عمران خان اپنا فیصلہ تبدیل کریں

امیر تیمور صرف جنگجو نہیں تھا بلکہ ایک ذہین حکمران بھی تھا۔ وہ اپنی ذہانت سے زیادہ دونوں ہاتھوں سے تلوار چلانے کے فن پر فخر محسوس کرتا تھا۔ امیر تیمور کہا کرتا تھا: خدا کا شکر ہے کہ میرے استاد نے مجھے دونوں ہاتھوں سے تلوار چلانا سکھا دیا تھا ورنہ میدانِ جنگ میں تلوار چلانے والا ہاتھ زخمی ہو جائے تو آپ میں اور مردے میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ گزرے پچھتر سالوں میں ہمارے حکمرانوں کے ساتھ یہی مسئلہ رہا ہے کہ انہیں محض ایک ہاتھ ہی سے تلوار چلانا آتی ہے اور ان کا دماغ ایک وقت میں ایک کام کرنے ہی کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ سیاسی مخالفین پر مقدمات بنا سکتے ہیں یا پھر معیشت کو توانا کر سکتے ہیں۔ وہ گرفتاریاں کر سکتے ہیں یا پھر مہنگائی کا قلع قمع کر سکتے ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق کو پس پشت ڈال سکتے ہیں یا نظام تعلیم کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ زباں بندی کے قوانین بنا سکتے ہیں یا پھر رول آف لاء کے لیے کام کر سکتے ہیں۔ سیاسی مخالفین کی کردار کشی کر سکتے ہیں یا آبادی کی روک تھام کے لیے منصوبہ بندی کر سکتے ہیں۔ سیاسی قیدیوں پر تشدد کرا سکتے ہیں یا پھر ادارہ جاتی نظام کو جدید بنا سکتے ہیں۔ اب یہ حکمرانوں پر منحصر ہوتا ہے کہ ان کی ترجیحات کیا ہیں۔ انہیں عوام کی فکرہے یا پھر اپنی سیاست کی؟ قومی مفادات انہیں عزیز ہیں یا پھر سیاسی مفادات؟
مقدمات، گرفتاریاں اور ریمانڈز قومی مسائل کو حل کرنے کی کلید ہوتے تو عمران خان کی حکومت آج بھی بامِ عروج پر ہوتی۔ جتنے سیاسی افراد کو خان صاحب کے دور میں جیلوں میں ڈالا گیا‘ اس سے قبل شاید کسی جمہوری دور کو یہ 'اعزاز‘حاصل نہیں ہوا۔ نجانے کیوں سیاست دان مسندِ اقتدار پر براجمان ہوتے ہی بھول جاتے ہیں کہ گرفتاریاں آمریت کا خاصہ ہوتی ہیں‘ جمہوریت کا نہیں۔ آمر یہ ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ جمہوریت میں تو اتفاقِ رائے سے آگے بڑھا جاتا ہے۔ افسوس‘ صد افسوس! اب آمریت اور جمہوریت کے نظام ہم قافیہ ہی نہیں‘ ہم معنی بھی لگنے لگے ہیں۔ دونوں ادوار میں زیادہ فرق نہیں رہا۔ گزشتہ چند دنوں میں پہلے فواد چودھری کی گرفتاری عمل میں آئی، پھر شیخ رشید اور اینکرپرسن عمران ریاض خان کی گرفتاریاں ہوئیں۔ کیا حکومت نے کبھی تجزیہ کیا ہے کہ سیاستدانوں اور صحافیوں کو پابندِ سلاسل کرنے سے حاصل وصول کیا ہو گا؟ کیا آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو جائے گا؟ کیا زرمبادلہ کے ذخائر 3.8 ارب ڈالر سے بڑھ کر پچاس ارب ڈالر ہو جائیں گے؟ کیا مہنگائی 27 فیصد سے کم ہوکر تین فیصد پر آ جائے گی؟ کیا برآمدات اور ترسیلاتِ زر دُگنی ہو جائیں گی؟ کیا ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مستحکم ہو جائے گا؟ کیا سٹاک مارکیٹ سے گراوٹ کا خاتمہ ہو جائے گا؟ کیا کراچی پورٹ پر کھڑے خام مال کے دس ہزار کے قریب کنٹینرز کلیئر ہو جائیں گے؟ کیا بیروزگاری کا ناگ ڈسنا چھوڑ دے گا؟ کیا سیلاب کی تباہ کاریوں کا ازالہ ہو جائے گا؟ کیا پٹرول، ڈیزل اور گیس کی قیمتیں کم ہو جائیں گی؟ کیا خارجہ پالیسی مسائل کے گرداب سے نکل جائے گی؟ کیا دہشتگردی کے عفریت پر قابو پا لیا جائے گا؟ کیا پنجاب اور کے پی کے انتخابات التوا کا شکار ہو جائیں گے؟ اگر نہیں‘ تو پھر اتنی جارحانہ سیاست کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ اس سے سیاسی عدم استحکا م کم ہو گا یا بڑھے گا؟ کیا ملک کے معاشی اور سیاسی حالات اتنی افراتفری کے متحمل ہو سکتے ہیں؟
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فواد چودھری اور شیخ رشید نے غیر ذمہ دارانہ بیانات دیے۔ انہیں ایسی گفتگو سے پرہیز کرنا چاہیے تھا۔ اداروں کی تضحیک کرنا اور اہم شخصیات پر بلاثبوت الزام لگانا کسی طور بھی مناسب عمل نہیں ہے۔ عدلیہ ہو یا الیکشن کمیشن‘ پارلیمنٹ ہو یا کوئی اور آئینی ادارہ‘ سب معتبر ہیں اور عوام کے بنیادی حقوق کے ضامن۔ سیاستدانوں کو بلاوجہ اداروں کی غیر جانبداری کو متنازع نہیں بنانا چاہیے۔ سوال یہ بھی ہے کہ شیخ رشید احمد کے حوالے سے اتنی تلخی کیوں دکھائی جا رہی ہے؟ شیخ صاحب نے از خود تو کوئی بات نہیں کی، انہوں نے تو خان صاحب کے الزامات کو دہرایا ہے۔ زرداری صاحب پر اتنا سنگین الزام کیوں لگایا گیا ہے اور اس بارے میں کیا معلومات ہیں‘ یہ بات خان صاحب کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ اگر ان الزامات کے حوالے سے تحقیقات درکار ہیں تو یہ سوال خان صاحب سے کیوں نہیں پوچھا جاتا؟ کیا حکومت کے پاس اس گرفتاری کا کوئی جواز ہے؟ فواد چودھری کو ضمانت مل چکی ہے، عمران ریاض خان کے خلاف مقدمہ خارج کر کے انہیں بھی رہا کر دیا گیا ہے۔ امید ہے کہ کچھ دنوں میں شیخ رشید کو بھی ضمانت مل جائے گی اور وہ بھی باہر آ جائیں گے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس ساری مشق سے حکومت کے ہاتھ کیا آئے گا؟ سوائے بدنامی اور وقت کے ضیاع کے! حکومت اپنی توانائیاں کسی مثبت کام بھی لگا سکتی تھی مگر یوں لگتا ہے پی ڈی ایم سرکار نے عمران خان کے دورِ حکومت کی غلطیوں سے کچھ سبق حاصل نہیں کیا۔ خان صاحب کا بھی سارا فوکس سیاسی مخالفین پر مقدمات بنانے اور ان کی گرفتاریوں پر تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر سارے سیاسی مخالفین جیلوں میں بند ہو جائیں تو ان کی چاندی ہو جائے گی۔ بغیر کارکردگی کے بھی سیاست اور حکومت کی لگام ان کے ہاتھ میں رہے گی۔ عوام کے پاس ان کے سوا کوئی آپشن ہی نہیں بچے گا مگر وقت نے بازی پلٹ دی۔ حکومت اپوزیشن بن گئی اور اپوزیشن حکومت میں آ گئی۔ لیکن ستم یہ ہے کہ شہباز حکومت بھی عمران حکومت کی ڈگر پر چل رہی ہے۔ یہ بھی اپنی کارکردگی سے زیادہ عمران خان کی نااہلی پر تکیہ کیے ہوئے ہے۔ پی ڈی ایم رہنمائوں کو لگتا ہے کہ اگر پی ٹی آئی کے چیئرمین نااہل ہو جائیں تو وہ اگلا الیکشن آسانی سے جیت سکتے ہیں۔ اب بھلا انہیں کون سمجھائے کہ آپ کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ حکومتوں کی کارکردگی ہی الیکشن میں اصل ہتھیار ہوتی ہے۔ اگر کارکردگی نہ ہو تو عوام کبھی ووٹ نہیں دیتے۔ یقینا کچھ سیاسی ورکر ہوتے ہیں جو کارکردگی کے بجائے سیاسی وابستگیوں کو اہمیت دیتے ہیں مگر عوام کی اکثریت کارکردگی دیکھتی ہے۔
اس وقت ایک طرف ملک کا سیاسی درجہ حرارت آسمان کو چھو رہا ہے اور دوسری طرف حکومت پنجاب اور کے پی میں انتخابات سے راہِ فرار اختیار کر رہی ہے‘ پی ٹی آئی رہنماؤں پر مقدمات بنائے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں وزیراعظم صاحب نے سات فروری کو اہم قومی چیلنجز پر تمام سیاسی جماعتوں کو ایک میز پر بٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم صاحب نے کُل جماعتی کانفرنس میں عمران خان کو بھی دعوت دی ہے مگر پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے کہا ہے کہ عمران خان اس کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ خان صاحب کو اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔ ملک کی معاشی، سکیورٹی اور سیاسی صورتحال انتہائی دگرگوں ہے۔ دہشت گردی کا عفریت دوبارہ سر اٹھا چکا ہے اور عوام میں خوف و ہراس بڑھ رہاہے۔ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضروری سمجھا جا رہا ہے اور اس کے لیے مختلف بیانیے رکھنے والی سیاسی جماعتوں میں ہم آہنگی ضروری ہے۔ یہی نہیں‘ آئی ایم ایف بھی معاشی مسائل پر سیاسی اتفاقِ رائے چاہتا ہے۔ اسے خدشہ ہے کہ صوبوں نے وفاق کے ساتھ تعاون نہ کیا تو اس کی شرائط پر عمل درآمد نہیں ہو گا‘ اس لیے سبھی سٹیک ہولڈرز سے مشاورت ناگزیر ہے۔ عمران خان کو چاہیے کہ وہ بنفس نفیس اس کانفرنس کا حصہ بنیں۔ ان کے بغیر کیے گئے فیصلے ادھورے تصور کیے جائیں گے۔ اگر کسی وجہ سے وہ خود نہ جانا چاہتے ہوں تو اپنی پارٹی کا وفد ضرور بھیجیں۔ سیاسی مسائل بات چیت سے حل ہوتے ہیں۔ پنجاب اور کے پی کے انتخابات پر بھی گفتگو کریں اور اپنے دیگر تحفظات بھی اس فورم پر اٹھائیں۔ اس کانفرنس کے فورم سے پی ٹی آئی کا نقطۂ نظر سامنے آنا ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے وہاں کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی اپنائی جائے۔ تحریک انصاف کو دونوں صوبوں میں بروقت الیکشن مل جائے گا اور حکومت کے حصے میں معاشی اور دفاعی محاذ پر قومی اتفاقِ رائے آ جائے گا۔ خان صاحب نے دسمبر 2014ء میں بھی اپنی اَنا کی قربانی دی تھی، سانحۂ اے پی ایس کے بعد ہونے والی کُل جماعتی کانفرنس میں شرکت کی تھی اور دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اب پھر قوم ان سے ایسے ہی اقدام کی توقع کر رہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں