تعارف نہیں‘ تعاون

صبح سویرے حسبِ معمول پرائمری سکول کے دوستوں کے ساتھ پورے جوش و خروش سے خوش گپیاں جاری تھیں کہ اچانک سناٹا چھا گیا کیونکہ ہمارے ایک لمبے تڑنگے ساتھی نے گائوں سے آنے والے تانگے میں سوار پولیس والوں کو دیکھتے ہی اعلان فرمایا، پولیس! پوری شد و مد سے چہکتا ہوا سکول پل بھر میں ایسے خاموش ہو گیا جیسے کوئی شہرِ مدفون۔ مجھ سمیت سکول کے اکثر طلبہ نے یقینا پولیس کے بارے سن رکھا تھا مگر شاید پہلے کبھی دیکھا نہ تھا اُس دن پہلی مرتبہ پولیس کو اپنے سامنے پا کر ہم خوف سے سہم گئے۔ سکول کی کچی اور ٹوٹی پھوٹی دیوار کی اوٹ لے کر تانگے کی آمد کا انتظار شروع ہوا کیونکہ سڑک سکول کی دیوار کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی تھانے تک جاتی تھی اور جوں جوں تانگہ قریب آتا گیا‘ ہمارے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہوتی گئیں اورسانسیں پھولنے لگیں۔ چند لمحات میں تانگہ ہمارے سکول کے سامنے سے گزرنے لگا، ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ پانچ چھ افراد کے ہاتھ اُن کی قمیصوں کے ساتھ پیٹھ کے پیچھے باندھے گئے تھے اور وہ تانگے کے آگے تقریباً بھاگتے ہوئے جا رہے تھے جبکہ تانگے پر کوچوان کے علاوہ وردی میں ملبوس دو عدد سپاہی موجود تھے جن کا رعب اور دبدبہ بلاشبہ دیدنی تھا، وہ رعونت کی عملی تصویر نظر آئے۔ایک سگریٹ کے کش لگا رہا تھا تو دوسرا ملزمان کو گالیاں دیتا‘ جانوروں کی طرح ہانک رہا تھا۔ اس واقعے کے بعد سے پولیس کا رعب اور خوف‘ دونوں میرے قلب و روح میں مستقل گھر کر بیٹھے۔ 
پولیس سے اصل ٹاکرا تو اس وقت ہوا جب گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھائی شروع کی، سیف بھائی اور میں‘ دونوں موٹر سائیکل پر کالج آنے جانے لگے۔ ڈرائیونگ سیٹ پر سیف بھائی براجمان ہوتے کیونکہ انہیں اپنی مہارت پر ناز تھا جبکہ چھوٹا بھائی ہونے کے سبب میری ذمہ داری کتابیں پکڑ کے پیچھے چپ چاپ بیٹھنا ہوتی تھی کیونکہ زیادہ گفتگو کی وجہ سے اکثر ہم کالج کا راستہ بھول جاتے تھے۔ لاہور ویسے بھی اتنا بڑا شہر ہے اور شروع شروع میں تو سب عمارتیں، چوک‘ چوراہے اور ٹریفک سگنلز ایک جیسے نظر آتے تھے۔ کالج آنے جانے میں سب سے بڑا امتحان ٹریفک پولیس سے نظریں بچا کر اشارہ کراس کرنا تھا۔ ہماری اولین ترجیح چلتی ہوئی ٹریفک میں نکلنا ہوتی مگر اکثر اشارہ بند ملتا تو سیف بھائی بڑی ہوشیاری سے کسی بس یا ویگن کے پیچھے چھپ کر موٹر سائیکل کھڑی کرنے کی ناکام کوشش میں ٹریفک کانسٹیبل کی عقابی نگاہوں کا تارا بن جاتے‘ جو ہمیں دور سے ہی مشکوک انداز میں دیکھتا اور پلک جھپکتے ہی ہمارے قریب آکر ہم سے موٹر سائیکل کے کاغذات اور ڈرائیونگ لائسنس طلب کرتا۔ کم عمری و کم علمی کی وجہ سے لائسنس تھا ہی نہیں اور کاغذات کی فوٹوکاپی اسے قابلِ قبول نہ تھی، اکثر بیس روپے میں معاملہ رفع دفع ہو جاتا۔ یاد رہے کہ 1990 میں پٹرول آٹھ روپے لیٹر تھا اور بہترین ٹیلر شلوار قمیص کی سلائی کے پچیس روپے لیتے تھے۔ اس کے بعد ہم نے ذہانت کا مظاہرہ کیا اور جیب میں کاغذ کے ٹکڑے رکھنے شروع کر دیے‘ جیسے ہی کانسٹیبل ہمارے قریب آتا‘ میں نہایت پُراعتماد انداز میں اس کی مٹھی میں اپنی بند مٹھی کھول دیتا اور وہ اس سے زیادہ تیزی سے اپنی پینٹ کی سائیڈ پاکٹ میں یہ ''معقول رقم‘‘ ڈال لیتا۔ یوں ہم اپنی عزت اور معیشت دونوں محفوظ رکھنے میں کامیاب ہو گئے۔ 
زندگی کے ماہ و سال گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں معاشرتی ڈھانچے کی سمجھ آئی،پولیس کلچر کا ادراک شروع ہوا، طاقت کا معیار اور اخلاقی اقدار کے بارے میں سوجھ بوجھ بڑھنا شروع ہوئی۔ آئے روز پولیس کی وردی، طاقت کا اظہار اور استعمال دیکھنے کو ملتا۔ تعلیم کا سلسلہ ختم ہوا اور رزلٹ آئے ہی گورنمنٹ کالج کمالیہ میں بطور لیکچرار تعیناتی ہو گئی۔ فروری 1996ء میں ایم اے انگلش لٹریچر کے طلبہ کو پڑھانا شروع کیا تو وہاں کئی سٹوڈنٹس مجھ سے عمر میں بڑے اور ڈیل ڈول میں زیادہ تگڑے نظر آئے۔ چند ایک شادی شدہ بھی تھے اور صاحب ِاولاد بھی۔ لاہور سے کمالیہ منتقل ہوا تو ہاسٹل میں قیام ٹھہرا اور ساتھ ہی مقابلے کے امتحانات کی تیاری شروع ہو گئی۔ اسی اثنا میں مقابلے کے تین امتحانات دیے‘ 1998کے اوائل میں تینوں امتحانات کے نتائج آئے اور اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے چند ہفتوں میں ہی تین آفر لیٹر زبھی پہنچ گئے۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے ایف بی آر میں بطور انکم ٹیکس آفیسر کی تقرری کی سفارش کی تو پنجاب پبلک سروس کمیشن لاہور نے اسسٹنٹ ڈائریکٹر لوکل فنڈ آڈٹ اور پنجاب پولیس میں بطور انسپکٹر نوکری کے لیے موزوں قرار دیا۔ یوں پچیس برس کی عمر میں بطور لیکچرار تین مختلف سرکاری نوکریاں ہاتھ لگ جانے کی خوشی یقینا نا قابلِ بیان تھی۔ 
زمانہ طالب علمی سے نکلے تو انگریزی ادب کے استاد کے طور پر معاشرتی مقام میں کوئی خاص فرق نہ پڑا اور نہ ہی محسوس ہوا تھا مگر جیسے ہی تین رعب دار نوکریاں ہاتھ آئیں تو جیسے مجھے سرخاب کے پر لگ گئے ہوں اور قسمت کا ہُما میرے ہی کندھے پہ آن بیٹھا ہو۔ چند دنوں میں سب کچھ بدل گیا‘ رویے تک تبدیل ہو گئے۔ سب دوست‘ رشتہ دار مجھے اہم آدمی سمجھنے لگے۔ بھولے بسرے دوست قربتیں بڑھانے لگے، دور نزدیک کے رشتہ دار چاچے، مامے اور کزن سے کم اپنا تعارف کروانے پر تیار نہ تھے۔ ہر کسی نے ضرورت سے زیادہ عزت دینا شروع کر دی۔وفاقی اور صوبائی پبلک سروس کمیشن کے تین امتحانات میں ٹاپ پوزیشنز پر کامیاب ہونے کی وجہ سے قریبی دوستوں میں میری علمی اور ادبی برتری کی دھاک بیٹھ چکی تھا اور میری ذہانت اور مہارت کا چرچا چار سو ہونے لگا تھا‘ جو مجھے موٹر سائیکل ادھار دینے پر تیار نہ ہوتے تھے‘ اب گاڑیاں لا کر آگے پیچھے پھرنے لگے۔ تحفے تحائف کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ زندگی کی اصل حقیقت کیا ہے ‘لوگوں کے مفادات کتنے اہم ہیں‘اور میری اصل حیثیت کیا ہے‘ مجھے سب معلوم ہو گیا!
یکے بعد دیگرے تین تقرر نامے ملنے پر جہاں بہت زیادہ خوشی ہوئی وہاں ایک شعبے کا انتخاب بھی بہت بڑا مسئلہ بن گیا۔ ہر شخص کی رائے مختلف تھی، نقطہ نظر اور زاویہ ٔنگاہ یکسر الگ تھا۔ جوملتا ‘وہ اپنے تجربے کے مطابق رائے دیتا اور اسے حتمی انتخاب بنا کر پیش کرتا۔ کوئی پولیس کے حق میں تھا تو کوئی ایف بی آر کے گن گاتا۔ تیسرا لوکل فنڈ آڈٹ اور صوبائی سول سروس کی خوبیوں کا راگ الاپتا، یہ سب کچھ مجھے ایک ذہنی کشمکش میں مبتلا کرنے کے لیے کافی تھا اور میں کوئی واضح فیصلہ لینے میں ناکام رہا،حتیٰ کہ آفر لیٹر قبول کر کے جوائن کرنے کے دن قریب آگئے۔اس کشمکش میں لاہور میں ایک ٹریفک کانسٹیبل نے مجھے فیصلہ کرنے میں بہت مدد دی۔ایک روز شاپنگ کیلئے کلمہ چوک کی طرف جاتے ہوئے ایک کانسٹیبل نے میری موٹر سائیکل روکی اور چابی نکال کر اپنی جیب میں ڈال لی۔ موٹر سائیکل کے کاغذات کا پوچھا تو میں نے رجسٹریشن کی کاپی پیش کی‘ جسے وہ قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ میں نے بطور لیکچرار اپنا تعارف کرواتے ہوئے نہایت ادب سے اُسے قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ مجھے بطور استاد عزت دے اور میری بات پر یقین کرے کہ موٹر سائیکل میری ذاتی ملکیت ہے مگر اس کانسٹیبل نے میری بات مکمل طور پر سنی اَن سنی کر دی، اس کی طاقت اور اختیار کے سامنے میں مکمل بے بس تھا۔ کوئی بیس منٹ کی سعیٔ لا حاصل کے بعد اُس نے ''دستِ تعاون دراز کرنے‘‘ کا مطالبہ کیا اور بڑی گرم جوشی سے میری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا‘میں نے بھی از راہِ مروت جیب سے 50روپے کا نوٹ نکالا اور اُس کی مٹھی میں تھما دیا۔اس پچاس روپے کے عوض مجھے پولیس کلچر کی مکمل سمجھ آگئی ( جسے بدلنے کے لیے مجھ سمیت 300انسپکٹرز کی تقرری کا عمل مکمل ہو چکا تھا)اُس کانسٹیبل نے موٹرسائیکل کی چابی مجھے واپس کرتے ہوئے زیرِ لب مسکراہٹ کے ساتھ کہا ''بائو جی! تعارف نہیں‘ تعاون کیا کریں!‘‘ میں مسکرایا، موٹر سائیکل کو کِک ماری اور شاپنگ کا ارادہ ترک کر کے گھر کی راہ لی۔اب مجھے اپنے محکمے کے انتخاب میں ذرہ بھر بھی شک نہ رہا اور میں نے پنجاب پولیس بطور انسپکٹر جوائن کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں