"ABA" (space) message & send to 7575

ہفتۂ وکلا اور روحانی پہلو

نیا سال کئی اعتبار سے قانون و انصاف کے ایوانوں میں بڑی تبدیلیوں کا سال ہے۔ 2022ء کے دوسرے مہینے کے دوسرے دن سپریم کورٹ آف پاکستان کے نئے چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیال نے اپنے عہدے کا حلف اُٹھایا۔ موجودہ چیف جسٹس صاحب 2023ء کے ستمبر کی 18 تاریخ کو سی جے پی کے عہدے سے ریٹائر ہو جائیں گے۔ جناب چیف جسٹس عمر عطا بندیال صاحب سے ایک سال سات ماہ اور 16 دن کے بعد سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف اُٹھائیں گے۔
اس سے پہلے 2023ء کے اگست کے وسط میں موجودہ حکومت کی پانچ سالہ ٹرم پوری ہو جائے گی‘ جس کے بعد ملک کا نظم و نسق تب ایک عبوری وزیر اعظم اور چھوٹی سی عبوری کابینہ کے ہاتھ میں ہو گا۔ یہ کیبنٹ آئین کے آرٹیکل 224 کے مطابق 60 دن کے اندر اندر جنرل الیکشن کروانے کی پابند ہو گی۔ اس کے اگلے سال جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 25 اکتوبر 2024ء کے روز ایک سال ایک ماہ اور سات دن کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے سے ریٹائر ہو جائیں گے۔
قانون اور انصاف کی دنیا میں مزید بڑے عہدوں پر رونما ہونے والی بڑی تبدیلیوں کی طرف جانے سے پہلے کچھ ذکر اس ہفتے کا کر لیتے ہیں جو صحیح معنوں میں ہفتۂ وکلا تھا۔ اس سلسلے کی سب سے بڑی تقریب سپریم کورٹ آف پاکستان کے Ceremonial Hall میں منعقد ہوئی جس کی میزبانی سپریم بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون اور اُن کی ایگزیکٹیو باڈی کے عہدے دار کر رہے تھے۔ اس تقریب میں سپریم کورٹ آف پاکستان‘ ہائی کورٹس اور فیڈرل شریعت کورٹ کے جج صاحبان کی ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ارکان اور پورے ملک کے ممتاز وکیل لیڈرز اور سینئر وکلا کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔
SCBA کے جنرل سیکرٹری وسیم ممتاز ملک اور دیگر عہدے دار ہال کے مین دروازے پر ملے۔ سپریم کورٹ بار کے سابق صدور‘ پاکستان بار کونسل اور صوبائی بار کونسلز کے عہدے دار اور تین سابق وزرائے قانون اعتزاز احسن‘ بابر اعوان اور وسیم سجاد بھی تقریب میں مدعو تھے۔
وطنِ عزیر کے قانونی دماغوں کے اس بڑے اکٹھ میں تین مختصر تقاریر ہوئیں۔ پہلے سپریم کورٹ بار کے صدر احسن بھون صاحب نے خطاب کیا‘ جس کے بعد نامزد چیف جسٹس عمر عطا بندیال صاحب کی باری آئی اور تقریب کے آخر میں چیف جسٹس گلزار احمد کا خطاب ہوا۔ ان تینوں تقریروں میں خاص قدرِ مشترک دو تھیں‘ پہلی یہ کہ تقاریر اس قدر مختصر ہوئیں جیسی ڈنر/ بینکوئٹ کے موقع پر ہونی چاہئیں۔ جہاں تقریر سننے والوں کی ہر میز پر دھیمے برنر کی لَو پر رکھے کھانے کی خوشبو آرہی ہو‘ وہاں لمبی تقریریں حاضرین کا سخت امتحان بن جاتی ہیں۔ دوسری بات‘ تینوں مقررین کا یہ کہنا تھا کہ تفصیلی تقریر کل کے فُل کورٹ ریفرنس میں کریں گے۔ تقریب میں سپریم کورٹ پریس رپورٹرز بھی موجود تھے‘ اس لیے آنے والے دن کے سرپرائز پر قیاس کے گھوڑے دوڑائے گئے۔
اس سلسلے کی دوسری تقریب کورٹ روم نمبر ایک میں ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس گلزار احمد صاحب کے لیے منعقد کیا جانے والا فُل کورٹ ریفرنس تھا‘ جس میں جانے والے چیف جسٹس آنے والے چیف جسٹس‘ پاکستان بار کونسل کے نمائندے اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نمائندے نے مختلف عدالتی اور وکالتی ایشوز پر بات چھیڑی۔ نئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال صاحب نے اپنی گفتگو میں سپریم کورٹ میں زیرِ التوا 51 ہزار سے زائد مقدمات کا نوٹس لیا۔ انہوں نے ان مقدمات میں پیش ہونے والے وکلا سے دو اہم باتیں کہیں‘ پہلی بات یہ کہ وہ کیسز کے اس بیک لاگ کو فوری طور پر کلیئر کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ وکلا اپنے کیس کا بریف تیار کر کے آئیں۔ تاریخیں نہ مانگیں‘ تاکہ پینڈنگ مقدمات کے فیصلے ہو سکیں۔
اس سے اگلے دن‘ دو فروری کی صبح شہرِ اقتدار پر گھنے بادل اور ٹھنڈی ہوائیں مہربان ہو گئیں۔ صبح سویرے ہلکی بارش ہوئی۔ ایوانِ صدر میں شاہراہِ دستور کی جانب نئے چیف جسٹس کے حلف اُٹھانے کی تقریب اوپن ایئر میں رکھی گئی تھی۔ نشست گاہ کے اوپر شامیانہ تھا‘ مگر ارد گرد کوئی قنات نظر نہ آئی‘ اس لیے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے مہمانوں کا استقبال سخت ٹھنڈ نے کیا۔ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج قاضی فائز عیسیٰ صاحب بغیر کسی پروٹوکول اور گاڑی کے پیدل چلتے ہوئے تقریب میں پہنچے۔ میرے والد صاحب کی نشست سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب کے ساتھ تھی‘ جنہوں نے تقریبِ حلف برداری کے آئینی پہلو پر پُر مغز باتیں کیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آئین میں Oath Making کا لفظ آیا ہے‘ لیکن اس کے برعکس حلف برداری کی تقریب کے لیے Oath Taking کا لفظ استعمال ہوتا ہے جو درست نہیں۔
ویک اینڈ پر لاہور سے ایک وکیل صاحب نے دو سیاسی گھرانوں کی ملاقات کا روحانی پہلو اجاگر کرنے کی فرمائش کی جسے پورا کرنے کے لیے خیالات کے بحرِ ظلمات میں گھوڑے دوڑاتے ہوئے اس ملاقات کا اندرونی جائزہ لینا پڑ گیا۔ ان دنوں چونکہ ہر کسی کا ذاتی خیال اور اپنی خواہش کو خبر بنا کر پیش کیا جانا جائز ہے‘ اس لیے لاہور سمٹ کا خیالی جائزہ درمیان میں آ گیا۔ ہالی وڈ میں پانچ پروڈیوسرز نے مل کر ایک فلم بنائی تھی جس کا مرکزی خیال Josh Goldsmith کا تحریر کردہ یوں تھا کہ فلم کا ہیرو میل گبسن جس تقریب میں جاتا وہاں میزبان کے منہ سے نکلنے والے لفظوں سے زیادہ استقبال کے لیے میزبان کے دل میں آنے والے خیالات کا اُسے پتہ چل جاتا ہے۔ جیسے ایک طرف آنے والے کو آئیے جناب‘ بہت شکریہ تشریف آوری کا‘ کے لفظ منہ سے کہے جا رہے ہوں لیکن دل میں آ رہا ہو کہ یہ شکل گم نہیں کرتا‘ میں نے اتنی کوشش کی مگر بڑا ڈھیٹ ہے۔ اس فارمولے کے مطابق مہمان جونہی لاہور پیلس کے اندر داخل ہوا میزبان کو دیکھ کر اُس کے دل نے چیخ چیخ کر کہا ہو گا‘ دیکھو کیسا مؤدب ہو کر استقبال کے لیے کھڑا ہے۔ کہا کرتا تھا‘ میرا پیٹ پھاڑے گا‘ سڑکوں پر گھسیٹے گا‘ پھر لاہور کے چوک میں مجھے کھمبے پر لٹکائے گا۔ ذرا دیکھو تو اپنے مطلب کے لیے پیٹ پر ہاتھ باندھے کیسے دروازے پر کھڑا ہوا ہے۔ میری دعوت کے بغیر اب اس کے پاس خبر بنانے کے لیے بچا ہی کیا ہے؟
2022ء کے مارچ کی 25 تاریخ کو جسٹس قاضی محمد امین (AdHoc)‘ اُس سے اگلے مہینے چار اپریل کو جسٹس مقبول باقر (سندھ)‘ پھر دو ماہ بعد 13 جولائی کے روز مظہر عالم میاں خیل (KP) جبکہ 13 اگست کے دن جسٹس سجاد علی شاہ (سندھ ) ریٹائر ہو جائیں گے۔ اس طرح ملک کے تین صوبوں سے چیف جسٹس صاحبان کی چار وکینسیوں پر سپریم کورٹ میں تعیناتی کا راستہ کھلے گا۔ چونکہ سندھ کے دو جج صاحبان ریٹائر ہو رہے ہیں‘ چنانچہ ہو سکتا ہے وہاں کے سینئر ترین جج یا اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب اطہر من اللہ صاحب میں سے کسی کو سپریم کورٹ میں خدمات سرانجام دینے کا موقع ملے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں