فوج کسی بھی ملک کا اہم ترین انسانی اثاثہ ہوتی ہے۔ فوج کی بنیادی ذمہ داری ملک کوبیرونی جارحیت سے بچانا اور ملک کی جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ کرنا ہوتا ہے ۔افواج کی مضبوطی سے ملک مضبوط ہوتے ہیں اور ریاست کے دشمن ریاست کے خلاف منفی کارروائیوں سے احتراز کرتے ہیں۔ 1965ء میں افواج پاکستان نے بھارتی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور بھارت کے پاکستان پر قبضے کے خواب کو چکنا چور کر دیا ۔سیاچن اور کارگل کے محاذوں پر بھی پاکستان فوج نے جرأت اور بہادری کی غیر معمولی تاریخ رقم کی اور قوم کے سر کو فخر سے بلند کر دیا ۔فوج کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں جتنی زیادہ دلچسپی ہوتی ہے وہ اتنی ہی زیادہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ فوج اگرچہ براہ راست ملک پر حکومت نہیں کرتی لیکن سربراہ حکومت کی مشاورت کے ساتھ ملک کے دفاع کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتی ہے۔ بیرونی محاذوں کے ساتھ ساتھ فوج کے ذیلی ادارے اندرون ملک بھی ملک دشمن عناصر پر کڑی نظر رکھتے ہیں تاکہ ریاست کے خلاف ہونے والی کسی بھی سازش کا قلع قمع کیا جا سکے ۔
جرائم پیشہ افراد عام طور پر پولیس ہی کے ذریعے کنٹرول کئے جاتے ہیں لیکن بسا اوقات جرائم پیشہ گروہ منظم ہو کر مافیا کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اگر مافیا کے و سائل اور افرادی قوت سے نبٹنے کے لیے پولیس کمزور پڑ جائے تو ایسی صورت میں فوج اپنی ذمہ داریاں ادا کرتی ہے اور پولیس کی ہمراہی میں مافیا کے نیٹ ورکس کوختم کرتی ہے ۔
ماضی قریب میں کراچی میںمجرموں کی طاقت کو توڑنے کے لیے فوج نے نمایاں کردار ادا کیا اور بھتہ خوروں اور پیشہ ور قاتلوں کے خلاف موثر حکمت عملی تیا ر کی۔ فوج کی کامیاب حکمت عملی کی وجہ سے مجرموں کی حوصلہ شکنی ہو ئی اور عوام کی وہ غالب اکثریت جو کراچی کے مستقبل کے حوالے سے نا امید ہو چکی تھی‘ ان کو فوج کی کارکردگی دیکھ کر نیا حوصلہ و توانائی ملی۔
قدرتی آفات اور حادثات میں بھی رفاہی تنظیموں کے ساتھ ساتھ فوج بھی نمایاں اور مو ثر کردار ادا کرتی ہے۔ بالا کوٹ کے زلزلے کے متاثرین کی بحالی کے لیے جہاں رفاہی تنظیموں نے فعال کردار ادا کیا‘ وہاں پر فوج نے بھی بے مثال کردار ادا کیا۔ فوج کی امدادی کارروائیوں کی وجہ سے ملبے تلے دبے ہزاروں انسانوں کو بچا لیا گیا اور بہت سی گری ہوئی تباہ حال عمارتوں کی تعمیر نو کا کام بھی احسن طریقے سے مکمل کر لیا گیا۔
کسی بھی جمہوری ملک اور معاشرے میں فوج اس وقت تک سیاست میں مداخلت نہیں کرتی‘ جب تک سیاست کرنے والے عناصر وطن دشمنی پر تیار نہیں ہو جاتے۔ اگر کوئی گروہ، جماعت یا افرادایسی سرگرمیوں میں ملوث ہو جائیں جس سے نقص امن کا اندیشہ ہو تو ان کارروائیوں کی روک تھا م کے لیے پولیس اپنا کردار ادا کرتی ہے ۔اس کے برعکس اگر کوئی جماعت،ادارہ یا گروہ ملک دشمنی پر آمادہ ہو کر لوگوں کے قتل و قتال پر آمادہ ہو جائے اور پولیس اس خلفشار پر قابو نہ پا سکے تو کئی مرتبہ فوج کو بھی معاونت کے لیے طلب کیا جاتا ہے تاکہ ملک میں امن و امان برقرار رکھنے میں آسانی ہو ۔
عام حالات میں فوج سیاسی سرگرمیوں میں مداخلت نہیں کرتی اورانتخابات کے بعد ملک کے سیاسی ڈھانچے کی تشکیل نو کے لیے بطور ادارہ غیر جانبدار رہتی ہے۔بسا اوقات لڑائی جھگڑے والے مقامات پرپولنگ کی نگرانی کے لیے یہ اپنا کردار ادا کرتی ہے ۔ تاہم فوج کا مقصد کسی گروہ کی حمایت یا مخالفت کرنا نہیں ہوتا بلکہ سکیورٹی کے فرائض سر انجام دینا ہو تا ہے۔ کامیاب سیاسی رہنما اپنے معمولات کی انجام دہی کے لیے سیاسی تدابیر اور حکمت عملی تیار کرتے ہیں اور بالعموم پولیس کو بھی سیاسی مفادات اور ایجنڈے کی تکمیل کے لیے استعمال نہیں کرتے ۔پولیس کا اصل کام عوام کی جان و مال کا تحفظ اور مجرموں کا تعاقب کرنا ہے ۔اگر ان کو ان کی اصل ذمہ داری سے ہٹا کر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے تو اس سے اندیشہ ہوتا ہے کہ ان کی توجہ کے ہٹنے سے مجرموں کی حوصلہ افزائی ہو گی اور جرائم کی شرح میں اضافہ ہو گا۔ بعض حکومتیں پولیس کو مخصوص حالات میں سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں اور کئی مرتبہ انہیں سیاسی مخالفین کو ڈرانے ،دھمکانے اور گرفتار کرنے کی بھی ذمہ داری دی جاتی ہے ۔تاہم مستحکم سیاسی معاشروں میں ہر صورت یہ کوشش کی جاتی ہے کہ فوج کو سیاست میں نہ الجھایا جائے ۔ فوج کو سیاست میں مداخلت کی دعوت دینے سے شاید سیاستدانوں یا بعض سیاسی جماعتوںکو فائدہ حاصل ہو جاتا ہے لیکن سیاسی تنازعات میں فریق بننے کی وجہ سے فوج کے وقار پر حرف بھی آ سکتا ہے۔
آج سے 67 برس قبل بھارت اور پاکستان نے بیک وقت انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کی اور دونوں ممالک نے اکٹھے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا لیکن بھارت کی سیاست فوجی مداخلت کے بغیر ہی آگے بڑھتی چلی گئی جبکہ پاکستان میں کئی مرتبہ فوجی حکومتیں بر سر اقتدار آئیں۔ اگر ہم سنجیدگی سے غور کریں تواس حقیقت کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ جب سیاستدان باہمی اختلافات کو سنجید ہ مذاکرا ت کے ذریعے حل نہ کر سکے اور گروہی اور جماعتی تعصبات پر قابو پانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی گئی اور وسیع پیمانے پر اختلافات پھیل گیا تو فوج کوسیاست میں مداخلت کرنا پڑی ۔
1977ء میں پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کے مابین انتخابی دھاندلی پر ڈیڈ لاک لگ گیاجو بڑھتے بڑھتے تحریک نظام مصطفی پر منتج ہوا۔ پر تشدد جلسے ،جلوس اور ریلیو ں نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔جب حالات قابو سے باہر ہوگئے تو جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء کا نفاذکر دیا۔ اس مارشل لاء کے نفاذ کے بعد طویل عرصے تک ملک میں معمول کی سیاست بحال نہ ہو سکی ۔بعد ازاں جنرل ضیاء الحق ایک طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہو گئے اور دوبارہ ملک میں جماعتی بنیادوں پر انتخابات کا انعقاد ہو سکا۔ 1997ء میں ملک میں مسلم لیگ(ن)کو کامیابی حاصل ہو ئی ۔میاں محمد نواز شریف اس کامیابی کو برقرار نہ رکھ سکے ‘ان کا مختلف اداروں سے ٹکراؤ شروع ہو گیا اور یہ ٹکراؤبڑھتے بڑھتے ملک کے آرمی چیف تک جا پہنچا اور میاں محمد نواز شریف اقتدار سے محروم ہو کر طویل عرصہ جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی بر سر اقتدار آئی ۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صدر آصف زرداری کے دور میں بھی معزول تھے ۔ معزول چیف جسٹس کی بحالی کے لیے میاں محمد نواز شریف نے لانگ مارچ کیا ۔آصف علی زرداری عوام کے تیور بھانپ گئے اور انہوں نے سیاسی مطالبہ قبول کرتے ہوئے چیف جسٹس کو بحال کر دیا اور ملک سیاسی بحران کا شکار ہونے سے بچ گیا ۔
2013ء کے انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف بھی بڑی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ۔عمران خان نے چار حلقوں میں انگوٹھوں کے نشانات کے ساتھ دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا ۔ان کا یہ مطالبہ قبول نہ ہوا اور ان کا یہ مطالبہ بڑھتے بڑھتے وزیر اعظم کے استعفے اور مڈٹرم انتخابات تک جا پہنچا اور خان صاحب نے ماہ رواں کی 14تاریخ کو لانگ مارچ کی کال دے دی ۔
پاکستان عوامی تحریک نے بھی انتخابی اصطلاحات کا مطالبہ کیا ۔ اس سے قبل عوامی تحریک زرداری صاحب کے دور اقتدار میںبھی لانگ مارچ کر چکی تھی لیکن زرداری صاحب کے سیاسی رویے کی وجہ سے لانگ مارچ کو خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ مسلم لیگ (ن) نے سیاسی انداز اختیار کرنے کی بجائے پولیس کو استعمال کیا جس کی وجہ سے ماڈل ٹاؤن میں درجن سے زائد ہلاکتیں ہو ئیں۔ان ہلاکتوں کے بعد عوامی تحریک نے بھی 14اگست کو لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ۔
میاں محمد نواز شریف کے پاس بہترین موقع تھا کہ سیاسی لیڈر ہونے کے ناتے عوام سے رجو ع کرتے اور تحریک انصاف کوانتخابی میدان میں اترنے کی دعوت دیتے تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جاتا۔میاں صاحب نے سیاست کی بجائے انا کا راستہ اختیا ر کیا ۔ لانگ مارچز کا دباؤ بڑھتا گیا ۔میاں صاحب ابتدائی طور پرتحریک انصاف اورعوامی تحریک کے مطالبات کو نظر انداز کرتے رہے لیکن حالات کی گردش سے دباؤ کا شکار ہو ئے اور بات چیف آف آرمی سٹاف تک جا پہنچی۔ گو سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں حل کرنا سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے لیکن ایک مرتبہ پھر فوج کو وہ ذمہ داری سونپی جا چکی ہے جو حقیقت میں اس کی ذمہ داری نہیں ہے ۔اس ساری صورتحال پر پاکستانی قوم بے چینی کا شکار ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ فوج اس ذمہ داری سے کیسے عہدہ برا ہو تی ہے۔ سر دست یہی کہا جا سکتا ہے کہ جب تک سیاستدان اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کریں گے‘ تب تک ملکی معاملات ٹھیک طریقے سے نہیں چل سکتے۔