بادشاہ بننے کی جستجو کیوں ؟

قانونِ فطرت ہے کہ ہر پودا درخت بن سکتا نہ ہر شاخ پر پھول کھلتے ہیں ۔پانی کا ہرقطرہ سمندر ہوتاہے نہ ریت کاہر ذرہ صحرا۔انسانی خواہشیں لامحدو د ہوسکتی ہیں مگر آئین اور قانون کا دائرہ خواہشوں کے زیر اثر وسیع نہیں ہوتا۔ جب آپ اپنی حدود وقیود کا احترام نہیں کرتے اور چادردیکھ کر پاؤں نہیں پھیلاتے تونقصان آئندہ نسلوں کا ہوتا ہے ۔
میاں نواز شریف 1997ء میں دوسری بار وزیراعظم بنے ۔ وفاق کے علاوہ پنجاب ‘ خیبر پختونخوا(اُس وقت کا صوبہ سرحد) ‘ بلوچستان اور سندھ میں بھی ان کی حکومتیں قائم ہوئیں۔ یہ میاں صاحب کی مقبولیت کا عروج تھا ۔مگردوتہائی اکثریت نے میاں نواز شریف پر طاقت کا عجب خمار طاری کردیااور وہ خود کو پاکستان کے لیے ناگزیر سمجھنے لگے ۔وقت کے ساتھ ساتھ ان کی یہ کیفیت بڑھتی چلی گئی ۔کبھی ایک آئینی ادارے کے سربراہ کے ساتھ الجھ پڑتے اور کبھی دوسرے ادارے کے سربراہ سے مڈ بھیڑ ہوجاتی ۔ کبھی سندھ میں گورنر راج لگا دیتے اور کبھی بلوچستان میں اپنے اتحادی وزیراعلیٰ سے پنجہ آزمائی کرتے۔ واقفانِ ِحال کہتے ہیں کہ ان کے من میں ''امیر المومنین ‘‘بننے کا شوق پوری آب وتاب کے ساتھ مچل رہا تھا ۔ وہ آئینی ترمیم کے ذریعے اس خواب کی تکمیل چاہتے تھے مگر ایسا نہ ہو سکا ۔ ہاں البتہ ‘ ایک ترمیم انہوں نے ایسی کی جو امیرالمومنین بننے کی طرف ان کا پہلا قدم تھا ۔ آئین میں چودہویں ترمیم کے ذریعے ایسی شق(63اے) شامل کی گئی کہ کوئی بھی ایم این اے اپنی پارٹی کے خلاف کسی بھی موقع پر ووٹ نہیں دے گا ۔اگر کوئی ایسا کرے گا تو اسے ایم این اے شپ سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ بعدازاں ‘ پیپلزپارٹی ‘ جے یو آئی ایف اورمسلم لیگ( ن) نے مل کرآئین میں اٹھارہویں ترمیم کی اور اس شق کر تھوڑا نرم کر دیا۔ اصل کہانی یہ ہے کہ اس شق کے ذریعے میاں صاحب طاقت کے اوج ِ کمال کو پہنچنا چاہتے تھے ۔ ان کی آرزو تھی کہ وہ سیاہ کریں یا سفید ‘معیشت کو سہارا دیں یا ڈبوئیں‘مہنگائی کم کریں یا زیادہ‘ کرپشن بڑھے یا کنٹرول میں رہے ‘ انتظامیہ فعال ہویا غیر فعال ‘کسی ادارے کے سربراہ کو برطرف کریں یا تعینات‘بھارتی وزیراعظم سے کھلم کھلا ملیں یا خفیہ۔انہیں کوئی پوچھنے والا نہ ہو ۔ ان کے خلاف کوئی تحریکِ عدم اعتماد لاسکے نہ ان کے اقتدار کا سورج کبھی غروب ہو ۔
میاں نوازشریف تو اپنے عزائم میں کامیاب نہ ہوسکے مگر اب یوں گمان ہوتا ہے موجودہ وزیراعظم کے دل میں بھی یہی خواہش انگڑائی لے رہی ہے ۔وہ بھی اقتدار اور طاقت کی انتہا کو چھونا چاہتے ہیں ۔ اسی لیے توحکومتی قانونی ٹیم آئین کی شق 63 اے کی منطق سے عاری تشریح کررہی ہے ۔ حکومت کی پہلے کوشش تھی کہ منحرف ایم این ایز کے خلاف ریفرنس ووٹ دینے سے پہلے ہی سپیکر کو بھیج دیا جائے تاکہ انہیں ووٹ دینے سے روکا جا سکے اور اگر وہ ووٹ دے بھی دیں تو ان کا ووٹ شمار ہی نہ کیا جائے۔ نجانے پھر کس روشن دماغ نے حکومت کو ایسا کرنے سے روکا اور قانونی نقطہ سمجھایا کہ آئین کی رُوسے کسی بھی ممبر کوووٹ دینے سے روکا جاسکتا ہے نہ سپیکر ووٹ کو گنتی سے خارج کر سکتا ہے ۔ اس کے بعد حکومت نے سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس دائر کردیا اور 63 اے کی تشریح کے لیے عدالت سے چار سوال پوچھ لیے۔پہلاسوال: کیاآرٹیکل 63 اے کے تحت ارکان اسمبلی کو پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے سے روکا جاسکتا ہے ؟دوسراسوال : کیا منحرف ارکان کاووٹ گنتی میں شمار ہوگا یا نہیں ؟تیسرا سوال: پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والا رکن صادق اور امین رہے گا یا نہیں ؟اور کیا ایسے ارکان کی نااہلی تاحیات ہوگی ؟ چوتھا سوال : فلورکراسنگ یا ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کے لیے مزید اقدامات کیا ہو سکتے ہیں ؟اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان دنیانیوز کے پروگرام آن دی فرنٹ وِد کامران شاہد میںپہلے دونوں سوالات کے جوابات دے چکے ہیں ۔ انہوںنے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ ایم این اے کو ووٹ دینے سے روکا نہیں جاسکتا اور باغی ارکان کاووٹ شمار بھی ہونا چاہیے۔ صدارتی ریفرنس کی سماعت جاری ہے دیکھئے سپریم کورٹ باقی دونوں سوالوں پر کیا ایڈوائس کرتی ہے ۔
صدارتی ریفرنس سے قطع نظر تیسرے اور چوتھے سوال پر حکومت کی خواہش ناقابل ِ فہم ہے ۔ اس معاملے پر حکومت میاں نواز شریف سے بھی دو ہاتھ آگے نکل چکی ہے ۔ وہ ایسانظام چاہتی ہے جس میں وزیراعظم کے عہدے کا احتساب ممکن ہی نہ ہو ۔ حکومت کا بیانیہ ہے کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والے ارکان ِ اسمبلی کی نااہلی تاحیات ہو ۔ وہ دوبارہ الیکشن لڑسکیںنہ کسی جماعت کے عہدے دار بنیں ۔ آپ خود فیصلہ کریں کہ جب پارٹی پالیسی کے خلاف جانے والے کی سز ا اتنی کڑی ہوگی تو کون پارٹی کے خلاف جا کرووٹ دے گا ؟ میرے خیال میں تو کوئی بھی نہیں ۔ کوئی تو حکومت سے پوچھے کہ وہ کیوں وزارت عظمیٰ جیسے جمہوری عہدے کو بادشاہت کا پر تو بنانا چاہتے ہیں ۔ پاکستان میں ہر سرکاری اور غیر سرکاری عہدے دارکے احتساب کا طریقہ موجود ہے ۔ آئین نے وزیراعظم کا احتساب تحریک عدم اعتماد کے ذریعے رکھاہے ۔ جب حکومتی ارکان محسوس کریں کہ ان کا وزیراعظم عوامی امنگوں پر پورا نہیں اتر رہا تو وہ تحریک عدم اعتماد کا حصہ بن سکتے ہیں ۔ برطانیہ سمیت تمام جمہوری ممالک میں ایسے ہی ہوتا ہے اور اسے عیب نہیں سمجھا جاتا۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ حکومت ایسے ارکان کی تاحیات نااہلی کی آرزو مند ہے تو وزیراعظم کا احتساب کیسے ہوگا ؟ وزیراعظم بھلے ملک کی ناؤ کو ڈبو دیں ‘ معیشت کو پاتال میں پھینک دیں ‘ مہنگائی ‘ بے روزگاری اور بدانتظامی سے عوام کی چیخیں نکلوادیں ‘ بڑے شہر کوڑے دان بن جائیں اوردیہات جوہڑ ‘ خارجہ پالیسی کے ذریعے دوستوں کو ناراض اور دشمنوں کو خوش کریں‘کوئی وزیراعظم کے آگے چوں بھی نہ کرسکے گا۔ تحریک عدم اعتماد پر مخالف ووٹ دینا تو کجا۔ میرے نزدیک اگر آرٹیکل 63 اے میں سزا تاحیات نااہلی مقرر ہوتی ہے تو پھر حکومت کو آئین سے عدم اعتماد کی شق ہی نکال دینی چاہیے۔ ایسی شق کا کیا فائدہ جس پر کبھی عمل درآمد ہی نہ ہوسکے۔
وزیراعظم نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں عوام سے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمانوں کو اللہ حکم دیتا ہے تم نے بدی کے مقابلے میں اچھائی کے ساتھ کھڑے ہونا ہے ۔ اس سے معاشرہ زندہ رہتا ہے ۔اپوزیشن نے کھلے عام عوامی نمائندوں کے ضمیر کی قیمتیں لگائی ہیں اور انہیں خرید رہے ہیں ۔میں چاہتا ہوں کہ ساری قوم میرے جلسے میں آکر یہ پیغام دے کہ ہم برائی کے خلاف ہیں ۔آگے سے کسی کی جرأت نہیں ہونی چاہیے کہ اس طرح ہارس ٹریڈنگ کرکے جمہوریت کے خلاف سازش کرے۔ اس میں کیا شک ہے کہ ووٹ کی خریدوفروخت ایک مکروہ دھندہ ہے اگر حکومت کے پاس ایم این ایز کے خلاف ثبوت ہیں تو کارروائی کرنے میں دیر کیوں کی جارہی ہے ؟ بِکنے والے کی معافی کسی صورت نہیں ہونی چاہیے ۔ میرا قانونی فہم کہتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی شق ممبر کے اظہارِ رائے سے متعلق ہے‘ اس کو ہارس ٹریڈنگ سے نہیںجوڑنا چاہیے ۔ اگر حکومت ارکان کی خرید وفروخت بند کرنے میں سنجیدہ ہے تو پہلے اپوزیشن کے ان سینیٹرز کے نام سامنے لائے جنہوں نے پارٹی پالیسی سے ہٹ کر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ووٹ دیا تھا ۔ یہ دس سے پندرہ سینیٹر کون تھے جو اپنی پارٹیوںکے ساتھ دغا کرتے رہے ۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اگر حکومت ان سینیٹرز کو بے نقاب کرتی ہے تو حکومت کی نیک نامی میں اضافہ ہو گا اور عوام ان کے حالیہ بیانیے پر بھی آنکھیں بند کر کے یقین کرلیںگے ورنہ یہ بیانیہ بادشاہ بننے کی جستجو سے زیادہ کچھ نہیں لگتا ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں