عمران خان کی دانائی کا امتحان

خدا آنکھیں سب کو دیتا ہے مگر نظر کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ دماغ ہر کسی کے پاس ہوتا ہے مگر سمجھ سب کے پاس نہیں ہوتی۔ ابنِ خلدون کا قول ہے ''جیسے انسان بوڑھا ہو جائے تو جوانی لوٹ کر نہیں آتی‘ ویسے ہی دماغ دلیل، استدلال اور منطق کو ماننا چھوڑ دے تو عقل کی حکمرانی دوبارہ قائم نہیں ہوتی‘‘۔ ستم یہ نہیں کہ ہماری اشرافیہ منقسم ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ عوام بھی منقسم ہے۔ جھگڑا غلط اور صحیح کا ہے نہ سچ اور جھوٹ کا۔ تصادم روشنی اور اندھیرے کا ہے نہ آئین و قانون کا۔ ساری لڑائی اناؤں کی ہے اور اناؤں کی لڑائی میں نقصان صرف عوام کا ہوتا ہے۔ کاش! عوام جذبات کے پنگھوڑے سے اتر کر زمینی حقائق کا ادراک کر سکیں۔ کاش! انہیں احساس ہو کہ ہیرا کیچڑ میں گر جائے تو بھی رہتا ہیرا ہی ہے مگر گندا ضرور ہو جاتا ہے۔ عبدالحمید عدم یاد آتے ہیں:
عدم خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے
ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں
جب سے تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوئی ہے یوں گمان ہوتا ہے ہم نے بطور قوم سوچنا اور سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔ سیاستدان ہمارے لیے جو بیانیہ تشکیل دیتے ہیں‘ ہم اس پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتے ہیں۔ کوئی دلیل ہمیں قائل کرنے کے لیے کافی ہے نہ کوئی منطق۔ ہمیں آئین کی حکمرانی کا پاس ہے نہ عدلیہ کے فیصلوں کا احترام۔ ہم الیکشن کمیشن کی خودمختاری ماننے کے لیے تیار ہیں نہ پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ہر کسی کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور سب کی عزت اچھالنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ہماری اپنی کوئی رائے ہے نہ موقف۔ ہمارا کوئی اصول ہے نہ ضابطہ۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ امریکا ہمارا دشمن ہے اور ہم مان لیتے ہیں۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ دنیا ہماری خودمختاری کا احترام نہیں کرتی اور ہم ہاں میں ہاں ملانے لگتے ہیں۔ ہمیں ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ فلاں چور ہے اور فلاں غدار‘ مجال ہے کہ ہم ایک لمحے کے لیے بھی غور و فکر کرتے ہوں کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے۔ ہم فوراً چور اور غدار کے نعرے لگانے لگ جاتے ہیں۔ ہمیں اپنے سیاسی اکابرین کی خوشنودی اتنی عزیز ہو چکی ہے کہ ہم بدکلامی اور بدگمانی کو مسلسل پھیلائے جا رہے ہیں۔ ہم اپنے اداروں کے خلاف چلائے جانے والے گھٹیا اور نامناسب ٹرینڈز کا حصہ بننے میں بھی جھجک محسوس نہیں کرتے اور نہ ہی سیاسی مخالفین کی تضحیک کو عیب سمجھتے ہیں۔ یقین مانیں ہم پستی کی جانب گامزن ہیں اور اس کا احساس بھی نہیں۔
الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اپنے حصے کی شمع جلانے میں مگن ہیں مگر سوشل میڈیا کا اندھیرا بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ فیس بک اور ٹویٹر کا المیہ یہ ہے کہ وہاں ہرکوئی تجزیہ کار ہے اور اپنی رائے دوسروں پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔ کوئی اختلاف کرے تو اسے گالی دی جاتی ہے۔ کوئی اتفاق نہ کرے تو ملک دشمنی کا طعنہ مارا جاتا ہے۔ ہم ایسی قوم بنتے جا رہے ہیں جس کی کوئی سمت ہے نہ مقصد۔ ہمیں خلا کو تسخیر کرنے سے زیادہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی جستجو ستاتی رہتی ہے۔ ہم شدت پسندی کے ایسے حصار میں ہیں جہاں جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کیا جاتا ہے، غلط کو صحیح کا روپ دیا جاتا ہے اور برائی کو اچھائی میں بدلا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا ایسے تمام عناصر کو ایندھن فراہم کرتا ہے جو نفرت کا کاروبار کرتے ہیں، جو گالی کو اپنا حق سمجھتے ہیں، جو پروپیگنڈے کو ہتھیار مانتے ہیں اور جھوٹ کو سند کا درجہ دیتے ہیں۔ سابقہ حکومت کے ساتھ جو ہوا وہ انہونی ہرگز نہیں تھی۔ قدرت کا قانون ہے کہ آپ جو بوتے ہیں‘ وہی کاٹتے ہیں۔کیسے ممکن ہے کہ آپ درخت کیکر کا لگائیں اور توقع آموں کی کریں۔ فصل بانس کی اُگائیں اور خواہش کریں کہ گنا اُگ جائے گا۔ سیاست کا کھیل یک طرفہ راستے کی مانند ہوتا ہے آپ جس راہ سے گزر کر منزل تک پہنچتے ہیں‘ وہیں سے واپس بھی لوٹنا ہوتا ہے۔ تحریک انصاف میں الیکٹ ایبلز جس راستے سے آئے تھے‘ اسی راستے سے واپس پلٹ گئے تو اس میں اتنا واویلا کیوں مچایا جا رہا ہے؟ اتحادی جن کی شادمانی کے لیے آپ کے ہم قدم ہوئے تھے انہی کو خوش کرنے کے لیے پیچھے ہٹ گئے ہیں تو اس میں غصہ کرنے کی کیا بات ہے؟ دشنام طرازی کیوں ہو رہی ہے؟ عوام کو آپس میں کیوں لڑایا جا رہا ہے؟ کاش! کوئی تو ہو جو ان سوالوں کے جواب دے سکے اور چار سو لگی نفرت کی آگ کو ٹھنڈا کر سکے؟ پھر خیال آتا ہے کہ سیاست کے بازار میں حکمت اور دانائی ڈھونڈے سے بھی کہاں ملتی ہے۔
سابق وزیر اطلاعات فواد چودھری نے ایک ہی دن میں دو اہم بیانات دیے ہیں۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا ''لوگوں کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے۔ حکومتی نمائندے اپنے گھروں سے باہر بھی نہیں نکل سکتے۔ معاشرہ اس وقت سول وار کے دہانے پر کھڑا ہے۔ آج اگر گلی محلوں میں خون نہیں بہہ رہا ہے تو اس کی وجہ پی ٹی آئی کا صبر ہے۔ ہمیں دیوار سے لگایا گیا تو بہت نقصان ہوگا‘‘۔ اس پریس کانفرنس کے بعد انہوں نے ایک ٹی وی شو میں بیان دیا ''پی ٹی آئی اور مقتدرہ کے تعلقات خراب ہیں‘ اگر یہ تعلقات خراب نہ ہوتے تو ہم آج بھی حکومت میں ہوتے‘‘۔ ان دونوں بیانات کو ملا کر پڑھا جائے تو ساری کہانی سمجھ میں آ جاتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکی خط اور موجودہ حکومت کو سازش کا حصہ کہنا ایک سیاسی چال ہے‘ ورنہ عمران خان کو گلہ کسی اور سے ہے۔ سوال یہ ہے کہ سابق وزیراعظم کا شکوہ جائز ہے یا ناجائز؟ انہیں آئینی طریقے سے رخصت کیا گیا ہے یا غیر آئینی حربے استعمال کر کے گھر بھیجا گیا؟ پی ٹی آئی کی حکومت سے عوام خوش تھے یا ناخوش؟ ان کی معاشی پالیسی عوام کی زندگیوں میں خوشیاں لائی تھی یا دکھوں میں اضافے کا سبب بنی تھی؟ عمرا ن خان کی حکومت مہنگائی، بیروزگاری اور بدانتظامی کو قابو کر سکی تھی یا نہیں؟ عثمان بزدار کی کارکردگی سے پنجاب کے عوام مطمئن تھے یا نہیں؟ اگر ان تمام سوالوں کے جواب ہاں میں ہیں تو پھر یقینا عمران خان حکومت کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور اگر سارے جواب نفی میں ہیں تو پھر تحریک عدم اعتماد کو بلاجواز کیسے کہا جا سکتا ہے؟ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ وہ کون لوگ ہیں جن کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے اور سابق وزیر اطلاعات جنہیں مزید اشتعال دلا رہے ہیں۔ کیا ہمارے سابق حکمرانوں کو سول وار کا مطلب بھی آتا ہے؟ کیا انہیں ادراک ہے کہ لوگوں کو اکسانا کتنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے؟ میرے نزدیک یہ دنوں بیانات قابلِ مذمت ہیں۔ تحریک انصاف کو نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ امن ہم نے اسّی ہزار شہیدوں کی قربانی دے کر حاصل کیا ہے‘ اب ہم کسی بھی بدامنی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ انتشار کتنا بڑا روگ ہے‘ کوئی جائے اور عراق، شام، لیبیا، افغانستان اور یمن کی عوام سے پوچھے۔ سارے شوق دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اور ارادوں کے مینار زمیں بوس ہو جائیں گے۔
نجانے سیاستدان کیوں بھول جاتے ہیں کہ حکمرانوں کی پرفارمنس عوام کے چہروں سے جھلکتی ہے‘ اسے پروپیگنڈے کی ضرورت ہوتی ہے نہ غلط بیانی کی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات انتہائی دگرگوں ہیں اور اگر نفرت اور انتشار کی سیاست ختم نہ ہوئی تو ہمیں خاکم بدہن سری لنکا جیسے حالات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ خدارا! آنکھیں کھولیں اور ایک دوسرے کی چڑ میں اپنے گھر کو آتش کدہ مت بنائیں۔ یہ وقت کسی ایک سیاسی جماعت کی مقبولیت جانچنے کا نہیں بلکہ دانائی کو پرکھنے کا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ عمران خان اس امتحان میں پاس ہوتے ہیں یا فیل۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں