مسلم لیگ (ن) کا بیانیہ

ڈھلتی عمر کی خواہشات بے لگام ہو جائیں تو ایسی گہری جھیل کی مانند ہو جاتی ہیں جو چاروں طرف سے بلند و بالا پہاڑوں میں گھری ہوتی ہے اور جس کی شفاف سطح پر امیدوں کے سائے رقصاں ہوتے ہیں، جس میں ارمانوں کی پرچھائیں تیرتی ہیں مگر اسے سمندر تک پہنچنے کے لیے کوئی راستہ نہیں ملتا۔ انسانی فطرت کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ عہدِ شباب سے بچھڑا ہوا ہر شخص شباب کی دنیا میں لوٹ جانے کا آرزو مند ہوتا ہے۔ میاں نواز شریف کے من میں بھی ایسی ہی خواہشات مچل رہی ہوں تو تعجب کیسا؟ اگر وہ ایک بار پھر اقتدار کی غلام گردشوں سے دل بہلانا چاہتے ہیں تو ہمیں عجیب کیوں لگ رہا ہے؟
اس وقت مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں اضطراب، بے چینی اور بے قراری دکھائی دے رہی ہے۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ آنے والا وقت میاں نوازشریف کو قبول کرے گا یا نہیں؟ میاں صاحب کا بیانیہ عوام کے دلوں میں گھر کر پائے گا یا نہیں؟ اہالیانِ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد کا استقبال کرنے کے لیے گھروں سے نکلیں گے یا نہیں؟ قمرجاوید، فیض حمید، ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ کا احتساب ممکن ہے بھی یا نہیں؟ میاں نواز شریف کی سیاست کا سورج دوبارہ طلوع ہو پائے گا یا نہیں؟ پی ڈی ایم حکومت کی ناکامیوں کے سائے مسلم لیگ (ن) کی سیاست کو دوبارہ ابھرنے دیں گے یا نہیں؟ اور سب سے بڑھ کر‘ میاں صاحب کو وطن واپسی پر اپنے مقدمات میں ریلیف مل سکے گا یا نہیں؟ مسلم لیگ (ن) کے اکابرین اور ورکرز کے خدشات بہت حد تک درست ہیں۔ گزشتہ اٹھارہ ماہ نے پاکستان کی سیاست کا رخ بدل کر رکھ دیا ہے۔ عام آدمی سے لے سیاسی ورکرز تک‘ ہرکوئی اپنی سوچ کا مالک ہے اور اپنی منفرد رائے رکھتا ہے۔ پورا معاشرہ اس وقت سیاسی تقسیم کا شکار ہے اور نظریات پر اب جذبات غالب ہیں۔ کوئی سچ اور جھوٹ میں تمیز کر رہا ہے نہ ہی اچھے برے کو الگ الگ نظر سے دیکھنا چاہتا ہے۔ دانستہ طور پر اس حقیقت سے نظریں چرائی جا رہی ہیں کہ حکمرانی سیاست کی کوکھ سے جنم لیتی ہے اور حکمرانوں کی کامیابی کا دار و مدار ان کی صلاحیتوں اور قابلیت پر ہوتا ہے۔ تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ جس ملک نے بھی ترقی کی منازل طے کی ہیں وہاں حکمرانوں کا انتخاب صلاحیت اور اہلیت کی بنیاد پر ہوا نہ کہ جذبات اور خواہشات کے تابع ہو کر۔ ہمیں میاں نواز شریف، آصف علی زرداری اور عمران خان کے معاملے کو بھی ایسے ہی دیکھنا چاہیے۔ پاکستانیوں کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ ان تینوں میں سے کون زیادہ باصلاحیت ہے اور کس جماعت کے پاس باصلاحیت ٹیم ہے؟ کون ملک کی کشتی کو مسائل کے بھنور سے نکال سکتا ہے؟ کون معیشت کو دوبارہ پـٹڑی پر ڈال سکتا ہے؟ اور کون مہنگائی کا جن بوتل میں بند کر سکتا ہے؟ ہمیں بطور قوم اس نتیجے پر پہنچنا ہو گا کہ 2008ء سے 2013ء تک پیپلز پارٹی کی حکومت بہتر تھی یا 2013ء سے 2018ء تک مسلم لیگ (ن) کی حکومت۔ اگست2018ء سے اپریل 2022ء تک پی ٹی آئی نے ملک کو احسن انداز میں چلایا یا اپریل 2022ء سے اگست 2023ء تک پی ڈی ایم حکومت نے؟ اگر ہم جذباتیت کے بجائے حقائق کی روشنی میں تجزیہ کریں گے تو ہمیں جواب ضرور مل جائے گا؛ تاہم یہاں یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ بطور قوم ہم جذباتیت کی عینک اتارنے کے خواہش مند ہیں بھی یا نہیں؟
مسلم لیگ (ن) میں اس وقت بیانیے کی جنگ جاری ہے۔ میاں نواز شریف قمر جاوید باجوہ، فیض حمید، ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ کے احتساب کا نعرہ لگا رہے ہیں اور ملک کی تباہی اور بربادی کا ذمہ دار ان شخصیات کو قرار دے رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ان چاروں کے احتساب کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اگر ان چاروں شخصیات کو ان کے کیے کی سزا نہ ملی تو ملک ایسے ہی ڈی ریل ہوتا رہے گا اور عوام مہنگائی کے عذاب سے کبھی باہر نہیں نکل سکیں گے۔ اپنی گزشتہ چند تقاریر میں انہوں نے اس بیانیے کی ابتدا کر دی ہے۔ مریم نواز، رانا ثناء اللہ، میاں جاوید لطیف، پرویز رشید، اسحاق ڈار اور کچھ دیگر اکابرین نواز شریف صاحب کے اس بیانیے کے بھرپور حامی نظر آتے ہیں مگر دوسری طرف شہباز شریف، رانا تنویر، شاہد خاقان عباسی، خواجہ سعد رفیق، خرم دستگیر، احسن اقبال، ملک احمد خان اور خواجہ آصف سمیت دیگر لیڈران تصادم کی پالیسی سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں۔ شہباز شریف نہیں چاہتے کہ دوبارہ نواز شریف سے وہی سلوک ہو اور وہی کچھ بھگتنا پڑے جو پرویز مشرف کا احتساب کرنے کی کوششوں کے وقت بھگتا تھا۔ اُس وقت نواز شریف وزیراعظم ہونے کے باوجود آرٹیکل چھ کے مقدمے کو منطقی انجام تک نہیں پہنچا سکے تھے اور بعد ازاں ان کے ساتھ جو ہوا وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہبازشریف دو دن پاکستان میں رہنے کے بعد فوراً برطانیہ چلے گئے۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ انہوں نے پارٹی میٹنگز کے علاوہ تنہائی میں بھی نواز شریف صاحب کو سمجھایا کہ وہ اتنا جارحانہ بیانیہ نہ بنائیں۔ ایسا نہ ہو کہ انہیں مقبولیت تو مل جائے مگر قبولیت کوسوں دور چلی جائے۔ یہ نہ ہو کہ وہ پاکستان تو چلے جائیں مگر انتخابی مہم کو لیڈ نہ کر سکیں۔ شہباز شریف کا موقف ہے کہ انہیں صرف اپنے ادوار کے منصوبوں اور معاشی ترقی پر فوکس کرنا چاہیے۔ انہیں عوام کو یاددہانی کرانی چاہیے کہ انہوں نے کیسے نئے کارخانے لگا کر بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کی، کیسے سی پیک کا معاہدہ کیا، موٹرویز کا جال بچھایا، دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی، کراچی کا امن لوٹایا، پاکستان کی پہلی اورنج لائن ٹرین لاہور میں چلائی، معیشت کو سنبھالا دیا اورمہنگائی کا جن قابو میں کیے رکھا۔ سوال یہ ہے کہ نواز شریف صاحب اپنے بھائی اور دیگر زعما کی ان گزارشات پر عمل کریں گے یا نہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ شاید وہ ایسا نہیں کریں گے۔ وہ مذکورہ بالا شخصیات پر تنقید کے نشتر ضرور چلائیں گے اور انتخابی مہم میں گاہے گاہے ان کے لتے لیتے رہیں گے۔ قبل ازیں قمر جاوید باجوہ کے احباب نے بھی نواز شریف تک ملتا جلتا پیغام پہنچایا تھا مگر شنید ہے کہ انہوں نے یہ ماننے سے انکارکر دیا تھا۔ سو گمانِ غالب ہے کہ شہباز شریف بھی انہیں قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔
ایسا نہیں ہے کہ نواز شریف 21 اکتوبر کو واپس آتے ہی الیکشن مہم میں حصہ لینے لگیں گے اور پھر انتخابات کے بعد وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہو جائیں گے۔ ایوانِ اقتدار تک پہنچنے سے پہلے انہیں بہت سے سیاسی اور قانونی پلوں سے گزرنا ہے۔ وہ اس وقت سزا یافتہ مجرم ہیں اور دو بڑے مقدمات میں اشتہاری، انہیں سپریم کورٹ نے تاحیات سیاست کے لیے نااہل قرار دے رکھا ہے۔ وہ کوئی پارٹی کا عہدہ اپنے پاس رکھ سکتے ہیں نہ حکومتی عہدہ سنبھال سکتے ہیں۔ ملک واپس آنے کے لیے انہیں سب سے پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ سے حفاظتی ضمانت لینا ہو گی، اس کے بعد انہیں کورٹ میں پیش ہونا ہوگا تاکہ ان کا اشتہاری کا سٹیٹس ختم کیا جا سکے۔ پھر انہیں جیل جانا پڑے گا اور وہ اس وقت تک وہیں رہیں گے جب تک العزیزیہ کیس میں ان کی ضمانت نہیں ہو جاتی یا پھر ان کی سزا معطل نہیں ہو جاتی۔ اس ساری کارروائی میں کئی ہفتے بھی لگ سکتے ہیں۔ اس کے بعد ایون فیلڈ اور العزیزیہ کیس میں ان کی اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کی جائیں گی۔ اگر زیادہ نہیں تو دو سے تین ماہ اپیلوں کے فیصلے ہونے میں لگ جائیں گے۔ اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ میاں نواز شریف بے قصور ہیں تو انہیں بری کر دیا جائے گا اور پھر وہ الیکشن لڑنے کے اہل بھی ہو جائیں گے۔ لیکن اگر عدالت نے سزا برقرار رکھی تو پھر صورتحال مختلف ہو سکتی ہے۔ ان دونوں کیسز کا فیصلہ ہی میاں نواز شریف کی سیاست میں واپسی کا تعین کرے گا۔ پی ڈی ایم حکومت نے جاتے جاتے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت پانچ سال کر دی تھی۔ اس سے میاں نواز شریف فائدہ اٹھائیں گے، لہٰذا اب تاحیات نااہلی ختم ہو چکی ہے۔ اب صرف یہ دیکھنا ہے کہ نواز شریف واپس آکر بیانیہ کیا بناتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں