الیکشن تو ضرور ہوں گے …

ملک جس نہج پر ہے‘ ہٹ دھرمی کا جواب ہٹ دھرمی سے دیا جانا چاہیے نہ خودغرضی کو خود غرضی سے کاٹنا سود مند ہوگا۔ ایسا کہاں ہوتا ہے کہ دوسرے کا لال منہ دیکھ کر اپنا چہرہ تھپڑوں سے لال کر لیا جائے۔ اگر کوئی منفی سیاست کر رہا ہے تو ضروری نہیں کہ منفی سیاست کا توڑ منفی سیاست سے ہی کیا جائے۔ حکمت، دانائی اور فہم و فراست کو بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ منطق، دلیل اور اصول کے نئے در بھی کھولے جا سکتے ہیں۔ جذبا ت سے جنگیں تو جیتی جا سکتی ہوں گی مگر دل نہیں۔ شعلہ بیانی اور الفاظ کے ہیر پھیر سے وقتی فائدہ ضرور ہوتا ہو گا مگر اس کے حتمی نتیجے میں محض نقصان ہی مقدر بنتا ہے اور یہ نقصان نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اس لیے سیاست کرتے وقت احتیاط کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے ورنہ سیاست باقی رہتی ہے نہ مستقبل۔ نظام بچتا ہے نہ اقتدار۔
ایک طرف سپریم کورٹ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں جاری آئینی بحران کا حل تلاش کر رہی ہے تو دوسری جانب مریم نواز نے عام انتخابات کے انعقاد کے لیے عجب مطالبہ کیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس بار وہ براہِ راست عدلیہ سے مخاطب ہیں۔ انہوں نے کہا ہے ''الیکشن ضرور ہوں گے مگر پہلے ترازو کے دونوں پلڑے برابر کیے جائیں گے۔ الیکشن ہو گا مگر اس سے پہلے میاں نواز شریف کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ ہو گا۔ میاں نواز شریف کو دی جانی والی غلط سزائیں ختم ہوں گی اور سسلین مافیا اور گارڈ فادر جیسے القابات واپس لیے جائیں گے۔ پہلے عمران خان کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا‘ پھر الیکشن ہوگا‘‘۔ یوں گمان ہوتا ہے کہ مریم نواز نے وفاقی حکومت اور میاں نواز شریف کی زبان بولی ہے۔ یہ مطالبہ سیاسی تو ہو سکتا ہے مگر آئین و قانون کی نظر میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ کوئی بھی شخص آئین، قانون یا عدالت کو کیسے ڈکٹیٹ کر سکتا ہے؟ کیسے ایک شخص کی سزائیں ختم کرنے اور دوسرے کو سزائیں دلانے کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے؟ عدالتی فیصلے پر اپیل قانونی فورمز پر ہی کی جا سکتی ہے۔ سیاسی مطالبات سے سزائیں ختم ہو سکتیں تو کیا ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر چڑھایا جاتا؟ میاں نواز شریف کو جیل کی ہوا کھانا پڑتی؟ آصف علی زرداری گیارہ سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے؟ یوسف رضا گیلانی کو پانچ سال تک نااہلی ختم ہونے کا انتظار کرنا پڑتا؟ نجانے سیاست دان ایسے مطالبات کرنے سے پہلے کیوں بھول جاتے ہیں کہ آئین و قانون کا الگ راستہ ہوتا ہے اور سیاست کا الگ۔ سیاست کی منطق مختلف ہوتی ہے جبکہ قانون دلائل و شواہد کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔ ممکن ہے کہ میاں نوازشریف کے ساتھ ناانصافی برتی گئی ہو مگر ایک زیادتی کا مداوا دوسری سے زیادتی کیسے ہو سکتا ہے؟ مریم نواز صاحبہ کو احتساب عدالت نے سات سال کی سزا سنائی تھی مگر اسلام آباد ہائیکورٹ میں ان کی بریت ہو گئی۔ یہ قانون کا فیصلہ تھا۔ ممکن ہے کہ میاں نواز شریف کے کیس میں بھی آگے کوئی ایسا موڑ دیکھنے کو ملے مگر اس کے لیے پہلے انہیں واپس آ کر عدالتوں کے سامنے سرنڈر کرنا ہو گا اور پھر اپیل دائر کرنا ہو گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ مسلم لیگ نواز کی سینئر نائب صدر کو یہ بات ہرگز نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اس سے میاں نواز شریف کا کیس کمزور ہو گا۔ ایک لمحے کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ مستقبل میں میاں نواز شریف اپیل کرتے ہیں اور وہ بری ہو جاتے ہیں‘ سوال یہ ہے کہ اس سے عوام میں کیا پیغام جائے گا؟ کیا سیاسی جماعتیں اس بریت کے خلاف بیانیہ نہیں بنائیں گی؟ کیا عمران خان اس پر خاموش رہیں گے؟ دوسری طرف یہ فرض کر لیتے ہیں کہ عمران خان کو کسی کیس میں سزا ہو جاتی ہے، تو کیا مسلم لیگ نواز کے ''لیول پلیئنگ فیلڈ‘‘ کے مطالبات کے بعد عوام اس سزا کو قبول کر لیں گے؟ کیا عمران خان سیاسی مظلوم نہیں بن جائیں گے؟
ملک میں انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔ اس میں وفاقی حکومت کا کوئی عمل دخل ہے نہ صوبائی حکومتوں کا۔ یہ الیکشن کمیشن کی معاونت کر سکتی ہیں‘ اس کے کام میں مداخلت نہیں۔ میری سمجھ سے بالاتر ہے لیگی قیادت نے کس برتے پر الیکشن نہ کرانے کا اعلان کیا ہے۔ مریم نواز صاحبہ کے پاس حکمران جماعت کا ایک اعلیٰ عہدہ ہے‘ وہ کسی حکومتی عہدے پر فائز نہیں ہیں۔ وہ کیسے یہ فیصلہ کر سکتی ہیں کہ الیکشن کب ہوں گے اور کب نہیں؟ وہ الیکشن کمیشن کا اختیار کیسے استعمال کر سکتی ہیں؟ عمران خان نے پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں تحلیل کرکے بظاہر ایک غلط اقدام کیا مگر ایک غلط کام دوسرے غلط کام کا جواز کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت اسمبلیاں تحلیل ہونے کے نوے روز میں الیکشن ہونے ہیں‘ تو ضرور ہونے چاہئیں۔ اس میں اگر‘ مگر کا کیا سوال ہے؟ جو ہونا تھا‘ وہ ہو چکا۔ اب الیکشن کرانے ہی میں عافیت ہے۔ اگر نوے روز میں الیکشن نہ کرائے گئے اور مختلف وجوہات کی وجہ سے الیکشن کو ملتوی کیا گیا تو یہ کسی طور بھی آئین و قانون اور ملک میں جمہوریت کے لیے صائب فیصلہ نہیں ہو گا۔ اس سے انارکی، سیاسی عدم استحکام اور افراتفری بڑھے گی۔ ہر طرف احتجاج ہوں گے اور عوام کا جینا مشکل ہو جائے گا۔ یہ ماحول معیشت کے لیے بھی موافق نہیں ہو گا۔ پھر حکومت کیا کرے گی؟ حکومت کو چاہیے کہ ضد ترک کرے تاکہ الیکشن کی راہ ہموار ہو۔ ضد کو ضد سے ختم کیا جا سکتا ہے نہ اَنا کے مقابل اَنا کو کھڑا کرنے سے معاملات سلجھ سکتے ہیں۔ حکومت کے کندھوں پر عوام کا بوجھ ہوتا ہے‘ اس لیے اسے پہل کرتے ہوئے اپنی ضد چھوڑنا ہو گی اور اپنی اَنا کے خول سے باہر نکلنا ہو گا۔
سپریم کورٹ میں الیکشن کی تاریخ نہ دینے کے از خود نوٹس کی سماعت کے دوران سامنے آنے والے ریمارکس سے یہ امر مزید واضح ہوا ہے کہ الیکشن میں تاخیر غیر آئینی حربہ ہے۔آج عدالت گزشتہ شام محفوظ کیا گیا فیصلہ سنائے گی‘ دیکھئے کیا فیصلہ سامنے آتا ہے‘ مگر جو بھی فیصلہ آئے‘ ہر کسی کو اپنی آئینی و قانونی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے۔ سرِدست عمران خان کی اسلام آباد کی عدالت میں پیشی پر کچھ تبصرہ ہو جائے۔ خان صاحب جب بھی عدالت میں پیش ہوتے ہیں تو یوں عدالت جاتے ہیں جیسے امیر تیمور یا بابر دلّی فتح کرنے کے لیے آئے تھے۔ عدالتوں میں پیشی کے یہ مناظر پہلی بار دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف، آصف زرداری اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف سمیت درجنوں سیاسی رہنما عدالتوں میں پیش ہوتے رہے ہیں مگر سیاسی ورکروں کو یوں اکٹھا نہیں کیا گیا تھا۔ پی ٹی آئی ایسا کیوں کر رہی ہے؟ عدالتوں میں پیش ہونے کا یہ کون سا طریقہ ہے؟ گزشتہ ہفتے خان صاحب لاہور ہائیکورٹ میں بھی اسی انداز میں پیش ہوئے تھے اور اب اسلام آباد میں بھی وہی مناظر دکھائی دیے ہیں‘ کیوں؟ کیا خان صاحب نے کبھی سوچا ہے کہ اس طرح مجمع اکٹھا کرنے سے سکیورٹی کے کتنے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں؟ عدالتوں میں آنے والے دیگر سائلیں کو کیا مشکلات پیش آتی ہیں؟ متعلقہ شہر کا نظم و نسق کس حد تک خراب ہوتا ہے؟ عدالتی عملے کے لیے کیا مسائل پیدا ہوتے ہیں؟ لوگ ٹریفک میں کتنے کتنے گھنٹے پھنسے رہتے ہیں؟ کیا خلقِ خدا کو تکلیف دے کر ہی پیشی بھگتنا ضروری ہے؟ اس صورتحال میں کتنے ہی مریض ہسپتالوں میں نہیں پہنچ پاتے ہوں گے‘ کتنے بچے سکول اور کالج جانے سے رہ جاتے ہوں گے‘ کتنے مزدوروں کی دیہاڑی خراب ہوتی ہو گی۔ جس طرح جوڈیشل کمیشن کے دروازے سے پی ٹی آئی کے ورکرز اندر داخل ہوئے‘ کیا مہذب معاشروں میں ایسے ہوتا ہے؟ کیا امریکہ، برطانیہ اور یورپ میں بھی عدالتوں پر ایسے ہی دھاوا بولا جاتا ہے؟ یہ وہی طریقہ ہے جس کے سب سے بڑے ناقد خود عمران خان ہیں۔ انسان کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہونا چاہیے۔ خود کرو تو ٹھیک‘ کوئی دوسرا کرے تو غلط‘ یہ روش اب ختم ہونی چاہیے۔ اگر 2017ء میں میاں نواز شریف اس اندازمیں پیشیاں بھگتتے تو خان صاحب کا کیا ردعمل ہونا تھا؟ خدارا! اپنے ورکرز کی تربیت کریں‘ ایسے مناظر سے ملکی تشخص کو بیرونِ ملک بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ پیشیوں سے قبل کارکنوں کو اکٹھا کرنے کے بجائے عدالتوں کا احترام یقینی بنائیں اور اداروں کو مزید امتحان میں نہ ڈالیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں