آخر اس میں کیا برائی ہے؟

بدکلامی اور دشنام طرازی جبلت نہیں‘ انسانی خصلت ہے۔ جس انسان کو ایک بار یہ لت لگ جائے تو نشے کی طرح بڑھتی رہتی ہے اور پھر عمر بھر جان نہیں چھوڑتی۔ ستم در ستم یہ کہ بدزبانی کرنے والے کا احساسِ ندامت بھی ختم ہو جاتا ہے۔ وہ بہتان لگا کر خوش ہوتا ہے اور تضحیک کرکے فخر محسوس کرتا ہے۔ قانون کا ڈر نہ اداروں کا خوف۔ جو الزام لگا دیا، سو لگا دیا۔ کبھی کبھی تو قانون بھی اس الزام کی سیاہی کو نہیں دھو پاتا۔ انسان مر جاتا ہے مگر تہمت زندہ رہتی ہے۔ موت بھی اسے اس دروغ و بہتان سے خلاصی نہیں دے پاتی۔
آج کل سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔کوئی بھی‘ کسی کو بھی گالی دے سکتا ہے، تہمت لگا سکتا ہے‘ اس پر کیچڑ اچھال سکتا ہے اور اسے الزامات کی بھٹی میں جھونک سکتا ہے۔ کوئی روکنے والا ہے نہ ٹوکنے والا۔ گزرے چار‘ پانچ سالوں سے تو سوشل میڈیا پر اتنا زیادہ گند مچا ہوا کہ انسان دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے۔ خواتین کا لحاظ ہے نہ بچوں کا۔ بوڑھوں کی فکر نہ اساتذہ کا احترام۔ گالی دینے والے گالی دیتے ہیں‘ انہیں فکر ہی نہیں کہ یہ گالیاں‘ جو سوشل میڈیا پر 'پبلک‘ ہوتی ہیں‘ ان کے عزیز و اقارب حتیٰ کہ ماں‘ باپ اور بہن‘ بھائی بھی پڑھ سکتے ہیں۔ یوں گمان ہوتا ہے کہ جیسے آنکھ کی شرم بھی بینائی کی مانند کمزور ہو گئی ہے۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے تمام افراد اس بیماری کا شکار ہو رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر الزام تراشی اور بہتان تراشی کے کلچر میں اس وقت تیزی دیکھنے میں آئی جب چند روز قبل محترم وزیراعظم نے اپنی کابینہ کی کارکردگی کے حوالے سے رپورٹ جاری کی۔ وزیر مواصلات مراد سعید کی وزارت کو نمبر ون قرار دیا گیا تو سوشل میڈیا پر غلاظت کا انبار لگ گیا۔ ایسی ایسی اخلاق سے گری ہوئی گفتگو کی گئی کہ سننے والوں کا سر شرم سے جھک گیا۔ ٹویٹر پر وہ ٹرینڈز چلائے گئے کہ خدا کی پناہ! کون سے غیر اخلاقی اور غیر مہذب الفاظ تھے جو نہیں بولے گئے؟ کون سی تہمت تھی جو نہیں لگائی گئی؟ یہی نہیں! وزیراعظم صاحب کے قریبی افراد کے بارے جو رویہ اختیار کیا گیا وہ قابلِ اعتراض ہی نہیں قابلِ مذمت اور قابلِ گرفت بھی تھا۔ کون سے ملک کے شہری اپنی حکومت کے سربراہ کے بارے میں ایسی نازیبا گفتگو کرتے ہیں۔ بطور قوم ہمیں اس پر ضرور شرمسار ہونا چاہیے۔ اگر یہی سیاست ہے‘ اگر یہی جمہوریت کا حسن ہے تو پھر آمریت میں کیا عیب ہے؟ اگر ہمارے اجتماعی اخلاق کو گڑھے میں گرنا ہے تو پاتال ہی کیوں؟
سوال یہ ہے کہ ہم بطور قوم اس نہج کو پہنچے کیسے؟ کیا اس دلدل میں ہمیں ہمارے سیاسی اکابرین نے پھینکا ہے؟ کیا ہم اپنے سیاسی آقاؤں کی خوشنودی اور توجہ کے لیے اپنی زبانوں کو گندا کر رہے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو یہ نہایت شرم کی بات ہے۔ کیا عوام کی اپنی کوئی رائے نہیں؟ وہ کیوں سیاست دانوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں؟ حکومت کو بھی سوچنا ہوگا کہ سیاسی مخالفین کو سوشل میڈیا کے کیچڑ میں دھکیلتے دھکیلتے وہ خود تو اس کی زد میں نہیں آ گئی۔ ایک زمانہ تھا جب سوشل میڈیا شدت پسندو ں کے شر سے محفوظ تھا۔ پھر ملک میں پاناما سکینڈل منظر عام پر آیا۔ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ورکرز نے اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کے وہ لتے لیے کہ سارا ''جھاکا‘‘ اتر گیا۔ پھر ایک ایک کر کے ساری سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے سوشل میڈیا ونگز بنائے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے بے تحاشا وسائل جھونک دیے۔ ٹویٹر پر غلیظ ٹرینڈز چلانے سے لے کر غیر مہذب کمنٹس تک کا کلچر سیاست دانوں نے خود متعارف کرایا۔ حکومت نے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے خلاف ٹرینڈز چلوائے اور مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے خلاف ٹرینڈز کی پشت پناہی کی۔ اب اس حمام میں ساری سیاسی جماعتیں ایک جیسی ہیں۔ کوئی کسی ایک کو موردِ الزام ٹھہرا سکتا ہے نہ خود کو بری الذمہ قرار دے سکتا ہے۔
گزرے ایک ہفتے میں حکومت کے خلاف جو ٹرینڈز چلائے گئے ہیں اور مراد سعید کے بارے میں جو لغو گفتگو کی گئی ہے‘ وہ انتہائی قابلِ مذمت ہے مگر اس کے بعد حکومت نے جو رویہ اپنایا‘ کیا وہ درست تھا؟ کیا ریاست کے نمائندوں کو ایسا لب و لہجہ زیب دیتا ہے؟ حکومت نے بھی وہی کیا جس کا شکار وہ خود رہی تھی۔ اس کے حامیوں نے ایک خاتون اینکر کے خلاف ویسے ہی نامناسب اور غیر شائستہ ٹرینڈز چلائے۔ کیا مہذب معاشروں میںگالی کا جواب گالی سے دیا جا سکتا ہے؟ کیا ہمارا دین اور ہمارا کلچر ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے؟ اگر نہیں‘ تو پھر حکومتی حامیوں کا ردعمل اتنا جذباتی اور جارحانہ کیوں تھا؟ خاتون اینکر کے خلاف بھڑاس نکال کر بھی چین نہ آیا تو ایک صحافی پر ایف آئی اے نے دھاوا بول دیا۔ صبح سویرے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے اہلکار صحافی کے گھر میں گھس گئے اور بغیر کسی وارنٹ کے صحافی کو گرفتار کرنا چاہا جس پر دوسری جانب سے مزاحمت کی گئی۔ ضابطوں کی بھی پامالی کی گئی۔ دوسری طرف‘ صحافی نے بھی مزاحمت کر کے قانون کو پامال کیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ایف آئی اے اور پولیس نے قانون سے تجاوز کیا مگر کسی کو بھی اپنے رویے پر ندامت نہیں۔ جو ہوا سو ہوا‘ مگر اب سوال یہ ہے کہ جس جس نے بھی قانون کو توڑا ہے‘ کیا اسے سزا ملے گی یا نہیں؟ کیا کوئی بچ تو نہیں جائے گا؟ ماضی کے اوراق میں جھانکیں تو پتا چلتا ہے کہ ہمارے ہاں اس قسم کے مقدمات کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ملزمان کی ضمانتیں ہو جاتی ہیں اور بعد ازاں ایسے کیسز اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔ یقین کریں‘ ان معاملات میں ہم پتھر کے زمانے میں جی رہے ہیں۔ باقی ممالک تو کہیں کے کہیں نکل گئے۔ برطانیہ میں ایک شخص نے دوسرے پر ہیرا پھیری کا الزام لگایا۔ وہ عدالت چلا گیا۔کیس چلا اور الزام ثابت نہ ہونے پر عدالت نے الزام لگانے والے کو ایک لاکھ پونڈ جرمانہ کیا اور تین سال قید کی سزا الگ سے سنائی۔ چلیں انگلینڈ، امریکا اور یورپ کو چھوڑیں‘ وہ تو کسی الگ ہی دنیا کے خطے ہیں۔ ساؤتھ افریقہ میں ایک سیاسی ورکر نے ٹی وی پر آکر اپنے مخالف کی کردار کشی کی۔ وہ عدالت گیا اور کردار کشی کرنے والے کو دو برس کی سزا دلائی۔ یہ ہوتا ہے قانون! ایسے ہوتی ہے قانونی کی عملداری! کیا ہمارے ملک میں انصاف کا یہ معیار ممکن ہے؟
حکومت کو بھی سوچنا ہو گا کہ ہمارے رویوں میں اتنی شدت کیوں آ گئی ہے؟ عوام تو عوام‘ حکمران طبقات بھی جذبات کی بہتی گنگا میں ڈوبتے دکھائی دے رہے ہیں۔ تحمل، برداشت اور بردباری کمیاب ہوتی جا رہی ہے۔ کیوں؟ حکومت کو اس سوال کا جواب بھی ڈھونڈنا ہوگا کہ عوام حکومت سے بدظن کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟ وہ حکومت کے خلاف ٹرینڈز کا حصہ کیوں بنتے ہیں؟ کہیں عوام کو یہ رنج تو نہیں کہ حکومت معیشت کو سنبھال سکی نہ مہنگائی کو ہی لگام ڈال سکی؟ کہیں لوگ اپنے دل کا غبار سوشل میڈیا پر تو نہیں نکال رہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر حکومت کو اپنی معاشی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ ایسا نہ ہو کہ عوام سیاست دانوں سے متنفر ہو جائیں اور ان کے ذہنوں میں یہ سوال پنپنے لگے کہ جمہوریت بھی اگر دکھوں کا مداوا نہیں کر سکتی تو آمریت میں کیا برائی ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں