"AIZ" (space) message & send to 7575

بابا شہید رحمتہ اللہ علیہ

والدین اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں۔ خوش نصیب ہے وہ شخص جس کے والدین اس سے راضی ہوںاور بد نصیب ہے وہ شخص جو اپنے والدین کو ناراض کر بیٹھے۔ کئی لوگ اپنی زندگی کی آخری سانس تک اپنے والدین کی خدمت کرتے رہتے ہیںاور یوں ان کی دعاؤں اور نیک تمناؤں کے حق دار بن جاتے ہیں۔ اس کے بالمقابل بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو تھوڑے سے عروج اورترقی کو حاصل کرنے کے بعد اپنے والدین کو بھلا بیٹھتے ہیں اور ان کی خدمت اور تابعداری کی سعادت سے ـمحروم ہوجاتے ہیں۔
اسی طرح بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے والدین ان کو چھوٹی عمر میں داغ مفارقت دے جاتے ہیںاور ساری زندگی انسان ان کے خلا ء اور کمی کو محسوس کرتا رہتا ہے۔ میرا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے زندگی کا طویل سفر والدین کے بغیر طے کیا ہے اور زندگی کی ہر خوشی اور غم کے دوران ان کی کمی کو محسوس کیا ہے۔
میری عمر اس وقت صرف 15برس تھی جب بابا شہیدؒ دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان 15سالوں میں‘ میں نے ان کی بے پناہ شفقت اور محبت کو حاصل کیا اورتاحال آپؒ کے پیار کی خوشبو میرے وجود میں رچی اور بسی ہوئی ہے۔ وہ میرے باپ ہونے کے ساتھ ساتھ میرے پہلے مذہبی اور روحانی استاد تھے اور ان کی شخصیت کے گہرے نقوش آج تک میرے دل ودماغ پرثبت ہیں۔ والد گرامی نے شادمان میں واقع اپنی رہائش گاہ کے ایک کمرے کو لائبریری بنایا ہوا تھا۔ جب آپ گھر ہوتے تو اپنے وقت کا زیادہ حصہ لائبریری میں گزارا کرتے تھے۔ سارا دن مطالعہ کے ساتھ ساتھ احباب سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی اسی لائبریری میں جاری رہا کرتا تھا۔
میں بھی سکول سے آکر آپؒ کی لائبریری سے کتابیں نکال کر پڑھا کرتا تھا۔ آپؒ مجھے لائبریری میں موجود سیرت النبیﷺاور صحابہ کرامؓ کے بارے میں لکھی گئی معیاری کتب کے بارے میں آگاہ کرتے تھے ۔ میں ان کی بتائی ہوئی کتابیں نکال لیتا اور کئی مرتبہ ان کے مشکل مقامات کے حوالے سے آپؒ سے رہنمائی بھی حاصل کیا کرتا تھا۔ آپؒ بڑی شفقت اور محبت کے ساتھ میرے سوالات کا جواب دیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ میںآپ کی اہم سیاسی اور مذہبی شخصیات کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کا مشاہدہ بھی کیاکرتا تھا۔ اس وقت چونکہ ہفتہ وار چھٹی جمعہ کے دن ہوا کرتی تھی اس لیے میں بھی ہر جمعہ آپؒ کے ساتھ پڑھنے جایا کرتا تھا۔ آپؒ کے خطبات میں علمیت کے ساتھ ساتھ جذبہ بھی ہوا کرتا تھا‘ اس لیے میں آپؒ کے خطبات سے علم کے ساتھ ساتھ جذبہ بھی کشید کیا کرتاتھا۔ مجھے بطور خطیب بھی آپ کے ساتھ بہت لگاؤ تھا اور میں پورا ہفتہ جمعہ کے انتظار میں رہتا تھا کہ کب جمعہ آئے تو مجھے کوئی نیا موضوع یا نئی بات سننے کو ملے ۔
مجھے آپؒ کے ہمراہ جلسوں میں جانے کا بھی بہت شوق تھا لیکن سکول کی مصروفیات بالعموم اس حوالے سے رکاوٹ بن جایا کرتی تھی۔ تاہم گرمیوں کی چھٹیوں یا دیگر تعطیلات کے دوران میں بڑے اصرار اور خواہش کے ساتھ آپ کی تقاریر سننے کے لیے آپ کے ہمراہ جایا کرتا تھا۔ آپ جہاں بھی جاتے‘ ہزاروں لوگ آپ کا خطاب سننے کے لیے آیا کرتے تھے۔ میں لوگوں کا آپ کے ساتھ جذباتی تعلق دیکھ کر خوش بھی ہوتا تھا اور حیران بھی۔ میں نے آپ کے ہمراہ ماموں کانجن، بیگم کوٹ، شیخوپورہ ، سیالکوٹ اور دیگر مقامات پر کئی اجتماعات میں شرکت کی اور آپ کے بہت سے تاریخی خطابات کو سامنے بیٹھ کر سنا۔
میں اس وقت ششم جماعت کا طالب علم تھا جب آپ مجھے اپنے ہمراہ حج کے لیے لے گئے۔ میں نے آپؒ کی رحلت کے بعد بھی دو مرتبہ حج کی سعادت حاصل کی لیکن جو سفر میں نے آپ کی ہمراہی میں کیا آج تک اس کے اثرات میرے دل ودماغ پر ثبت ہیں ۔ آپؒ نے میدان عرفات میں رو رو کر اللہ کی بارگاہ میں دعائیں کیں تھیں۔ اسی طرح مزدلفہ کی رات آپؒ بہت جذباتی تھے۔ اور مجھے بار بار کہہ رہے تھے کہ بیٹے تمہیں اللہ کے اس عظیم احسان پر اس کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے تمہیں کم عمری میں یہاں آنے کا موقع عطا فرمایا۔ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی شریف کی زیارت کے دوران میں نے آپؒ کو بہت زیادہ جذباتی پایا۔ آپؒ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگی ہوئی تھیںاور آپؒ اس سعادت کے حصول پر شکر گزاری اور انکساری کا پیکر بنے ہوئے تھے۔
میں کبھی کبھار جب پڑھائی پر مناسب توجہ نہ دیتا تو آپؒ اس پر ناراضگی کا اظہار کرتے اور وقت کی قدر پہچاننے کی بکثرت تلقین کیا کرتے تھے۔ آپؒ کی نصیحت میں اتنا درد ہوتا کہ میں فوراً اپنی تعلیم کی طرف متوجہ ہو جایا کرتا تھا۔
آپؒ کو اللہ تعالیٰ نے بڑی حساس طبیعت عطا فرمائی تھی۔ کسی کی محرومی کو دیکھ کر آپؒ خود بھی دکھی ہوجایا کرتے تھے اور حتی المقدور آپؒ کی کوشش ہوا کرتی تھی کہ محروم اور معذور شخص کی کسی نہ کسی اعتبار سے مدد کی جائے۔ ایک مرتبہ مال روڈ پر ایک چھوٹا بچہ قدرتی مناظر کی تصاویر فروخت کر رہا تھا‘ آپؒ نے اس سے پوچھا کہ بیٹے! تمہارے ابو کہاں ہیں؟ بچے نے جواب دیاکہ وہ فوت ہوگئے ہیں۔ جواب سنتے ہی آپؒ کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ ایک مرتبہ آپؒ نے ایک عجیب بات کہی کہ اگرچہ والدہ کا مقام والد سے بہت زیادہ ہے لیکن والد کی محرومی والدہ کی محرومی سے بڑی ہے۔ آپؒ نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ والدہ کی جدائی کی وجہ سے انسان گھریلو سطح پر محبت اور شفقت سے ـمحروم ہوتا ہے لیکن والد کی جدائی سے انسان معاشرے کے جبر وشقاوّت کا نشانہ بن جاتا ہے۔ باپ انسان کو زندگی کے نشیب وفراز اور اونچ نیچ کے اثرات بد سے بچاتا ہے ۔ میں نے خود بھی اس حقیقت کا مشاہدہ کیا کہ ماں کی کمی انسان کو بہت زیادہ شدت سے محسوس ہوتی ہے لیکن باپ کی جدائی کی وجہ سے انسان کو معاشرتی سطح پر بہت سی محرومیوں اور حق تلفیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
باباشہیدؒ کوبچپن سے ہی گھڑ سواری کا بہت زیادہ شوق تھا۔ اس کااعادہ آپ نے اپنی جوانی میں بھی کیا۔ آپ نے پولو گراؤنڈ سے متصل اصطبل میں پرورش کی غرض سے چار گھوڑے رکھے ہوئے تھے۔ میرا سکول گھر سے کچھ فاصلے پر واقع تھا ۔ آپ اکثر سکول ہمیںخود چھوڑنے جایا کرتے تھے اورسکول چھوڑنے سے قبل ہمیں رائیڈنگ سکول میں آدھ پونا گھنٹہ گھڑسواری کراتے تھے۔میں کئی مرتبہ گھوڑے سے گرنے کے خوف سے گھوڑے کو آہستہ چلاتا تو آپ ؒ گھوڑے کو ہلکاسا چابک لگاتے اور مجھے کھل کر گھوڑا بھگانے کو کہتے ۔
آپ زندگی کے ہر چیلنج کا کھل کر مقابلہ کرنے کے قائل تھے اور اس حوالے سے خطرات اور مشکلات کی پروا کرنے والے نہیں تھے۔ آپ نے جس چیز کو سچ سمجھا اس کا برملا اظہار کیا۔ اس سلسلے میں آپ کسی خوف اور مصلحت کا شکار نہ ہوئے۔ آپ اپنی جرأت اور بے باکی کی وجہ سے ہر عہد کے حکمرانوں کے انتقام اور جبر کا نشانہ بنے۔ آپ نے مقدمات جھیلے اور قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن آپؒ کے استقلال اور استقامت میں کسی قسم کی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی یہاں تک کہ آپ کی شخصیت ،نظریات اور افکار سے مرعوب اورخوف زدہ لوگوں نے آپ کے خلاف ایک سازش تیار کی اور آپؒ سیرت النبی ﷺ کے جلسے میں خطاب کے دوران بم دھماکے کا نشانہ بنے ۔
آپؒ جرأت او ربہادری کے ساتھ زندہ رہے اور شہادت کی خلعت فاخرہ کو زیب تن کرکے دنیا سے رخصت ہوئے اور قیامت کے دن تک بقیع کے قبرستان میں ہزاروں صحابہ ؓکے قدموں میں محو خواب ہوگئے۔ آپ ؒنے اپنے کردار کے ذریعے شاعر کے اس سخن کو سچ کر دکھایا:
جس دھج سے کوئی کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں