کنول کے پھول

دورِ حاضر کی نوجوان نسل بالخصوص پاکستانی نوجوانوں کے متعلق ایک عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ اس ڈیجیٹل مخلوق کی زندگی وٹس ایپ سے شروع ہو کر ٹِک ٹاک پر ختم ہو جاتی ہے۔ بہت سے نوجوان نامساعد حالات کو اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار قرار دے کر تمام تر ذمہ داریوں سے بری الذّمہ ہو جاتے ہیں‘ مگر ہمارے وطنِ عزیز میں ایسے ہونہار‘ ذمہ دار اور خوددار نوجوان بھی موجود ہیں جو مشکل ترین حالات کا مقابلہ کر کے اپنے بڑے خوابوں کو عملی حقیقت بنانے کے لیے دن رات کوشاں ہیں۔ انہی درخشندہ ستاروں میں سے آج میں نے تین با صلاحیت کرداروں کا انتخاب کیا ہے جو یقینا ہم سب کے لیے قابلِ فخر ہیں۔ ان با ہمت نوجوانوں نے اپنی مشکلات‘ محرومیوں اور مسائل کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے مسلسل محنت کو شعار بنایا اور مایوسی کے اندھیروں میں روشن سویروں کو تلاش کر کے اپنی زندگی کو ایک قابل تقلید مثال بنا دیا۔
سب سے پہلا با ہمت کردار سندھ کے ضلع گھوٹکی کا محمد یونس ہے۔ وہ 1990میںتحصیل اوباڑو سے اٹھارہ کلو میٹر دور کچے کے علاقے میں واقع گائوں رحیم بوھڑ میں پیدا ہوا۔ اُس کا والد غوث بخش ایک ہارہے اور والدہ اپنے محنت کش شوہر کا ہاتھ بٹا کر اپنے نو بچوں کی دو وقت کی روٹی یقینی بنانے کے لیے دن رات محنت کرتی ہے۔ یہ گائوں آج بھی پانی‘ بجلی‘ پختہ سڑک‘ سکول اور دیگر زندگی کی سہولتوں سے محروم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محمد یونس کو پرائمری سکول میں پڑھائی کے لئے آٹھ کلو میٹر دور گورنمنٹ پرائمری سکول سونو چاچڑ اور میٹرک کے لئے گیارہ کلومیٹر دور واقع گورنمنٹ ہائی سکول کمّوںشہید تک روزانہ پیدل سفر کر نا پڑا۔ وہ 2005میں میٹرک کا امتحان نمایاں پوزیشن کے ساتھ پاس کرنے میں کامیاب ہو گیا مگر کالج میں داخلے کا وقت آیا تو معاشی تنگ دستی آڑے آئی اور اُس نے مزید تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ پھر اس کے تین ہم جماعت جو مہران ماڈل سائنس کالج پنّوں عاقل میں ایف ایس سی کرنے کے خواہشمند تھے‘ اُس کے گھر پہنچے اور تعلیمی اخراجات کی ذمہ داری قبول کر کے اُسے اپنے ساتھ لے گئے۔ خودداری سے سرشار محمد یونس اپنے تین دوستوں کے ساتھ پرائیویٹ ہاسٹل میں مقیم ہوا تو اُس نے کمرے کی صفائی اور کچن کا جملہ انتظام سنبھال لیااور اس کے ساتھ ساتھ تینوں ساتھیوں کے لئے نوٹس اور کاپیاں بنانا بھی اُس نے اپنے ذمے لے لیا۔ وہ اُن کے ساتھ کالج جاتا‘ پڑھائی کرتا اور پھر واپس آکر ہاسٹل میں کمرے کی صفائی‘ کپڑوں کی دھلائی‘ کھانا پکائی اور کاپیوں کی لکھائی میں مصروف ہو جاتا۔ یوں اُسے کم و بیش اٹھارہ گھنٹے کام کرنا پڑتا اور اسی دوران 2008ء میں اُس نے ایف ایس سی نمایاں نمبروں کے ساتھ مکمل کرلی۔ 
اب بی ایس سی کے لئے مزید رقم درکار تھی اور داخلے سے لے کر ہاسٹل کے اخراجات کے لئے اُس کے پاس پھوٹی کوڑی نہ تھی۔ اُس نے کراچی جا کر محنت مزدوری کرنے کا فیصلہ کیا اور دو سال تک وہ دیہاڑی دار مزدور بن کر کام کرنے کے ساتھ ساتھ شام کو بس میں بطور کنڈیکٹرنوکری کرتا رہا۔یوں اس نے ستّر ہزار روپے جمع کر لیے اور اس رقم سے گورنمنٹ کالج اوباڑوضلع گھوٹکی میں داخلہ لے کر 2011ء میں وہ بی ایس سی کی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اسی طرح اس نے کلاسز کے بعد بسوں میں پانی کی بوتلیں‘ دال‘ ریوڑی اور جوس بیچ کر شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیر پورمیرس سے ایم اے انٹرنیشنل ریلیشنز کی ڈگری مکمل کی۔ یہ مستقل مزاج نوجوان محمد یونس رُکا نہیں‘ چلتا رہا۔ 2016ء میں اُس نے لاہور آکر سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری کا فیصلہ کیا اور ایک نجی اکیڈمی میں کلاسز پڑھانے کے ساتھ ساتھ خود بھی پڑھتا رہا۔ اُس نے دو مرتبہ سی ایس ایس کا امتحان دیا مگر دونوں مرتبہ انگلش کے پیپرز اُس کے سامنے دیوار بن گئے اور یوں وہ امتحان پاس نہ کر سکا مگر اُس نے لگ بھگ ایک سو پچاس طلبہ و طالبات کو مفت کوچنگ فراہم کی ۔ آج کل کورونا کے باعث اکیڈمی کی بندش کی وجہ سے وہ لاہور میں پھر بطور دیہاڑی دار مزدور محنت میں مصروف ہے اور کسی یونیورسٹی میں ایم فل کے داخلے کا منتظر بھی۔ اپنی تعلیم اور تجربے کی بنیاد پر وہ یونیورسٹی میں پڑھانے کے عوض ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے پُر عزم ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے ہر قیمت چکانے کے لیے تیارہے۔
عزمِ صمیم کی ایک اور جیتی جاگتی تصویر وحدت کالونی تھانہ میں تعینات سب انسپکٹر محمد عرفان ہے جو کہ انچارج انویسٹی گیشن کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا ہے۔ محمد عرفان گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم ایس سی کیمسٹری کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 2007ء میں پولیس میں بطور اے ایس آئی بھرتی ہوا۔ مگر اُس نے پولیس جیسے مشکل محکمہ اور مصروف ترین کارِ سرکار کی انجام دہی کے باوجود اپنی تعلیم کا سفر جاری رکھا اور 2011ء میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہورسے ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔ 2016ء میں اسی عظیم درسگاہ میں بطور پی ایچ ڈی سکالر داخلہ لیا‘ اپنی شبانہ روز محنت کی بدولت حال ہی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی اوراب وہ ڈاکٹر محمد عرفان بن چکا ہے۔ گفتگو کے دوران اس نے بتایا کہ فرائضِ منصبی کی انجام دہی اور شادی شدہ زندگی کی ذمہ داریوں کے باوجود اُس نے اپنے خواب کو عملی حقیقت بنا کر دکھایا۔ وہ راتوں کو جاگ کر اپنی اسائنمنٹس تیار کرتا اور صبح سویرے سرکاری ملازمت کے لئے گھر سے روانہ ہو جاتا۔ چند روز قبل انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب نے ڈاکٹر محمد عرفان کو اپنے دفتر میں بلا کر نقد انعام اور سرٹیفکیٹ سے نوازتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عرفان جیسے قابل اور محنتی نوجوان محکمے کے ماتھے کا جھومر ہیں اور دوسروں کے لئے یقینا قابلِ تقلید مثال ہیں۔
ہمارا تیسرا اور سب سے ننھاہیرو ملتان کا محمد حذیفہ ہے جو پانچ سال قبل گیارہ سال کی عمر میں یتیم ہوا تو اس کے سر پہ ہاتھ رکھنے والے بہت تھے مگر ہاتھ تھامنے والا کوئی نہ تھا۔ وہ کمسن خود اپنے پانچ بہن بھائیوں اور والدہ کا واحد کفیل بن گیا۔ اُس نے ہمت نہیں ہاری‘ بھیک نہیں مانگی اور مصائب سے دلبرداشتہ نہیں ہوا بلکہ عزم و ہمت کا استعارہ بن کر غلہ منڈی ملتان میں ایک شربت والی ریڑھی پر مزدوری کر کے نہ صرف اپنے خاندان کا پیٹ پالا بلکہ اپنی تعلیم پر بھی پوری توجہ مرکوز رکھی۔ گزشتہ سال اُس نے ملتان بورڈ کے میٹرک کے امتحانات میں 1100 میں سے 1050نمبروں کے ساتھ نمایاں پوزیشن حاصل کی۔ ملتان کے ایک نجی کالج نے اسے میرٹ سکالر شپ سے نوازا اور اس طرح وہ اپنے خوابوں کو حقیقت میں ڈھالنے کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ وہ محنت اور لگن سے نہ صرف اپنی بہن بھائیوں کو پڑھائے گا بلکہ اپنی تعلیم مکمل کر کے ایک دن بڑا آدمی ضرور بنے گا۔ وہ عملِ پیہم اور مسلسل جدوجہد پر کامل یقین رکھتا ہے۔ وہ حالات سے گھبرانے والا نہیں بلکہ ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ٹھان چکا ہے۔ پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر اُس کی تصویر وائرل ہوئی تو پاکستان بیت المال نے اُس کی کفالت کی ذمہ داری لینے کا وعدہ کیا۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر بھی قابلِ تحسین ہیں جنہوں نے خود رابطہ کر کے محمد حذیفہ کو ہاسٹل سمیت مکمل مفت تعلیم کی پیشکش کی۔
یہ تینوں قابلِ افتخار کردار بے بسی کی کالی رات میں روشنی کا چراغ ہیں‘ نا امیدی کی کشتِ ویراں میں امیدِ بہار ہیں۔ کنول کے پھول کیچڑ اور گدلے پانیوں میں موسم کی سختی اور باغباں کی آبیاری سے بے نیاز ہو کر مشکل ترین حالات میں کھِل اٹھتے ہیں۔ گھوٹکی کا باہمت محمد یونس‘ پنجاب پولیس سے وابستہ پُر عزم ڈاکٹر محمد عرفان اور ملتان سے تعلق رکھنے والا ہونہار طالب علم محمد حذیفہ‘ یہ سب دراصل کنول کے پھول ہی تو ہیں جو مشکل ترین حالات کے باوجود عزمِ صمیم کی عمدہ مثال بن کر اپنے بڑے خوابوں کو عملی حقیقت بنانے کے لئے کامیابی کی شاہراہ پر گامزن ہیں۔ یقینا یہ قابلِ تعریف بھی ہیں اور قابلِ تقلید بھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں