اصل نقصان عمران خان کا ہو گا

سچ کی پوٹلی میں جھوٹ کی مقدار بڑھ جائے تو حقیقت تک پہنچنے میں بہت دِقت ہوتی ہے۔ پروپیگنڈا آخری حدوں کو چُھونے لگے تو غلط اور صحیح میں تمیز کرنا مشکل ہو جاتا ہے‘ سامنے کا سچ دھندلا جاتا ہے اور دور پڑا جھوٹ ہی نظروں میں سمانے لگتا ہے۔ عہدِ رواں پروپیگنڈے کا زمانہ ہے۔ جو زیادہ پروپیگنڈا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ معتبر ٹھہرتا ہے اور جو اس فن سے ناآشنا ہو‘ وہ زمانے کی خاک چھانتا ہے۔ اس وقت زیر بحث سوالات یہ ہیں کہ کیا عمران خان کی گرفتاری خلافِ قانون تھی؟ کیا اس گرفتاری کے بعد عوامی ردِعمل قانون کے دائرے میں تھا؟ اور کیا عدالت سے خان صاحب کی رہائی قانون کے مطابق ہوئی ہے؟ ان سوالات کے جوابات قانون کے مطابق آنے ہیں‘ جذبات کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب آپ کسی واقعے، حادثے یا شخصیت کو قانون کی کسوٹی سے پرکھتے ہیں تو جواب مختلف ہوتا ہے اورجب جذبات کی نظر سے معاملات کو دیکھتے ہیں تو جواب الگ ہوتا ہے۔
القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کو پہلے سپریم کورٹ سے ریلیف ملا اور پھر اسلام آباد ہائیکورٹ نے دوہفتوں کے لیے ضمانت منظور کرلی۔ ضمانت عمران خان کا حق تھا۔ نیب کیس ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور گرفتاری کر کے نیب نے عجلت کا مظاہرہ کیا تھا۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلوں کے بعد کیا عمران خان پر لگے الزامات کی سیاہی دُھل گئی ہے؟ کیا القادر ٹرسٹ کیس میں بے گناہی ثابت ہو گئی ہے؟ کیا 60 ارب روپے کا معاملہ حل ہو گیا ہے؟ کیا پراپرٹی ٹائیکون نے القادر ٹرسٹ کے نام جو زمین عطیہ کی تھی‘ اس کی جانچ پڑتال مکمل ہو گئی ہے؟ یہ کیس بہت سنجیدہ نوعیت کا ہے مگر خان صاحب اس حوالے سے زیادہ لب کشائی نہیں کرتے۔ آج تک اس سوال کا جواب سامنے نہیں آیا کہ برطانیہ سے آنے والے 190 ملین پاؤنڈ قومی خزانے میں کیوں جمع نہیں ہوئے؟ کابینہ کو لاعلم رکھ کر اس رقم کی منظوری کیوں لی گئی؟ کس مجبوری کے تحت اس رقم سے پراپرٹی ٹائیکون کا جرمانہ ادا کیا گیا؟ اس ناقابلِ فہم فیصلے کے بعد پراپرٹی ٹائیکون نے خان صاحب کی اہلیہ، القادر ٹرسٹ اور فرح خان کے نام زمین کیوں لگوائی؟ ہو سکتا ہے کہ پراپرٹی ٹائیکون سے زمین قانونی طور پر خریدی گئی ہو مگر اس کا کوئی ثبوت دونوں پارٹیوں کی جانب سے سامنے نہیں آیا۔ اگر رقم کا لین دین بینک کے ذریعے ہوا ہے تو اس کی رسید کہاں ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ ضمانت اہم نہیں ہے بلکہ قوم کیلئے ان سوالات کے جوابات زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ عوام کو مطمئن کرنا ضروری ہے۔ اگر اس معاملے میں کچھ غلط نہیں ہوا تو پھر پریشانی کس بات کی ہے؟ اور اگر کچھ غلط ہوا ہے تو پھر گرفتاری پر اتنا شور و غل اور واویلا کیوں؟ جب القادر ٹرسٹ کیس چلے گا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ کوئی چیز زیادہ دیر تک راز نہیں رہے گی‘ جلد سارے عقدے کھل جائیں گے۔
عمران خان کو جس طرح اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا گیا تھا‘ وہ عمل غیر قانونی تھا یا نہیں‘ اس بحث سے قطع نظر‘ یہ خلافِ روایت ضرور تھا۔ روایت یہ ہے کہ احاطۂ عدالت سے کسی ملزم کو گرفتار نہیں کیا جاتا۔ یہ معاملہ قانون سے زیادہ عدالت کے تقدس کا ہے۔ جب کوئی شخص ضمانت کے لیے عدالت کے سامنے سرنڈر کرتا ہے تو پھر فیصلہ آنے سے پہلے اسے گرفتار کرنا توہینِ عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔خان صاحب کی گرفتاری کے وقت جو توڑ پھوڑ کی گئی اور عدالت میں جو شور شرابہ ہوا تھا‘ وہ بھی عدالت کے احترام کے برخلاف تھا۔ اس لیے پہلے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئی جی اسلام آباد اور سیکرٹری داخلہ کو توہینِ عدالت کے نوٹسز جاری کیے اور بعد ازاں سپریم کورٹ نے اس گرفتاری ہی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے چیئرمین تحریک انصاف کو رہا کر کے دوبارہ ہائیکورٹ میں پیش ہونے کا حکم دیا۔ عدالتِ عظمیٰ نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ آج کے بعد احاطۂ عدالت سے کسی کی بھی گرفتاری نہیں ہو گی۔ عمران خان کی ضمانت تو منظور ہو گئی مگر اس دوران جو نقصان ہوا‘ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ملک کے تشخص کا کیا ہوگا‘ جو تباہ کر دیا گیا ہے؟ اس جگ ہنسائی کا کیا ہو گا جو ہمارے پڑوسی ملک کے میڈیا پر جاری ہے؟ کیا اس کی کسی کو فکر ہے؟ کچھ حلقے یہ بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ اعلیٰ عدالتوں میں پُرتشدد واقعات کو زیرِ بحث کیوں نہیں لایا گیا؟
عمران خان واحد سیاستدان نہیں ہیں جنہیں گرفتار کیا گیا۔ ان سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو، ولی خان، مولانا مودودی، میاں نواز شریف، محترمہ بینظیر بھٹو، آصف زرداری اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف بھی جیل یاترا کر چکے ہیں مگر کبھی ایسا ردِعمل دیکھنے کو نہیں ملا جیسا عمران خان کی گرفتاری کے بعد نظر آیا۔ یہ مناظر انتہائی تکلیف دہ اور افسوس ناک تھے۔ احتجاج کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے مگر پُر تشدد احتجاج کی آئین اجازت دیتا ہے نہ قانون میں اس کی کوئی گنجائش ہے۔ جس طرح ملک بھر میں مظاہرے کیے گئے، سٹرکوں کی بندش ہوئی، سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچایاگیا، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو نذرِ آتش کیا گیا، ریڈیو پاکستا ن کی بلڈنگ اور سب سے بڑھ کر لاہور میں جس طرح کور کمانڈر ہاؤس کو جلایا گیا‘ اس کی جتنی مذمت کی جائے‘ کم ہے اور بطور قوم اس عمل پر شرمندگی اور افسوس کا جتنا بھی اظہار کیا جائے‘ اتنا ہی ضروری ہے۔ ان پُرتشدد واقعات کے بعد میں خود کور کمانڈر ہاؤس گیا اور جلی ہوئی عمارت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ہر طرف تباہی ہی تباہی تھی۔ سارا گھر جل کر راکھ بن چکا تھااور کوئی گوشہ ایسا نہیں تھا جو آگ کی دسترس سے محفوظ رہا ہو۔ ایک چیز ایسی نہیں تھی جو بچ گئی ہو۔ پُرتشدد مظاہرین گھر کا سامان تک لوٹ کر لے گئے تھے۔ قائداعظم کے زیرِ استعمال رہنے والی اشیا کو بھی راکھ بنا دیا گیا تھا۔ قائداعظم کی رائٹنگ ٹیبل، پیانو اور تلوار کو بھی آگ لگا دی گئی تھی۔ دنیا بھر میں سیاستدانوں کے جہاں چاہنے والے ہوتے ہیں‘ وہیں مخالفین بھی ہوتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اگر مقبول و پسندیدہ سیاستدان کسی الزام میں گرفتار ہو جائے تو کیا ساری قومیں ایسے ہی ردِعمل دیتی ہیں جیسے ہم نے دیا؟ کیا مہذب ممالک میں بھی خلقِ خدا کو ایسے ہی تنگ کیا جاتا ہے جیسے ہم نے سٹرکیں بلاک کرکے کیا؟ آج نہیں تو کل‘ کل نہیں تو پرسوں خان صاحب نے رہا ہو ہی جانا تھا۔ پھر اتنی جذباتیت اور شدت پسندی دکھانے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا سیاسی جاعتوں میں ورکرز کو کنٹرول کرنے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں؟ یا یہ سب لیڈرشپ کی مرضی سے ہوا؟ اگر ایسی بات ہے تو اس سے زیادہ دکھ کی کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ عباس تابش کا شعر ملاحظہ کریں:
گزشتہ امتوں کی انتہا سے ڈر نہیں لگتا
یہ کیسے لوگ ہیں جن کو خدا سے ڈر نہیں لگتا
عمران خان کو ضمانتیں مل جانے سے معاملہ ٹلتا محسوس نہیں ہوتا کیونکہ حکومت دوبارہ عمران خان کو گرفتار کرنے کا عندیہ دے چکی ہے۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے اعلان کیا ہے کہ کور کمانڈر ہاؤس کو جلانے کے جرم میں انہیں دوبارہ گرفتار کیا جائے گا اور یہ مقدمہ دہشت گردی کی عدالت میں چلے گا۔ اگر عمران خان ایک بار پھر گرفتار ہوئے تو کیا گارنٹی ہے کہ امن عامہ کا مسئلہ کھڑا نہیں ہو گا؟ عوام کی املاک کی حفاظت کون کرے گا؟ عوام کی محفوظ نقل و حرکت کو کیسے یقینی بنایا جائے گا؟ میرے خیال میں معاملہ جس نہج پر پہنچ گیا ہے‘ اب عدلیہ اور حکومت میں کشیدگی مزید بڑھے گی۔ حکومت کی مدت ختم ہونے والی ہے‘ وہ ہر حربہ استعمال کرے گی مگر پیچھے نہیں ہٹے گی۔ ملک میں انارکی اور افراتفری بڑھنے کے آثار نمایا ں ہیں۔ خدا میرے ملک کی حفاظت فرمائے! اصل اور اہم نکتہ یہ ہے کہ اس ساری کہانی میں ادارے کیا سوچ رہے ہیں‘ جن کی ساکھ کو سب سے زیادہ متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔ آئی ایس پی آر کی گزشتہ پریس ریلیز میں ان سب لوگوں کے لیے کھلا پیغام ہے جو کشیدگی بڑھانا چاہتے ہیں۔ وفاقی کابینہ کی بڑی تعداد وزیراعظم کو ایمرجنسی لگانے کا مشورہ دے چکی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو اس سے سب سے زیادہ نقصان خود عمران خان اور ان کی جماعت کا ہی ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں