست 2008ء تک پاکستان کے سیاسی اُفق پر گرہن بن کر چھایا رہا۔ ان دونوں صدر صاحبان، یعنی جنرل ضیا اور جنرل مشرف صاحب کا کل عرصہ اقتدار 20سال 9مہینے 19دن بنتا ہے۔ اس طرح یہ بات بلا خوف ِتردید کہی جاسکتی ہے کہ ہم سب صدارتی نظام کے تجربے کو اچھی طرح سے جانتے پہچانتے ہیں۔ یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں کہ ہم سب نے ان چار عدد صدارتی نظاموں کی 34 سال 5مہینے 7دن خدمت کا مسلسل ہرجانہ ادا کیا ہے۔ ایسا ہرجانہ جس نے گلی گلی حکمرانوں کے محلات تعمیر کر دکھائے اور عام آدمی کو غربت کے جزیروں کے سفر پر روانہ کردیا۔
اگلے دن رئوف کلاسرا صاحب نے کمال کے جملے کہے۔ فرمایا: نواز شریف اقتدار میں ہوں تو جمہوریت کے لیے سب اچھا، اقتدار سے نکل جائیں تو جمہوریت خطرے میں۔ جمہوریت کے محافظوں کے منہ سے جھاگ نکلتی ہے۔ ان دنوں سزا یافتہ مفرور لیڈرز کی مفرور چڑیا کی وڈیو کلپس کے بھی بڑے چرچے ہیں۔ جن میں کیمرے کی آنکھ کے سامنے سال 2019ء، 2020ء، 2021ء اور 25 جنوری 2022ء کو عمران خان کی حکومت کے خاتمے اور مقتدرہ کی طرف سے نواز شریف کی منتیں کرکے اُنہیں واپس کرسی پر لاکر بٹھانے کی تاریخیں دی گئیں۔ یہ تاریخیں اُن تاریخوں سے اکثر ملتی جلتی ہیں جو چڑیا کے ممدوح لیڈر اسلام آباد آمد اور نظامِ جامد کرنے کے لیے دیتے چلے آرہے ہیں۔
اسی دوران کچھ اور تاریخ ساز تاریخیں بھی سامنے آئی ہیں جن کے ذریعے وزیر اعظم پاکستان، چیئرمین سینیٹ، سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف موشن آف نو کانفیڈنس کے اعلاناتِ مسلسل آتے رہے لیکن اپوزیشن کس قدر یکسو اور کتنی متحد ہے ،اس کے ثبوت نے بھی اسی ہفتے ایک نئی تاریخ بنائی‘جب سینیٹ میں سٹیٹ بینک آف پاکستان میں ریفارمز کا حکومتی قانون پاس ہوا۔ اِس پہ عبیر ابو ذری یاد آتے ہیں:
اجلاس کا عنوان ہے اخلاص و مروت
بدخوئی میں مصروف ہیں حضرات مسلسل
ہم نے تو کوئی چیز بھی ایجاد نہیں کی
آتے ہیں نظر اُن کے کمالات مسلسل
پیتے نہیں، بنتی ہے تو پھر جاتی کہاں ہے؟
یہ ذہن میں اُٹھتے ہیں سوالات مسلسل
ایسے ہی ایک سوال کا جواب ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف لائی گئی عدم اعتماد کی مسلسل دو تحریکوں کے وقت سامنے آیا۔اپوزیشن نے یہ تحریکیں ٹی وی سکرینوں پر شغل میلہ لگائے رکھنے کے لیے اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کروائیں۔پھر سپیکر آفس اور پارلیمانی امور کے7‘ 7 مسلسل پھیرے لگائے ، مقصد سادہ سا تھاکہ آپ ہماری ناک کٹنے سے بچالیں ،برائے مہربانی فیس سیونگ کریں اور تحریکِ عدم اعتماد کو اسمبلی فلور پر لے کر نہ آئیں۔پارلیمانی سیاست میں کامیابیوں کی اتنی شاندار تاریخ بنانے والی مرحومہ پی ڈی ایم ایک بار پھر نو کانفیڈنس کی مہم پر نکلی ہے۔کوئی نہیں کہتا کہ پہلے اندرونی عدم اعتماد ختم کرو۔قوم صرف یہ جاننا چاہتی ہے کہ نو کانفیڈنس کس اسمبلی میں کس سال کی کس تاریخ کو کس عہدے کے خلاف آرہاہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں