ایک مثالی اور پُرامن معاشرے کے قیام کے لیے معاشرے میں تحمل اور برداشت کا فروغ انتہائی ضروری ہے۔ تحمل اور برداشت کی بدولت معاشرے میں مختلف نظریات، افکار اور مذاہب کے پیروکار اپنی اپنی سوچ اور فکر کے مطابق آزادانہ زندگی گزار سکتے ہیں۔ بعض لوگ متشدد اور انتہا پسندانہ سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ نظریاتی یا ذاتی اختلاف کی وجہ سے دوسرے انسانوں کی توہین کرنے کو معمولی عمل جانتے ہیں۔ اس قسم کے عناصر کو ضابطہء اخلاق کا پابند بنانے کے لیے مشرق و مغرب میں ہتکِ عزت کے قوانین پر اتفاق کیا گیا ہے۔ اگر کوئی شخص بلاوجہ، محض ضد اور تعصب کی بنیاد پر دوسرے انسان پر جھوٹا الزام لگاتا ہے یا بلا سبب اس کی پگڑی اچھالنے کی کوشش کرتا ہے تو ایسا شخص ہتک عزت کے قوانین کی زدّ میں آ جاتا ہے۔ اسی طرح معاشرے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اثرورسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے توہینِ عدالت کے قوانین موجود ہیں۔ جو شخص بھی ان قوانین کو پامال کرتا ہے اس کو توہینِ عدالت سے متعلق قوانین کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
معاشروں میں امن و آشتی برقرار رکھنے کے لیے جہاں ہتک عزت اور توہین عدالت کے قوانین اہم ہیں‘ وہیں پر ان سے کہیں بڑھ کر انبیاء علیہم السلام کے احترام اور عزت کا تحفظ بھی انتہائی ضروری ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی توہین کا ارتکاب کرنے والے لوگ اخلاقی اور انسانی اقدار کو پامال کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام کی ساری جماعت ہی قابل احترام ہے لیکن نبی کریمﷺ ان میں سے بھی نہایت ممتاز اور بلند مقام کے حامل ہیں۔ آپﷺ کی حرمت کو پامال کرنے والے لوگ معاشرے میں فساد، انتشار اور خلفشار پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگ بقائے باہمی اور رواداری کے راستے کو چھوڑ چکے ہیں۔ یہ لوگ معاشرے میں محبت کی خوشبو پھیلانے کے بجائے نفرتوں کی بیج بونا چاہتے ہیں۔ جس طرح بہکے ہوئے لوگوں کو ضابطہء اخلاق کا پابند بنانے کے لیے ہتکِ عزت اور توہینِ عدالت کے قوانین ضروری ہیں‘ اسی طرح بد اخلاق، بد طینت، شیطان صفت انسانوں کے احتساب کے لیے توہین رسالتﷺ سے متعلق قوانین بھی انتہائی ضروری ہیں۔ شریعت اسلامیہ میں انبیا علیہم السلام اور نبی کریمﷺ کی توہین کرنے والے شخص کے لیے سزائے موت کا قانون مقرر کیا گیا ہے۔ جو شخص بھی نبی کریمﷺ کی توہین کا ارتکاب کرتا ہے‘ اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ اس کی زندگی لوگو ںکے جذبات مشتعل کرنے، نفرت کو ہوا دینے اور کشیدگی بڑھانے کا سبب بن سکتی ہے؛ چنانچہ معاشرے کو اس قسم کے منفی عناصر سے پاک کرنا انتہائی ضروری ہے۔ خوش نصیبی سے ہمارا ملک ایک اسلامی جمہوری ملک ہے اور اس میں نبیء آخرالزماں حضرت محمدﷺ کی عزت اور ناموس کے تحفظ کے لیے 295-C کا قانون موجود ہے۔
اس قانون کے حوالے سے ملک میں موجود بعض این جی اوز اور لبرل طبقات گاہے بگاہے تحفظات کا اظہار کرتے رہتے ہیں‘ اور ماضی میں اس قانون کو بدلنے کے لیے کئی مرتبہ کوششیں بھی ہو چکی ہیں‘ لیکن خیرالبشر کے جان نثار اور شمع رسالتﷺ کے پروانے ہمیشہ اس قانون کے تحفظ کے لیے میدانِ عمل میں اتر آتے ہیں۔ ماضی قریب میں ہمارے ملک میں بعض ناعاقبت اندیش عناصر نے نبی کریمﷺ کی حرمت پر حملے کیے اور آپﷺ کی عزت اور وقار کو مجروح کرنے کے لیے فیس بک پر مستقل پیجز بنائے رکھے۔ بدقسمتی سے یہ عناصر کیفرِ کردار تک نہ پہنچ سکے اور ثقہ اطلاعات کے مطابق ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اس قانون میں ترمیم کروانے کے لیے ایک نمایاں سیاسی جماعت کی رکن قومی اسمبلی نے بھی ترمیمی بل پیش کرنے کی کوششیں شروع کر رکھی ہیں۔ فیس بک پر بننے والے پیجز کے خلاف جہاں ملک بھر کی دینی جماعتوں نے نمایاں کردار ادا کیا وہیں پر ہماری تنظیم نے بھی اس حوالے سے اپنی بساط کے مطابق کوششیں کیں اور لارنس روڈ پر ایک بہت بڑے احتجاجی پروگرام کے ذریعے حرمت رسولﷺ کے آئینی، اخلاقی اور سیاسی پہلوؤں کو عوام کے سامنے رکھا۔ توہین رسالتﷺ سے متعلق قانون میں ترمیم کے لیے کی جانے والی تازہ ترین کوششوں کا علمی اور عوامی سطح پر مقابلہ کرنے کے لیے میں نے ایک مرتبہ پھر اپنے رفقاء کے ہمراہ لارنس روڈ پر بخاری شریف کی تکمیل کے موقع پر حرمت رسولﷺ کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس کانفرنس میں امیر جمعیت مفتی عبیداللہ عفیف اور میرے چھوٹے بھائی حافظ ہشام الٰہی ظہیر کے ساتھ ساتھ جمعیت اہل حدیث کے مرکزی رہنما حافظ طارق محمود یزدانی، قاری صبغت اللہ احسن، مولانا عبدالرحیم کلیم، مولانا نعیم الرحمن، حافظ عبداللہ ساجد شیخوپوری اور ان کے ساتھ ساتھ نوجوان رہنما حافظ ذاکرالرحمن صدیقی نے شرکت کی۔ جامع علامہ احسان الٰہی ظہیر کے شیخ الحدیث مولانا ارشد حقانی بھی تقریب میں موجود تھے۔ میری تنظیم کے ان رہنماؤں کے علاوہ کانفرنس میں جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق اور ان کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما امیرالعظیم اور جماعۃ الدعوۃ کے مرکزی رہنما قاری یعقوب شیخ نے بھی شرکت کی۔ کانفرنس میں تمام مقررین نے نبی کریمﷺ سے اپنے اپنے انداز میں محبت و عقیدت اور والہانہ وابستگی کا بھرپور انداز میں اظہار کیا۔
اس موقع پر میں نے بھی عوام الناس کے سامنے ان جذبات کا اظہار کیا کہ جب ہم اپنے والدین، اعزا و اقارب اور اپنی ذات پر ہونے والی تنقید و تنقیص کو کسی بھی طور پر قبول نہیں کرتے تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ امامِ کائنات اور فخرِ موجودات نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس پر ہونے والے حملوں پر ہم خاموش رہیں۔ ہم علم، استدلال اور اجتماعات کے انعقاد کے ذریعے حکمرانوں کو اس امر کا احساس دلائیں گے کہ انہیں حرمت رسولﷺ کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا ہوں گی۔ جماعۃ الدعوۃ کے قاری یعقوب شیخ نے حجیت حدیث کے حوالے سے بڑے احسن انداز میں گفتگو کی اور اس موقع پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ حرمت رسولﷺ سے متعلق قانون میں ہونے والی ترمیم کی کسی بھی کوشش کو کسی بھی طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔ برادر امیرالعظیم نے بھی اپنے جذبات کا اظہار بڑے جچے تلے انداز میں کیا۔ تقریب سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے بھی بہت ہی موثر اور دلنشیں انداز میں حرمتِ رسولﷺ کے مقدمے کو اجاگر کیا۔ سینیٹر سراج الحق نے اس موقع پر جہاں حرمتِ رسولﷺ کی اہمیت کو اجاگر کیا‘ وہیں پر اس بات کا بھی ذکر کیا کہ ملک میں نمایاں عہدوں پر فائز ہو جانا یا کسی جماعت کا امیر ہونا حقیقی کامیابی نہیں بلکہ حقیقی کامیابی نبی کریمﷺ کا باعمل امتی ہونے میں ہے‘ کل قیامت کے دن جو شخص نبی کریمﷺ کی تعلیمات پر صحیح معنوں میں عمل کرنے والا ہو گا‘ وہی حقیقی معنوں میں کامیاب و کامران ہو گا۔
سینیٹر سراج الحق نے اس موقع پر اس امر کا بھی اظہار کیا کہ یہ ملک ''لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ‘‘ کے نام پر حاصل کیا گیا تھا‘ لیکن یہ دکھ کی بات ہے کہ طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود تاحال ملک میں حقیقی معنوں میں اسلام نافذ نہیں ہو سکا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید اور نبیﷺ کی تعلیمات ہمارے پاس بغیر کسی ترمیم کے موجود ہیں لیکن یہ مقامِ افسوس ہے کہ پاکستان میں تاحال اللہ تعالیٰ کی کتاب اور نبی کریمﷺ کی تعلیمات کو عملی طور پر نافذ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے حقیقی معنوں میں نظام مصطفیﷺ کے ملک میں نافذ نہ ہونے کے حوالے سے جہاں پر سیکولر جماعتوں کے عزائم اور منصوبوں کو تنقید کا نشانہ بنایا‘ وہیں اس نکتے کو بھی اجاگر کیا کہ نظام مصطفیﷺ اور حرمتِ رسولﷺ کی پاسداری کا دعویٰ کرنے والی کئی دینی جماعتیں اپنے جداگانہ تشخص کو اتحادِ امت سے زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر نظام مصطفیﷺ اور حرمت رسولﷺ کے لیے کام کرنے والی جماعتیں ایک پیج پر آجائیں اور اور اتحادِ امت کے جذبات سے سرشار ہو کر امت کی قیادت کا فریضہ انجام دینے کے لیے اپنی نیت کی اصلاح کر لیں تو یقینا ملک میں حرمت رسولﷺ کو بھی تحفظ حاصل ہو سکتا ہے اور نظام مصطفیﷺ کی عمل داری کو بھی یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
حرمت رسولﷺ اور بخاری شریف کی تکمیل کی اس تقریب میں بڑی تعداد میں عوام الناس نے شرکت کی اور علماء کے ولولہ انگیز خطابات پر بھرپور جذبات کا اظہار کیا۔ اس موقع پر 14 طلباء نے سند فراغت حاصل کی اور اپنی زندگی کو خدمتِ دین کے لیے وقف کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ حـرمت رسولﷺ اور تکمیل بخاری شریف کی تقریب مغرب کے وقت شروع ہوئی اور رات ڈھائی بجے تک جاری رہی۔ یہ تقریب بہت سی خوبصورت یادوں کو اپنی جلو میں لیے ہوئے اختتام پذیر ہوئی۔ یقینا اس تقریب کی یادیں تادیر سامعین کے دلوں کو گرماتی رہیں گی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو نبی کریمﷺ سے محبت کرنے والا اور آپﷺ کی حرمت کے تحفظ کے لیے کام کرنے والا بنائے۔ آمین!