"ABA" (space) message & send to 7575

امریکہ میں جینیاتی تبدیلی کے دو ریکارڈ

ان دنوں امریکی کارڈیالوجسٹ ڈاکٹرز کے کمالات کا خوب چرچا ہے۔ ان میں سے پہلے ڈاکٹر وہ ہیں جنہوں نے یونیورسٹی آف میری لینڈ میڈیکل سکول کے ایک ایسے آرگن ٹرانسپلانٹ میں حصہ لیا جس نے ہارٹ ٹرانسپلانٹ میں جینیاتی تبدیلی کا ریکارڈ بنا دیا۔ طب کی دنیا میں یہ کارنامہ سرانجام دینے والی میڈیکل ٹیم میں شامل یہ ہیں پاکستانی نژاد ڈاکٹر منصور محی الدین جن کا تعلق کراچی سے ہے اور وہ ڈائو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے گریجویٹ ہیں۔ ڈاکٹر منصور نے بتایا کہ 57 سالہ امریکی شہری David Bennett کا ہارٹ ٹرانسپلانٹ سات گھنٹے تک جاری رہا‘ جس کے دوران مریض کی چھاتی میں دس قسم کی جینیاتی تبدیلیوں والا سور کے دل کا ٹرانسپلانٹ مکمل ہوا‘ جس پر ایک کروڑ 75 لاکھ پاکستانی روپے کا خرچہ آیا۔ ہارٹ ٹرانسپلانٹ سے ایک دن پہلے مسٹر ڈیوڈ نے میڈیا کو بتایا تھا کہ اُن کا دل ناکارہ ہے‘ اب ان کے پاس دو ہی آپشن ہیں‘ اس دل کے ہاتھوں مارے جائیں یا کسی اور کا دل لے کر اُسے اپنے سینے میں جگہ دیں۔
امریکی یونیورسٹی آف میری لینڈ میڈیکل سینٹر کے سرجنز آف کارڈیالوجی نے یہ سرجری کرنے سے پہلے امریکی میڈیکل ریگولیٹر سے خصوصی اجازت لی تھی۔ انہوں نے میڈیکل ریگولیٹر کو بتایا تھا کہ یہ ہارٹ ٹرانسپلانٹ نہ ہونے کی صورت میں مسٹر ڈیوڈ بینیٹ موت کے پکے امیدوار ہیں۔
آپ اسے اتفاق کہہ لیں کہ مسٹرڈیوڈ بینیٹ کی باڈی میں اب ایک جانور کا دل دھڑکتا ہے۔ دل کے اس تنازع کا ایک حصہ کارڈیالوجی اور سرجری کی دنیا میں اس ٹرانسپلانٹ کے تہلکے نے اٹھایا ہے جبکہ دوسرا تنازع مسٹر ڈیوڈ کے اندر ہے۔ جب بات بات پر اور نامعلوم وجوہات پر اُن کا دل دھڑکتا ہو گا تو وہ اُردو شاعری کی طرف ضرور رجوع کرتے ہوں گے‘ جس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اُن کے ڈاکٹر منصور محی الدین صاحب انگریزی دان سے پہلے اردو دان ہیں۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ پاکستانی نژاد اس امریکی ڈاکٹر نے بے سبب ڈیوڈ کا دل دھڑکنے پر انہیں ناصر کاظمی کا یہ شعر بھی سنا دیا ہو:
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
یہ بھی عین ممکن ہے کہ متنازع جانور کے دل کو گھاس کے کھلے میدان اور صحت افزا مقامات‘ جنگلات اور گندے نالے یا کچرے کے ڈھیر یاد آتے ہوں۔ ایسے میں مسٹر بینیٹ کا حال کیا ہو گا یہ وہی بتا سکتے ہیں۔ دوسری جانب پچھلے 57 سال سے مسٹر ڈیوڈ کی باڈی خود ایک ایسے گھر میں پلی بڑھی ہے جہاں دروازے‘ کنڈیاں اور تالے لگتے ہیں۔ دروازے پر تالا ہو یا کنڈی‘ دل اگر اپنا ہو تو وہ گھبراتا ضرور ہے۔
یہ تو طے ہے کہ کنڈیاں‘ تالے اور دروازے لوٹ مار کرنے والوں سے بچنے کے لیے ایجاد ہوئے تھے اس لیے لُٹو اور پھٹو والوں کی اپنی ایک الگ دنیا ہے۔ جہاں کنڈی‘ تالا‘ دروازہ کچھ بھی لوٹنے والوں کو روک نہیں سکتا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی بھی لوٹنے والا چاہے کتنی بھی کوشش کر لے وہ لندن‘ امریکہ سمیت کہیں بھی چھپ نہیں سکتا‘ ہاں البتہ زورآور ہو تو مفرور ضرور ہو سکتا ہے۔ معاف کیجیے گا میں زرآور لکھنا چاہ رہا تھا اس لیے کہ زر سے زیادہ زور اور کسی شے میں نہیں ہوتا۔ خاص طور پر وہ مال و زر جس نے لوٹنے والوں کو لاہور شہر کے کسی پرانے محلے سے اُٹھا کر انگلستان کی بزمِ شاہی کے پڑوس میںجا بسایا ہو۔ اسی لیے وہ ڈھونڈنے والے جو قیامت کی نظر رکھتے ہیں‘ ہر دوسرے دن مے فیئر کے شاہی محلے میں انگریزی زبان بولتے ہوئے اپنے لوٹے ہوئے مال و زر کی واپسی کے نعرے لگاتے ہیں۔ بزمِ شاہی کے پڑوس پر بعد میں بات ہو گی‘ پہلے آئیے چلتے ہیں دل کے لٹنے کی طرف‘ جہاں مسرور انور سے اچھا کسی نے نہیں کہا۔ بولے ؎
دل کے لٹنے کا سبب پوچھو نہ سب کے سامنے
نام آئے گا تمہارا یہ کہانی پھر سہی
پرانے زمانے کے بادشاہوں کے پاس نسخہ خاص کستوری رکھنے والے طبیب ہوا کرتے تھے جن سے وہ کبھی معجون شباب اور کبھی خاندانی نسخہ جات کے ذریعے آبِ حیات کے جام بنواتے۔ چار صدیاں پہلے لاہور میں ایسے ہی صدری نسخے کھا پی کر مرنے والے بادشاہ کا نام سلیم تھا۔ اپنے والد کی فوج کا کمان دار بنا تو نورالدین کہلایا۔ تختِ شاہی پر بیٹھا تو جہاں گیر ہو گیا۔ جہاں گیر کا ایک مطلب انٹرنیشنل یا گلوبل بھی ہو سکتا ہے۔ اس انٹرنیشنل کے شاہی طبیب اُس کو صحت افزائی کے 16 گلوبل پیالے روزانہ پلاتے تھے۔ 10 عدد دن کے وقت پیتا تھا اور چھ پیالے رات گزارنے کے لیے۔ اُس نے اپنے شاہی محل کے باہر رعایا کو سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے کیلئے عدلِ جہانگیری کی زنجیر لٹکائی۔ استاد عبدالحمید عدم ؔ نے عدل کی عدم دستیابی پر یہ وار کمال کا کیا ؎
ہم کو شاہوں سے عدالت کی توقع تو نہیں
آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں
پرانے زمانے کے بادشاہوں کے دور میں شاہی طبیب ہومیوپیتھک اور لذیذ دوائیں بناتے تھے۔ پھر دوائوں سے لذت کم کرتے کرتے ایلوپیتھی کا دور آ گیا‘ سرجری جس کا ایک اہم شعبہ ہے۔ سرجری کا آغاز اقتدار‘ قبضے‘ زر‘ زن اور زمین کے لیے لڑی جانے والی جنگ کے زخمیوں کے علاج سے ہوا تھا‘ جہاں سے ہوتے ہوئے سرجری بازوئوں‘ کندھوں‘ آنکھوں اور ٹانگوں کے راستے سے ہوتے ہوتے دل تک جا پہنچی۔
ذکر ہو رہا تھا ہومیوپیتھک اور ایلوپیتھک طریقہ علاج کا کہ نظر آخر نظر ہے جو بے ارادہ ہمارے سابق وزیر اعظم اور موجودہ عدالتی مفرورکو نوازی گئی ایک رپورٹ پر اُٹھ گئی۔ اس سے پہلے لندن میں مقیم ایک ڈاکٹر لارنس آف انڈیا نے نواز شریف کے امراض پر پیش گوئیاں جمع کر کے اُسے میڈیکل رپورٹ کا نام دیا تھا۔ یو ایس اے بہادر‘ کرشمے دکھانے میں یو کے بہادر سے بھی آگے ہے اس لیے وہاں کے بھارتی ڈاکٹر نے کمال کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ آپ خود فیصلہ کر لیں ایسا مریض جو یو کے کے شہر لندن اور اُس کے گردونواح میں غائبانہ ذرائع سے لگائی گئی فیکٹریوں کی آمدن دیکھنے کے لیے پھیرے لگا رہا ہو‘ ڈاکٹر اور اُس کے درمیان ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ ہی نہیں بلکہ اٹلانٹک سمندر حائل ہو‘ وہ سٹیتھوسکوپ یا مشین تو دور کی بات ہے‘ اُسے ہاتھ لگائے بغیر بتا سکے کہ اُس کا دل ٹوٹ گیا ہے‘ اور He is a candidate for death۔ ڈاکٹر یہیں نہ رُکے بلکہ یہ بھی کہا کہ مریض اُس جیل میں بہت گھبراتا ہے جس جیل کو ڈاکٹر نے کبھی دیکھا ہی نہیں۔ ساتھ یہ بھی لکھ ڈالا کہ میرا مریض جب سے انگلش ہوائوں میں سانس لے رہا ہے‘ اُس کے پلیٹ لیٹس کا مسئلہ کہیں ہوا میں اُڑ گیا ہے اور اب اُسے ٹوٹے ہوئے دل کا سامنا ہے۔ آفاقی سچ یہ ہے کہ عزت اور ذلت مالکِ ارض و سما کے اختیارِ خیر میں ہے۔ اگر کسی کو امریکہ میں بیٹھ کر برطانیہ اور پھر سات سمندر پار اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بے توقیر ہونے کا شوق ہو تو قدرت وہ ضرور پورا کر دیتی ہے۔ اس بحث میں جانا ضروری نہیں کہ Cardiomyopathy خالص زنانہ بیماری ہے‘ جس کو درمیانہ بنانے کے لیے مریض دیکھے بغیر ڈاکٹر شال نے اُس پہ مردانہ شال ڈال دی۔
این ایچ ایس کی اجازت کے بغیر یوکے میں میڈیکل پریکٹس کون ڈاکٹر کر سکتا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں