سفرِعشق …(1)

فضا ایسی کہ سانس تھم جائے‘ خاک ایسی کہ سجدہ ریز ہوئے بنا رہا نہ جائے‘ منظر ایسا کہ آنکھیں پتھرا جائیں‘ ہوا ایسی جیسے چار سوکھلے گلابوں کی مہک۔ کہاں ہزاروں میل دور سوتے جاگتے خواب‘ کہاں شوقِ دید کی آخری ہچکی۔ جہاز قطر سے اڑان بھر کر عراق کی حدود میں داخل ہوا تو پندرہ سال پرانی خواہش دل سے نکل کر لبوں پر آ گئی۔ نجف علم کا باغ ہے خدا جانے دیکھنا نصیب ہو گا یا نہیں؟ کربلا عشق کا سفر ہے‘ نہیں معلوم کبھی میرے قدم بھی اس طرف ا ٹھیں گے یا یہ حسرت حسرتِ ناتمام ہی رہے گی۔
تین سال قبل نقشِ جنوں پر قبولیت کی مہر ثبت ہوئی اور صدیوں سے غمِ حسینؓ میں گریہ کرتی دھرتی کی طرف رختِ سفر باندھا۔ ہر لمحے دلی کیفیت بدل رہی تھی‘ بالکل ویسے جیسے آنسوؤں میں ڈوبی ہچکیوں کا ردھم اوپر نیچے ہوتا ہے۔ کون جانے غم زیادہ تھا یا ملاقات کے لیے بے تاب تمنا‘ جو بھی تھا وہ دن‘ روزانہ جیسا نہ تھا۔ جہاز نجف شریف کے ایئر پورٹ پر اترا تو یوں لگا جیسے کوئی برسوں بعد اپنے گھر لوٹا ہو۔ دل بے قابو تھا مکمل بے قابو۔ پھر وہ وقت آیا جب ایئر پورٹ سے نکل کر میں اور میرے تین ساتھی کربلا کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ اسّی کلومیٹر کی مسافت تھی۔ راستے میں مجھے وہ دن یاد آنے لگا جب پہلی بار قصۂ کربلا پڑھ کر میرے اندر کہرام برپا ہوا تھا۔ میٹرک کے بعد کالج کی دہلیز پار کی تو میرے دل کی دیوار کے اس پار بیٹھا شاعر بھی سینہ کوبی کرتا باہر آ گیا۔ پھر میں تھا اور کتب بینی کی نشے کی طرح بڑھتی خواہش۔ ایک کے بعد ایک شاعرکو پڑھنے کی جلدی۔ جس شاعر کو بھی پڑھا اسے غمِ حسینؓ کے حصار میں قید پایا۔ اب جیسے جیسے کربلا قریب آ رہا تھا مجھے وہ سارے شعر ایک ایک کر کے یاد آنے لگے جن کے باعث میرے اندر خاندانِ اہلِ بیت کی چوکھٹ پر حاضری کی آرزو بے قابو ہوئی تھی۔ 
موج دریا کے لبوں پر تشنگی ہے کربلا
ریگِ ساحل پر تڑپتی زندگی ہے کربلا
(نزہت عباسی)
اللہ! کیا جگر تھا جفا میں حسینؓ کا 
جی ہی گیا ندانِ رضا میں حسینؓ کا
اس تشنہ لب کا عرش سے برتر ہے مرتبہ
خوں تھا سبیل راہِ خدا میں حسینؓ کا 
(میر تقی میر)
اے قوم! وہی پھر ہے تباہی کا زمانہ
اسلام ہے پھر تیرِ حوادث کا نشانہ
کیوں چپ ہے؟ اسی شان سے پھر چھیڑ ترانہ
تاریخ میں رہ جائے گا مردوں کا فسانہ
مٹتے ہوئے اسلام کا نام جلی ہو
لازم ہے کہ ہر شخص حسینؓ ابن علیؓ ہو
(جوش ملیح آبادی)
ڈوب کر پار اتر گیا اسلام 
آپ کیا جانیں کربلا کیا ہے 
(یگانہ چنگیزی)
موسیٰؑ و فرعون و شبیرؓ و یزید 
ایں دو قوت از حیات آید پدید
زندہ حق از قوتِ شبیری است 
باطل آخر داغِ حسرت میری است
تا قیامت قطع استبداد کرد
موج خون او چمن ایجاد کرد
خون او تفسیر ایں را کرد
ملت خوابیدہ را بیدار کرد
ماسوی اللہ را مسلمان بندہ نیست
پیش فرعونے سرش افکندہ نیست
(علامہ اقبال)
(موسیٰؑ اور فرعون، شبیرؓ اور یزید،یہ دونوں قوتیں زندگی ہی سے ابھرتی ہیں۔حق، قوت ِ شبیری سے زندہ ہے اور باطل کا انجام مرگ حسرتناک ہے۔ سیدنا حسینؓ نے اپنا سر دے کر قیامت تک کے لئے جبرواستبداد کا خاتمہ کردیا اور آپؓ کے پاکیزہ خون نے ایک گلستان آباد کردیا۔ان کے خون نے ایک خوابیدہ ملت کو نئی گرمی اور بیداری عطا کی۔ مسلمان اللہ کے علاوہ کسی کا غلام نہیں بن سکتا اور کسی فرعون کے سامنے اس کا سر نہیں جھک سکتا )
وراثتوں میں تری‘ تیرا خانوادہ بھی تھا
میں جان سکتا ہوں اے شافعِ امم ترا غم
اچھال دیتا جو پہلے فراتِ وقت ہمیں
سنبھالتے تری مشکیں، ترا علم‘ ترا غم 
(احسان اکبر)
عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں
پانچویں پشت ہے شبیرؓ کی مداحی میں
(میر انیس)
سلام ان پہ تہہِ تیغ بھی جنہوں نے کہا
جو تیرا حکم‘ جو تیری رضا‘ جو تو چاہے 
(مجید امجد)
ہمارا سلسلہ طائف سے نینوا تک ہے 
وہ کربلائے محمدﷺ یہ کربلائے حسینؓ 
انہیں بتانا کہ عباس نام ہے میرا 
مزید پوچھیں تو کہنا وہی گدائے حسینؓ
(عباس تابش)
فراتِ وقت رواں! دیکھ سوئے مقتل دیکھ
جو سر بلند ہے اب بھی وہ سر حسینؓ کا ہے 
(افتخار عارف)
میری شہ رگ کا لہو، نذرِ شہیدانِ وفا
میرے جذبوں کی عقیدت کربلا والوں کے نام 
(محسن نقوی)
اے کربلا کی خاک اِس احسان کو نہ بھول 
تڑپی ہے تجھ پہ لاشِ جگر گوشۂ بتولؓ
اسلام کے لہو سے تری پیاس بجھ گئی 
سیراب کر گیا تجھے خونِ رگِ رسولﷺ
(ظفر علی خان)
ابھی دشتِ کربلا میں ہے بلند یہ ترانہ 
یہی زندگی حقیقت‘ یہی زندگی فسانہ 
(ماہر القادری)
ہوا کربلا میں جو قربان برقیؔ
حسینؓ ابن حیدرؓ کا وہ خانداں تھا
(برقی اعظمی)
بے مثال شعرا کی لہو میں رنگی شاعری وجہ تھی یا کربلا کی حدت۔ میں نے محسوس کیا میرے دل کی دھڑکن تیز ہو چکی تھی۔ اپنی کیفیت بھانپ کر خود کو سنبھالا تو نظر سامنے لگے بورڈ پر پڑی جہاں لکھا تھا ''کربلا میں خوش آمدید‘‘۔ اب اپنا آپ سنبھالنا اور مشکل ہو رہا تھا... (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں