جب بھی حکمرانوں کے حوالے سے بدعنوانی اور بے راہ روی کی بات سننے کو ملتی ہے تو حساس انسان دکھ اور کرب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ہر محب وطن انسان اس بات کی تمنا رکھتا ہے کہ ملک کے حکمران ملک کے بہی خواہ اور عوام الناس سے ہمددری رکھنے والے ہوں۔ حکمرانوں کی لالچ، غودغرضی اور لوٹ کھسوٹ کاسن کر عوام بے چینی اور اضطراب کا شکار ہو جاتے ہیں اورلوگوں کے ذہنوں میں قوم کے مستقبل کے حوالے سے مختلف طرح کے خدشات جنم لینا شروع ہو جاتے ہیں۔عوام تشویش میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ نجانے ہم کب تک حکمرانوں کی انانیت، خود غرضی ، مفادات اور کرپشن کا نشانہ بنے رہیں گے۔ مثالی حکمران کے حوالے سے لوگ اکثر نیک خواہشات اور تمناؤں کا اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالنے کے بعد اکثر ناامیدی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ مثالی حکمران کس طرح کا ہونا چاہیے اور حکمرانوں کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اس حوالے قرآن مجید نے ہماری نہایت احسن انداز میں رہنمائی فرمائی ہے۔ جب قرآن مجید کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو صحیح معنوں میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہمیں کس قسم کے حکمرانوں کو چننا چاہیے۔ مثالی حکمران کے چناؤ کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ میں حضرت شموئیل علیہ السلام کے واقعہ کو بیان کیا کہ بنی اسرائیل کے لوگ ان کے پاس آئے اور ان کی خدمت میں عرض کی کہ ہمیں ایک ایسے حاکم کی ضرورت ہے کہ جس کی قیادت میں ہم اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں جہاد کر سکیں۔ حضرت شموئیل علیہ السلام نے ان کو کہا کہ اللہ نے تمہارے لیے حضرت طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے۔ بنی اسرائیل کے لوگ اس تقرری پر بہت حیران ہوئے اس لیے کہ طالوت صاحب مال نہیں تھے انہوں نے اپنی ذہنی کیفیت کا ذکر حضرت شموئیل علیہ السلام سے کیا۔ تو حضرت شموئیل علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے طالوت کو تمہارے پر منتخب کیا ہے اور ان کو علم اور جسم میں کشادگی دی ہے۔قرآن مجید میں مذکور یہ واقعہ اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ حکمران اگر صاحب علم وطاقت ہو تو وہ قوم کی بہترین رہنمائی کر سکتا ہے۔
مالی اعتبار سے گو حکمران غیر مستحکم ہی کیوں نہ ہو اس کے پاس علم، دانش اور قوت نافذہ ضروری ہونی چاہیے۔ علم کی روشنی میں وہ مسائل کا درست تجزیہ کر سکتا ہے اور طاقت کے ذریعے صحیح اور درست قوانین کو معاشرے میں نافذ کر سکتا ہے۔ حضرت طالوت کا یہ واقعہ حکمرانوں کے چناؤ کے حوالے سے اہل اسلام کی احسن انداز میں رہنمائی کرتا ہے۔قرآن مجید کا مطالعہ اس حقیقت کو بھی واضح کرتا ہے کہ حکمرانوں کی ترجیحات کیا ہونی چاہئیں۔ اگر حکمرانوں کی ترجیحات درست ہو جائیں تو ریاست کے تمام معاملات کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں جن عظیم حکمرانوں کا ذکر کیا ان کی ترجیحات کیا تھیں؟ اس حوالے قرآن مجید میں مذکور واقعات سے بہترین انداز میں رہنمائی حاصل ہو سکتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی غیر معمولی حکومت کا ذکر کیا۔ اپنی بادشاہت کے دوران حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید اور اس کی بندگی کے حوالے سے انتہائی حساس رہے اور جب کبھی آپ کو اطلاع ملتی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کے ساتھ شرک ہو رہا ہے تو آپ بے قرار ہو جاتے ۔ چنانچہ سباء کی بستی کے لوگ جو کہ سورج کی پوجا کرنے والے تھے آپ نے ان کی حکمران ملکہ سباء کو دلائل کے ذریعے توحید باری تعالیٰ کی دعوت دی اور ملکہ سباء نے آپ کی تبلیغ سے متاثر ہو اسلامی تعلیمات کو قبول کر لیا۔
گویا کہ حکمرانوں کی ترجیحات میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی اور اس کی توحید کی نشرواشاعت کو بنیادی اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔حکمرانوں کی ذمہ داریوں میں جہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید اور اس کے دین کی ا شاعت شامل ہے وہیں پر لوگوں کے درمیان حق اور سچ کے ساتھ فیصلہ کرنا بھی حکمرانوں کی ترجیحات میں سے ایک اہم ترجیح ہونی چاہیے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ ص میں حضرت داؤد علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا کہ ان کے پاس دو فریق اپنے مقدمے کو لے کر آئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس موقع پر حضرت داؤد علیہ السلام پر وحی کو نازل فرمایا کہ میں نے زمین پر آپ کو خلیفہ بنایا ہے آپ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کریں۔
انصاف اور عدل کے ساتھ فیصلہ کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کی معیشت کو سنورانا بھی حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ میں اس حوالے سے زبردست رہنمائی موجود ہے۔ بادشاہ وقت کے خواب کو سننے کے بعد جب آپ اس حقیقت کو بھانپ گئے کہ خوشحالی کے سات سال کے بعد قحط کے سات سال آئیں گے تو آپ نے بطور وزیرخزانہ خوشحالی اور پیداوار کے سات سال میں غلے کی اس ا نداز میں تنظیم کی کہ جب عالمگیر قحط نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لیا تو جہاں پر آپ نے اپنی تدبیر کے ذریعے اہل مصر کے لیے خوراک کا بھرپور انداز میں بندوبست کیا وہیں پر دنیا بھر کے قحط زدہ لوگ بھی اپنی بھوک کا مداوہ کرنے کے لیے مصر کا رخ کرتے رہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن تدبیر نے مصر کے لوگوں کو بدحالی سے محفوظ کرلیا۔
حکمرانوں کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری زمین پر فساد پھیلانے والوں کا قلع قمع کرنا بھی ہے۔ چنانچہ حضرت ذوالقرنین کے واقعہ میں اس بات کا سبق موجود ہے کہ جب یاجوج وماجوج زمین پر فساد کو پھیلا رہے تھے تو حضرت ذوالقرنین نے ان کے فساد کو روکنے کے لیے پہاڑوں کے درمیان کھلے حصے کو لوہے کی چادروں سے پُر کرکے اس میں پگھلے ہوئے تابنے کو ڈلواکر یا جوج وماجوج اور بستی والوں کے درمیان ایک مضبوط دیوار کو کھڑا کر دیا۔ اس دیوارکے قائم ہونے کے بعدیاجوج وماجوج بستی والوں کو نقصان پہنچانے سے قاصر ہو گئے۔
مثالی حکمرانوں کے اوصاف میں سے ایک اہم وصف یہ بھی ہے کہ وہ ریاست کی بقاء اور دفاع کے لیے تو اپنی توانائیوں کو بھرپور انداز میں صرف کرتے ہیں لیکن ذاتی حیثیت میںکسی کو انتقام کا نشانہ نہیں بناتے۔ چنانچہ حضرت یوسف علیہ السلام کے باب میں یہ بات بڑی وضاحت کے ساتھ سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب انہیں اقتدار عطا فرمایا اور ان کے سوتیلے بھائی ان کے سامنے مجرم کی حیثیت سے بے بس کھڑے تھے تو آپ نے انتقام لینے کی بجائے ان کی خطاؤں کو معاف کر دیا۔ جہاں پر قرآن مجید میں اِن مثالی حکمران کا ذکر موجود ہے وہیں پر سیرت طیبہ ﷺسے بھی اس بات کو وضاحت ملتی ہے کہ مثالی حکمران کا ایک بڑا وصف یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنی ہمت اورتوانائیوں کو صرف کرتا ہے۔ چنانچہ نبی کریمﷺ کئی مرتبہ رات کے پچھلے پہر تنِ تنہا مدینہ کی سرحدوں کے دفاع فریضہ انجام دیا کرتے تھے۔ نبی کریم ﷺ اور خلفا راشدین کے کردارسے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ مثالی حکمران کو سادہ زندگی بسر کرنی چاہیے اور رعایا کو ان تک پہنچنے کی سہولت میسر ہونی چاہیے تاکہ جو شخص مصیبت یا مشکل کا شکار ہو حکمران اور اس کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو سکے۔ جب ہم اپنے حکمرانوں کے طرز عمل پر غور کرتے ہیں تو ہمیں ان کی ترجیحات یکسر جدا نظر آتی ہیں۔ وہ سرحدوں کا دفاع کرنے کی بجائے اپنے مفادات کا دفاع کرتے ہوئے اور ریاست کی معیشت کو سنوارنے کی بجائے اپنی تجوریاں بھرتے ہوئے اور جاگیرکو سنوارتے ہوئے نظر آتے ہیں اور علم اور قوت کا منبع ہونے کی بجائے لالچ اور ہوس کا پیکر نظر آتے ہیں۔ جب ہم قرآن وسنت کی تعلیمات سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے صحیح معنوں میں مثالی حکمرانوں کو چنیں گے تو اللہ کے فضل وکرم سے ہمارے تمام کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی مثالی حکمران عطا فرمائے۔ آمین۔