اس عالمِ آب و گِل میں ہر فردکسی نہ کسی چیزکی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے۔ بھوکا کھانے کی تلاش میں ہے تو مریض صحت کیلئے بے چین ہے‘ قیدی رہائی کا متلاشی ہے تو پولیس والا اشتہاری کی کھوج میں سرگرداں ہے، بچھڑنے والے کی تلاش میں شہر شہر، گائوں گائوں، گلی گلی منادی کی جارہی ہے تو بچھڑنے والا اپنوں کی تلاش میں بے قرار تڑپ رہا ہے۔ مزدور کام کی تلاش میں ہے تو آجرمزدور ڈھونڈتا پھرتا ہے‘ محتاج سخی کی کھوج میں ہے تو غنی مستحق لوگوں کی تلاش میں ہے۔ بھٹکے ہوئے ر استہ ڈھونڈ رہے ہیں تو راستے کے مسافر اپنی منزل کا پتہ پوچھتے پھرتے ہیں، طالب علم اچھے استاد ڈھونڈنے نکلے ہیں تو اساتذہ با ادب اور سلجھے ہوئے شاگرد ڈھونڈ رہے ہیں۔ محبت والے محبوب کی کھوج میں ہیں تو چاہے جانے کی لذت سے عاری اپنے محب کے متلاشی ہیں۔ اہلِ نظر فیض بانٹنے کیلئے خوش نصیب اہلِ دل ڈھونڈ رہے ہیں تو روحانیت کی منزل کے مسافر کسی اہلِ نظر کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ قسمت کے مارے بد نصیب اچھے دنوں کی تلاش میں ہیں تو خزاں رُت میں اداس پنچھی آمدِ بہار کے منتظر ہیں۔ یہ تلاش ایک سفر ہی تو ہے اور سب انسان اس سفر پہ نکلے ہوئے ہیں، راستے مختلف، منزلیں جُدا جُدا، رختِ سفر اپنا اپنا مگر تلاش ہے کہ ہمہ وقت جاری و ساری ہے۔ ٹھٹھرتی سخت سردی میں ننگے کانپتے بے کس لوگوں کو تن ڈھانپنے کے لیے کپڑوں کی تلاش ہے تو بے نوا سڑک کنارے کھلے آسمان کے نیچے سونے والوں کو جھونپڑی کی طلب ہے۔ جھونپڑی والے کسی پکی چھت کے متمنی ہیں تو چھوٹے گھر والے بڑے گھر کی آرزو اپنے دل میں بسائے بیٹھے ہیں۔ سنگل سٹوری والا ڈبل کرنے کی آس لگائے بیٹھا ہے تو پرانے شہر میں آباد شخص نئے شہر کی گیٹڈ کمیونٹی کا حصہ بننے کیلئے بے تاب ہے۔ پیدل چلتا ہوا سائیکل والے پہ رشک کر رہا ہے تو سائیکل والا موٹر سائیکل والے کو اپنا ہیرو سمجھتا ہے۔ موٹر سائیکل والا اب کار والے سے مرعوب نظر آتا ہے۔ چھوٹی کار والا ماڈل تبدیل کرنے کے چکر میں ہے اور بڑی کاروں والے بے چارے ذاتی جہاز والوں سے چھپ کر بیٹھے اپنی نیندیں حرام کر رہے ہیں۔ جہاز والے دولت اور طاقت ہونے کے باوجود عزت ڈھونڈ رہے ہیں، عزت مل گئی ہے تو شہرت کی تلاش شروع ہو چکی ہے اور سب کچھ مل گیا ہے تو سکون کی تلاش جاری ہے جو یکسر ناپید ہے۔
مادہ پرستی، لوٹ کھسوٹ اور مالی پریشانیوں میں الجھے والدین کو ان کے بچے ڈھونڈ رہے ہیں جن کے پاس اپنے بچوں کے لیے وقت نہیں اور وہ والدین اپنے بچوں کو ڈھونڈ رہے ہیں جو گھر میں رہتے ہوئے بھی موبائل اور لیپ ٹاپ سکرین کے ساتھ ہمہ وقت چمٹے رہتے ہیں چند ساعتیں بھی اپنے والدین کے پاس بیٹھ کر نہیں گزار سکتے۔ بھائی بھائی کو ڈھونڈتا پھرتا ہے تو بیٹی ماں کی تلاش میں ہے ‘ بیٹا اپنے باپ کا شانہ ڈھونڈرہا ہے جہاں وہ سر رکھ کر اپنے لاڈ پیار کا اظہار کرے تو تھکا ہارا باپ دن بھر کی محنت مشقت سے نڈھال گھر آکر اپنے بچوں کی تلاش میں ہے جو اس کے کاندھے دبائیں اور اس کی تھکاوٹ اتارنے کا سبب بن جائیں۔ جوان بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے کیلئے پریشان ماں کو خدا خوفی سے سرشار ایسے بیٹے کے والدین درکار ہیں جو دو جوڑوں میں لپیٹ کر اسے بیاہ لے جائیں اور ساری عمر اسے اپنے گھر میں پلکوں پر بٹھا کر آسودہ زندگی کی ضمانت دیں۔ دوسری طرف وہی ماں اپنے بیٹے کے لیے حسن کی دیوی ڈھونڈ رہی ہے جس کے آسودہ حال والدین اپنی بیٹی کو دو کنال کا گھر، بڑی گاڑی، نقدی، زیورات کے علاوہ بینک بیلنس سے بھی مالا مال کر دیں۔ تلاش جاری ہے ابھی کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ رشتے ناتے اب مالی آسودگی کے ساتھ مشروط ہو گئے ہیں، محبت، اخلاص اور سچائی کے لیے تلاشِ گمشدہ کے اشتہار جگہ جگہ لگے نظر آتے ہیں مگر یہ سب ناپید ہو گئے، شاید ہمیشہ ہمیشہ کیلئے!
اخبارات کے مطالعے میں کسی ایسی شہ سرخی کی تلاش ہے جس میں امید ہو، خیر ہو، خوشحالی کی نوید ہو یا پاکستان کے روشن مستقبل کی پیش بندی کی خبر ہو، سو سے زائد ٹیلی وژن چینلز کی کسی ایسی ہیڈ لائن یا بریکنگ نیوز کی تلاش میں ہیں جس میں سنسنی نہ ہو، خوف یا موت کا ذکر نہ ہو، حادثہ نہ ہو، لاشیں نہ ہوں۔ کوئی ایسا ٹاک شو جس میں شریکِ گفتگو مہمانوں کی دھلائی نہ کی جا رہی ہو، کوئی پروگرام جو گھر میں بچوں کے ساتھ انجوائے کیا جا سکے یا ایسا اشتہار جس میں کسی دوشیزہ کو ڈریم گرل نہ بنا کر دکھایا گیا ہو، تلاش جاری ہے مگر کامیابی نظر نہیں آتی۔
دورانِ سفر سڑک پر اس ٹرک ڈرائیور کی تلاش ہے جس سے اس کے صنم نے وفا کی ہو یا پھر اس صنم بے وفا کی‘ جس کے غم میں وہ شاعر بن گیا اور جس کا اظہار وہ ٹرک کے عقب میں انتہائی کرب ناک شاعری میں کرتا ہے۔ تعلیم کی کمی کی وجہ سے اس کے اشعار محض قافیہ ردیف کے ملاپ تک محدود ہوتے ہیں، اوزان ایسے کہ اوسان خطا کر دیتے ہیں مگر اس مظلوم ٹرک ڈرائیور کے ساتھ جو محبت کے نام پر کھلواڑ ہوتا ہے اس کا تذکرہ بدرجہ اتم ملتا ہے۔ ''اگر دنیا میں ہوتی تو ملتی وفا‘‘، بہت اعلیٰ مصرع ہے۔ اسی طرح کا یہ شعر اس کی زندگی کے سفر کا عکاس ہے ؎
دیکھ استاد قسمت کا چکر
صبح کراچی، شام سکھر
یہی حال رکشہ ڈرائیور کا ہے۔ اکثر رکشوں کے پیچھے درج عبارتیں اور اشعار زندگی سے گلے شکوے کا بے لاگ اظہار ہیں اور یہ شعر تو تخلیقی کمال کا مظہر ہے ؎
جس نے ماں کو ستایا/ اس نے رکشہ ہی چلایا
مگر اس سے کہیں زیادہ پختہ ادب ہمیں بسوں کے پیچھے درج عبارات میں ملتا ہے اور میں ایک مدّت سے اس ادیب کی تلاش میں ہوں جس سے میں نے اردو ادب میں تمثیل نگاری، تشبیہ اور استعارے کا استعمال سیکھا مگر مجھے وہ تخلیقی فنکار آج تک مل نہیں سکا۔ ہر بس وقت کے ہاتھوں کئی بار ''دلہن‘‘ بنتی ہے، زمین پر چلنے کے باوجود وہ طیارے کے نام سے منسوب ہوتی ہے اور ڈرائیور والا دروازہ ''پائلٹ گیٹ‘‘کا نام پاتا ہے۔ یہ سب اردو ادب کی گراں قدر خدمات ہیں جن کا برملا اعتراف کرنا لازم ہے۔
میں کالم کی آخری سطور لکھ رہا تھا کہ اچانک پروفیسر رحمت علی المعروف ''بابا جی ‘‘اور اُن کے ہونہار شاگرد ''جیدی میاں ‘‘پہنچ گئے۔ استفسار پر میں نے کالم کا عنوان بتایا تو بابا جی کے پرنُور چہرے پر جلال کے آثار نمایاں ہوئے اور گرج دار لہجے میں مخاطب ہوئے، ''اسد میاں! میں ایسے تونگر اور سخی کی تلاش میں ہوں جس کی سخاوت نے اسے تنگ دست کر دیا ہو یا ایسا عاجز شخص مل سکے جس کی عاجزی نے اسے اللہ اور اس کی مخلوق کے سامنے بے توقیر کیا ہو۔ میں اس شخص کو ڈھونڈتا پھرتا ہوں جس نے سچے دل سے توبہ کی ہو،رات کے پچھلے پہر میں اٹھ کر اللہ کے حضور سجدوں میں سر جھکایا ہو اور اپنی جبین نیاز سے اس کی واحدانیت کا برملا اقرار کیا ہو تو اس کی دعا رد کی گئی ہو۔ مجھے آج تک وہ فرمانبردار بیٹا نہیں مل سکا جس نے اپنے بوڑھے ماں باپ کی خدمت کی ہواور تابع فرمانی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ہو اور پھر اس کی اپنی اولاد نے اس سے پیار نہ کیا ہو۔ وہ خوش نصیب شخص نہیں ملا جس نے اپنی اولاد پر حرام کا لقمہ حرام قرار دیا ہو اور وہ بخت آور نہ ہوئے ہوں‘‘۔ بابا جی کا چہرہ لال ہو چکا تھا اوران کی آواز رِند گئی۔ جیدی میاں کی آنکھیں بھی بھیگ چکی تھیں۔ میں نے پوچھا تو جیدی میاں نے کمال کا جملہ بولا اور میں لاجواب ہو گیا۔ کہنے لگا ''یہ اشکِ ندامت ہیں اور اقرار ہیں اس کوتاہی کا کہ میں بابا جی کی شاگردی اور محبت کے باوجود علم و دانش کے سمندر سے عقل و حکمت کے وہ موتی تلاش نہیں کر سکا جو ہمارے لیے سرمایہ حیات سے کم نہیں‘‘۔ علامہ اقبال کے یہ دو اشعار اس المیے کی خوب وضاحت کرتے ہیں :
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا