بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے

مشکلات میں انسان کو اٹھکھیلیاں نہیں سجھائی دیتیں۔ خزاں کی آندھی چل پڑے تو بہار کے پھولوں کو رخصت ہونا پڑتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ماضی میں کی گئی غلطیوں کا کفارہ ادا کیا جائے۔ یہ ملک مزید تجربات، لوٹ مار اور نااہلیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ توشہ خانہ سے کم قیمت پر تحائف لے کر جس جس نے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے‘ اسے پوری قیمت ادا کرنا ہو گی۔ ملک کے معاشی حالات ان عیاشیوں کی اجازت نہیں دیتے۔ اس ضمن میں نیا قانون بنایا گیا ہے تو اس پر عمل درآمد بھی ہونا چاہیے۔
توشہ خانہ کی بہتی گنگا میں صرف عمران خان نے ہاتھ نہیں دھوئے بلکہ اس حمام میں سب ایک جیسے ہیں۔ کیا میاں نواز شریف اورکیا آصف علی زرداری، کیا شاہد خاقان عباسی اور کیا چودھری پرویز الٰہی، کیا جنرل پرویز مشرف اور کیا شوکت عزیز۔ اچھا کیا حکومت نے اکیس سال کا ریکارڈ پبلک کر دیا‘ ورنہ کتنے ہی سیاست دانوں کی پارسائی پردوں کے پیچھے چھپی رہتی۔ ایسا نہیں کہ انہوں نے کوئی غیر قانونی کام کیا ہے مگر کیا توشہ خانہ کا قانون انصاف پر مبنی ہے؟ کیا آئین پاکستان ایک مخصوص طبقے کے لیے قانون سازی کی اجازت دیتا ہے؟ آئین میں لکھا ہے کہ پارلیمنٹ عوام کی فلاح اور تحفظ کو یقینی بنائے گی مگر یہ کیسا قانون ہے جس میں صرف حکمرانوں کا فائدہ ہے اور عوام کے حصے میں محض خسارہ آتا ہے۔ توشہ خانہ سے سب سے زیادہ قیمتی تحائف شاہد خاقان عباسی اور ان کے خاندان نے لیے ہیں۔ 23 کروڑ 30 لاکھ روپے کے تحائف صرف 4 کروڑ 65لاکھ روپے دے کر حاصل کیے گئے۔ اس کے بعد عمران خان صاحب کا نمبر آتا ہے انہوں نے 14 کروڑ سے زائد کے تحائف بیس فیصد قیمت دے کر حاصل کیے۔ تیسرے نمبر پر زرداری خاندان آتا ہے جس نے تیرہ کروڑ کے تحائف رعایتی قیمتوں پر وصول کیے۔ چوتھے نمبر پر شریف فیملی ہے جو 9 کروڑ سے زائد کے گفٹس صرف بیس فیصد قیمت دے کر گھروں کو لے گئی۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ سب اربوں پتی لوگ ہیں‘ انہیں کم قیمت پر اشیا لیتے ہوئے کوئی عار نہیں آئی؟ ان کے ضمیر نے انہیں ملامت نہیں کیا؟ قومی خزانے کو نقصان پہنچاتے ہوئے انہیں تھوڑا سا بھی احسا س نہیں ہوا؟
مشہور محاورہ ہے کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ شاہد خاقان عباسی نے اب یہی کیا ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنے کیے پر نادم ہوتے اور احسن اقبال کی طرح توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف کی پوری قیمت ادا کر دیتے‘ انہوں نے عجب دلیل دی ہے۔ سابق وزیراعظم کا کہنا ہے ''توشہ خانہ حکومت کی ملکیت نہیں ہوتا۔ تحائف ملک، توشہ خانہ یا عہدے کو نہیں بلکہ اس شخص کو ملتے ہیں جو کرسی پر بیٹھا ہوتا ہے‘‘۔ میں نے جب شاہد خاقان عباسی کی یہ منطق سنی تو مجھے ہنسی بھی آئی اور دکھ بھی ہوا۔ ہنسی اس لیے آئی کہ ہم نے کیسے کیسے لوگوں کو اعلیٰ ترین مناصب پر بٹھایا ہے اور دکھ اس بات پر ہوا کہ مجھے شاہد خاقان عباسی جیسے پڑھے لکھے انسان سے اتنی دیدہ دلیری کی توقع نہیں تھی۔ یہ عذرِ گناہ بدتر از گناہ والا معاملہ ہے۔ چلیں! ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ وہ تحفے عہدے یا کرسی کو نہیں‘ شخصیات کو ملتے ہیں‘ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کرسی چھوڑنے کے بعد انہیں یا دوسرے وزرائے اعظم اور صدور کو کتنی بار دوسرے ممالک کے سربراہان نے تحفے دیے ہیں؟ اگر دیے ہیں تو ان کی تفصیلات قوم کے سامنے رکھی جائیں اور اگر نہیں دیے تو پھر اس دلیل کی کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے؟ دوسری بات‘ اگر تحفے کرسی پر بیٹھے شخص کو ملتے ہیں تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب ہمارے وزرائے اعظم کسی دوسرے ملک سے آئے مہمانوں کو تحائف دیتے ہیں تو کیا اس کی قیمت وہ اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں؟ یا یہ بوجھ سرکاری خزانے کو اٹھانا پڑتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ آج تک کسی وزیراعظم نے دوسرے ممالک کے سربراہان کو اپنی جیب سے تحفے نہیں دیے بلکہ اس کی قیمت ہمیشہ سرکاری خزانے سے ادا کی گئی ہے۔
توشہ خانہ کے قضیے میں شاہد خاقان عباسی عمران خان سے بھی بازی لے گئے ہیں۔ عمران خان نے کہا تھا: میرے تحفے میری مرضی، مگر عباسی صاحب نے تو ساری کہانی ہی بدل دی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے میں سابق وزیراعظم کو اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں سمجھنا ہو گا کہ تحائف وزیراعظم کی کرسی کو ملتے ہیں‘ شخصیات کو نہیں۔ ان تحائف پر پہلا اور آخری حق سرکاری خزانے اور عوام کا ہی ہے‘ شخصیات کا نہیں۔ یقین نہیں آتا تو امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ کے دورِ حکومت کا مطالعہ کر لیں‘ ساری غلط فہمی دور ہو جائے گی۔ روایت ہے کہ ایک دفعہ سرکاری سفیر قیصرِ روم کے پاس جانے لگا تو حضرت عمرؓ کی اہلیہ نے سفیر کے ہاتھ قیصر کی ملکہ کے لیے اپنی طرف سے عطر کی چند شیشیاں بطور تحفہ بھیج دیں۔ قیصرِ روم کی ملکہ نے جوابی تحفے کے طور پر عطر کی شیشیوں میں جواہرات بھر کر بھیج دیے۔ حضرت عمرؓ کو معلوم ہوا تو انہوں نے اپنی اہلیہ سے فرمایا: اگرچہ عطر تمہارا تھا لیکن اسے سرکاری سفیر لے کر گیا تھا اور اس کے مصارف بیت المال سے ادا کیے گئے تھے لہٰذا ان جواہرات پر بیت المال کا حق ہے۔ تم صرف عطر کی قیمت لے سکتی ہو۔ اس کے بعد عطر کی قیمت انہیں دے دی گئی اور جواہرات کو بیت المال میں جمع کرا دیا گیا۔ سرکاری عہدیداروں کو ملنے والے تحائف سے متعلق یہ اصو ل حضرت عمرؓ نے رسالت مابﷺ سے سیکھ کر اپنے خاندان پر منطبق کیا تھا۔ کاش! سابق وزیراعظم اور ان کے اہلِ خاندان قومی خزانے سے 18کروڑ 70لاکھ روپے کی رعایت سے مستفید ہونے سے قبل اس قصے کو پڑھ لیتے۔
توشہ خانہ سے کم قیمت پر بڑے بڑے گفٹس لینے کی منطق پھر سمجھ میں آتی ہے کہ قیمتی اشیا کا شوق انسان کی فطرت میں ہے مگر ہمارے حکمرانوں نے تو چھوٹے چھوٹے تحائف بھی نہیں چھوڑے اور وہ انہیں بغیر کوئی معاوضہ ادا کیے گھر لے گئے۔ نواز شریف کا خاندان پائن ایپل کے ڈبے اور قالین مفت میں لے گیا۔ عمران خان نے ٹیبل، چٹائی، گلدان، ٹی سیٹ، فریم اور کلاک توشہ خانہ سے مفت میں لیے۔ چودھری پرویز الٰہی نے ٹریکٹر، بھینسیں اور موٹر سائیکل جیسے تحائف وصول کیے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے چاکلیٹس اور شہد مفت میں اپنے پاس رکھ لیے۔ خواجہ آصف، آصف زرداری، اسحاق ڈار اور شوکت ترین نے بیٹ شیٹس تک توشہ خانہ میں نہ چھوڑیں۔ صدر عارف علوی، راجہ پرویز اشرف، شاہ محمود قریشی اور آصف زرداری نے کھجوریں اور ٹی سیٹ حاصل کیے۔ چودھری شجاعت حسین قالین اور ساڑھی گھر لے گئے اور ہمارے ارب پتی سیاستدان جہانگیر ترین نے پندرہ سو روپے کا ٹی سیٹ مفت وصول کیا۔ یہ سب تفصیلات پڑھ کر اونچی دکان‘ پھیکا پکوان کا محاورہ یاد آتا ہے؛ اتنے بڑے بڑے نام اور ایسے معمولی کام۔ سرکاری خزانے میں کوئی معمولی چیز بھی نہیں رہنے دی گئی۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی جب گجرات کے وزیراعلیٰ تھے تو انہیں لگ بھگ سو کروڑ روپے کے گفٹس ملے۔ نریندر مودی نے ان تحائف کو گھر لے جانے کے بجائے ان کو نیلام کیا اور وہ سارے پیسے تعلیم کے لیے خرچ کر دیے۔ کیا ہمارے سیاستدان مودی سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھ سکتے؟
دیر آید درست آید! حکومت نے توشہ خانہ کو لے کر نئی پالیسی بنائی ہے۔ تین سو ڈالر سے کم مالیت کا تحفہ حکمران مارکیٹ ویلیو پر خریدنے کے مجاز ہوں گے اور اس سے زائد مالیت کے تحائف اوپن آکشن کے ذریعے عوام بھی خرید سکیں گے۔ تحائف کے طور پر ملنے والی گاڑیاں، قیمتی گھڑیاں، زیورات اور نوادرات کوئی بھی شخصیت خریدنے کی مجاز نہیں ہو گی۔ غیر ملکی شخصیات سے کیش تحفہ وصول کرنے پر پابندی ہو گی۔ یہ بہت اچھی اور جامع پالیسی ہے۔ خدا کرے کہ اس پر عمل درآمد بھی ہو اور تحائف کی قیمت کم ظاہر کرنے کی رِیت ختم ہو جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں