اَناکی قربانی کون دے گا؟

کہاوت ہے کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں نقصان ہمیشہ گھاس کا ہوتا ہے۔ اگر اس کہاوت کو ملک کے سیاسی منظر نامے پر منطبق کیا جائے تو حالات کی شدت بتا رہی ہے کہ لانگ مارچ کے اختتام پر عمران خان کا کچھ بگڑے گا نہ حکومتی اتحادیوں کا۔ جو نقصان ہو گا وہ عوام کے حصے میں آئے گا۔ عمران خان اس وقت ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں اور غالباً اسی بات کا انہیں زعم ہے اور ان کے مخالفین حکومت میں ہونے کی وجہ سے طاقتور ہیں اسی لیے وہ لچک دکھانے کو تیار نہیں۔ اناؤں کی بادشاہی میں سرکشی عام ہو رہی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ بحران شدت اختیار کر رہا ہے۔ عوام کے نظریات منقسم ہیں اور حالات دگرگوں مگر ہماری سیاسی اشرافیہ کو فکر ہی نہیں۔ کرسی کی لڑائی نے عقل، دانش اور سیاسی بصیرت کو قید میں ڈال رکھا ہے۔ عمران خان کے مطالبات حکومت کے لیے لاکھ ناقابلِ قبول‘ مگر کیا ہمارے سیاست دان اس قابل بھی نہیں کہ مل بیٹھ کر گفت و شنید کر سکیں؟ کیا سیاسی جماعتوں میں کوئی ایسی شخصیت نہیں جو دونوں فریقوں کو درمیانی راستے پرقائل کر سکے؟ ایسا بھی نہیں کہ ہر طرف افراتفری ہے اور حالات بند گلی میں داخل ہو چکے ہیں۔ ایک راستہ ہے جس پر چل کر اس بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے اور پھر میثاقِ جمہوریت بھی ممکن ہے اور میثاقِ معیشت بھی۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ اَنا کی قربانی پہلے کون دے گا۔ عمران خان یا شہباز شریف؟
ابراہم لنکن کا قول ہے: سیاست دان بات چیت کے ذریعے ناممکن کو ممکن بنا سکتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ اناؤں کے پہاڑ تلے دبے نہ ہوں۔ ہماری سیاست کا اصل مسئلہ ہی اَنا، غرور اور تکبر ہے۔ اگر اہلِ حَکم میں عوام کا درد ہوتا تو کیا معاشرے میں اتنی شدت پسندی کو فروغ ملنا تھا؟ پہلے بند کمروں میں کھل کر باتیں ہوتی تھیں اور جلسے جلوسوں میں اشاروں کنایوں پر اکتفا کیا جاتا تھا مگر اب تو وقت کا دھارا مکمل طور پر بدل چکا ہے۔ سیاست دان بند کمروں کی باتیں جلسے‘ جلوسوں میں کر رہے ہیں اور مقتدر حلقے بھی پریس کانفرنس میں اپنا نقطۂ نظر پیش کر رہے ہیں۔ اگر ادارے ماضی میں ادا کیے گئے اپنے سیاسی کردار پر نادم ہیں اور مستقبل میں صرف پروفیشنل ازم کے خواہاں ہیں تو ہمارے سیاست دانوں کو بر ا کیوں لگ رہا ہے؟ اگر دفاعی ادارے اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کا عزم رکھتے ہیں تو ہمارے سیاست دان بھی ایسا کیوں نہیں کرتے؟ مقتدرہ اور اداروں نے غیر سیاسی ہو کر اپنا فرض پورا کر دیا ہے‘ اب سیاست دانوں کی باری ہے۔ انہیں آگے بڑھ کر اپنا بوجھ خود اٹھانا ہو گا۔ اپنے مسائل کا حل خود ڈھونڈنا ہو گا۔ انہیں ہر وہ کام کرنا ہو گا جس کے لیے ماضی میں دوسری جانب دیکھا کرتے تھے۔ اگر سیاست دان یونہی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے مدد کے خواہاں رہے تو پھر کون انہیں عزت دے گا؟ اگر کرسی کے لیے سیاست دان خود ہی ایک دوسرے کے لیے گڑھے کھودتے رہے تو جمہوریت کیسے پروان چڑھے گی؟ آج نہیں تو کل‘ کل نہیں تو پرسوں سیاست دانوں کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہی ہو گا۔ جتھوں کے ذریعے پہلے کبھی حکومت کا خاتمہ ہوا ہے نہ اب ہو گا۔ اس حقیقت کا ادراک جتنا جلدی کر لیا جائے‘ اتنا ہی اچھا ہے۔ ایسا نہ ہو اس کو سمجھنے تک عوام کا ناقابلِ تلافی نقصان ہو جائے۔
عمران خان اور ان کی جماعت لاکھ انکار کرے مگر میری معلومات کے مطابق خان صاحب ڈائیلاگ کے لیے تیار ہیں۔ عمران خان کے دو مطالبات ہیں۔ اول: اہم تعیناتی پر ان سے مشاورت یقینی بنائی جائے۔ دوم: حکومت نئے انتخابات کے لیے تاریخ کا اعلان کرے۔ پہلے مطالبے پر عمران خان سرِعام بات نہیں کر رہے مگر یہ آج بھی ان کا نمبر ون مطالبہ ہے۔ شنید ہے کہ بیک ڈور ہونے والے مذاکرات میں ان کی ٹیم ہمیشہ اسی مطالبے پر پہلے بات کرتی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف بھی عمران خان کی اس ڈیمانڈ کی تصدیق کر چکے ہیں۔ وزیراعظم نے یوٹیوبرز سے بات کرتے ہوئے بتایا ''عمران خان نے مشترکہ دوست کے ذریعے پیغام بھجوایا کہ نئے چیف کے لیے تین نام آپ دیں اور تین نا م میں دیتا ہوں۔ ان میں جو مشترک نام ہو گا اُسے بنا دیں گے‘‘۔ وزیراعظم نے ان کا یہ مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ آئینی طور پر یہ وزیراعظم کا اختیار ہے اس لیے مشاورت نہیں ہو سکتی۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ وزیراعظم صاحب کی دلیل منطق سے خالی نہیں ہے۔ آئین کی منشا یہی ہے کہ وزیراعظم ہی نئی تقرری کریں۔ میری دانست میں عمران خان کا دوسرا مطالبہ بھی درست نہیں ہے۔ آئینی طور پر اس اسمبلی کی مدت اگلے سال اگست میں مکمل ہو گی جس کے بعد اکتوبر‘ نومبر میں نئے انتخابات ہوں گے۔ آئین نئی تعیناتی کے لیے بھی وزیراعظم کو اپوزیشن سے مشاورت کے لیے پابند نہیں کرتا مگر سوال یہ ہے کہ کیا آئین ایسا کرنے سے روکتا ہے؟ اس کا جواب بھی نفی میں ہے۔ وزیراعظم اس تعیناتی سے پہلے کسی سے بھی مشاورت کر سکتے ہیں۔ کیا وہ اپنی جماعت کے قائد میاں نوا ز شریف سے مشورہ نہیں کریں گے؟ کیا حکومتی اتحادیوں کو اعتماد میں نہیں لیں گے؟ کیا سینئر وفاقی وزرا سے اہم تعیناتی پر گفتگو نہیں ہو گی؟ اگر وہ ایسا نہ کریں تو انہیں یقینا خان صاحب سے بھی مشورہ نہیں کرنا چاہیے لیکن اگر وہ مذکورہ طبقات کی رائے لینے کا ارادہ رکھتے ہیں تو پھر خان صاحب سے بات کرنے میں کیا قباحت ہے؟ ہو سکتا ہے کہ ان کے ذہن میں جو نام ہو‘ وہی نام عمران خان کے ذہن میں بھی ہو۔ مشاورت تو جمہوریت کا بنیادی ستون ہے۔ حکومتی امور نمٹانا فردِ واحد کا کام نہیں ہے، اسی لیے کابینہ تشکیل دی جاتی ہے اور مختلف قسم کی کمیٹیاں بنتی ہیں تاکہ غلطی کا خدشہ کم سے کم ہو۔ انگریزی کا محاورہ ہے: Crisis breeds opportunities۔ ہر بحران کی کوکھ سے نئے مواقع جنم لیتے ہیں۔ گزرے چھ ماہ سے ملک کے معاشی اور سیاسی حالات جس نہج پر ہیں‘ اس سے آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم کس دلد ل میں دھنس چکے ہیں۔ خو ف اور بے یقینی کے بادل گہرے ہو چکے ہیں اور ایک ایک کر کے سبھی بے نقاب ہو رہے ہیں۔ کسی کی عزت محفوظ ہے نہ عہدہ۔ گالی دینا اور الزام تراشی کرنا کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا۔ منہ میں آئی ہر بات برملا کہہ دی جاتی ہے، کسی بڑے کا لحاظ ہے نہ خواتین کا احترام۔ محسوس ہوتا ہے کہ پورا معاشرہ ہی بگاڑ کا شکار ہو چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اسے ٹھیک کون کرے گا؟ وہ جو معاشرے کو اس نہج تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں یا وہ جن کے پاس عوام کی فلاح و بہبود کی ذمہ داری ہے؟ یہاں مجھے اپنا ہی ایک شعر یاد آ رہا ہے:
اب تو دینے لگے بچے بھی بڑوں کو گالی
جس کے باعث یہ ہوا اس کی مذمت کی جائے
غور کیا جائے تو سیاسی تقسیم انتشار کی جانب بڑھ رہی ہے۔ لانگ مارچ میں جو طرزِ گفتگو استعمال کی جا رہی ہے وہ کسی طور بھی ریاست اور اداروں کے حق میں نہیں۔ اندرونِ ملک سنجیدہ حلقے پریشان اور مضطرب ہیں کہ آخر یہ ہو کیا رہا ہے؟ کھلے عام تمسخر اڑایا جا رہا ہے۔ دنیا ہمارا مذاق بنا رہی ہے اور بھارت میں تو شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔ وہاں کا میڈیا عمران خان کو ویسے ہی ہیرو بنا کر پیش کر رہا ہے جیسے کسی زمانے میں میاں نواز شریف کی تعریفیں کیا کرتا تھا۔ ملک میں خلفشار بڑھنے کا خدشہ ہو تو حکومت وقت کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے میری رائے میں اسے ایک قدم پیچھے ہٹنا ہو گا۔ عمران خان کے ساتھ مذاکرات کرنا ہوں گے اور کچھ لو‘ کچھ دو کی پالیسی اپنانا ہو گی۔ خان صاحب کے دو مطالبات ہیں۔ ایک مطالبہ حکومت مان لے اور دوسرے سے خان صاحب دستبردار ہو جائیں۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ عمران خان کو محض ایک نام پر اعتراض ہے اور وزیراعظم کے ذہن میں بھی ایسا ہی ایک نام ہے۔ اگر باہمی مشاورت سے ان دونوں کے علاوہ کسی اور نام پر اتفاق کر لیا جائے تو کیا حرج ہے؟ ملک انتشار سے بچ جائے گا ورنہ حالات بگاڑ کا شکار ہوئے تو کسی کے بھی کنٹرول میں نہ رہیں گے۔ رہی بات نئے الیکشن کی تاریخ کی تو میں سمجھتا ہوں کہ اس مطالبے سے خان صاحب کو پیچھے ہٹنا چاہیے۔ مشاورت اور کچھ لو‘ کچھ دو ہی سے دونوں فریقوں کا بھرم قائم رہ سکے گا اور عوام کے جان و مال بھی محفوظ رہیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں