جب کالم لکھنا شروع کیا تو اپنی ذات سے وعدہ کیا تھا کہ صرف مثبت موضوعات کو ہی زیرِ بحث لانا ہے، منفی اشاریوں اور مایوسی پھیلانے والے اعداد و شمار اور واقعات سے چشم پوشی کرنی ہے کہ پہلے ہی معاشرے میں بے چینی اور اضطراب کی کمی نہیں، مایوسی کا چورن بہت بکتا ہے اور اس کے خریدار بھی بہت ہیں مگر مایوسی گناہ ہے اور گناہ کا دھندہ خود ایک معیوب عمل ہے لہٰذا صرف زندگی پہ ہی لکھا جائے، خزاں کی رُت میں بھی چمنِ زیست میں امید ِ بہار کے پھول کھلتے ہوئے نظر آئیں تو ملک میں امن و آشتی اور خوشحالی کے رنگ نمایاں ہو سکتے ہیں۔ امید ہی زندگی ہے اور دراصل یہی بڑی منزل کے مسافر کا رختِ سفر بھی ہے اور مشکل کی گھڑی میں متاعِ زیست بھی۔ امید ہی بڑے مقاصد کے حصول میں مضبوط ارادوں کو تقویت دیتی ہے اور انسان کے بڑے خواب دیکھنے میں مددگار بھی بنتی ہے۔ لہٰذا ہمیشہ کوشش کی ہے کہ اپنی تحریروں کو زندگی، امید، خواب، محبت، محنت اور کامیابی جیسے موضوعات سے ہی مزین کیا جائے اور اپنی نوجوان نسل کو جہدِ مسلسل اور عملِ پیہم کی ترغیب دی جائے، تربیت سے روشناس کیا جائے اور موٹیویٹ کیاجائے کہ ' ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘ پھر یہ بھی عہد کیا کہ سیاسی کشمکش اور مسائل سے دور رہنا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور سیاسی ایوانوں میں محض اقتدار کے حصول کی جنگ لڑی جاتی ہے اور اس جنگ میں سب کچھ جائز قرار پاتا ہے جبکہ میں صاحبِ دل ہوں اور 'دلِ ماروشن‘ کے عنوان سے کالم لکھتا ہوں تو پھر مایوسی کے اندھیرے کی گنجائش کہاں اور سیاسی بکھیڑوں میں اپنے قارئین کو کیسے الجھائیں جبکہ زندگی اتنے خوبصورت رنگوں سے سرشار ہے اور وطنِ عزیز میں انعامات ِ خداوندی کی کمی نہیں تو کیوں نہ شکرانِ نعمت کی بات کی جائے۔
مگر آج کے کالم میں ان دونوں اصولوں سے انحراف مجبوری بھی ہے اور ضرورت بھی کہ سالِ نو کا آغاز ہی آگ اور خون کے کھیل سے ہوا ہے۔ ابھی تو گزشتہ سال کے مصائب و آلام اور رنج و غم سے لگے زخم تازہ تھے۔ کورونا جیسی مہلک وبا سے لقمۂ اجل بن جانے والے اٹھارہ لاکھ سے زائد بد قسمت افراد کی قبروں پہ گھاس خشک نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی پھولوں کی مہک ختم ہوئی تھی کہ 2021ء بھی اپنے رنگ دکھانے لگا۔ وہی ظلم و ستم کا راج، وہی موت کے ڈیرے اور خوف کے بسیرے جو چار سو اپنے پنجے گاڑے دکھائی دیے۔ معصوم اور مظلوم اپنی حالتِ زار اور بے بسی کے حصار میں جکڑے زندگی کی جنگ ہارتے ہوئے نظر آئے۔ نئے سال کی پہلی شب ہی وطنِ عزیز کے دار الحکومت اسلام آباد میں بائیس سالہ اسامہ ستی پولیس کے ہاتھوں مارا گیا اور اپنی جوانی کے سب خواب، ساری خواہشیں اور تمام ارادے اپنے ساتھ لے گیا مگر اپنے بوڑھے والدین اور بہن بھائیوں کو عمر بھر کا روگ دے گیا۔ اسے پولیس مقابلے کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی مگر ضلعی انتظامیہ کی طرف سے کی جانے والی جوڈیشل انکوائری مکمل ہوئی اور اس کی رپورٹ کے مندرجات منظرِ عام پر آنے سے واضح ہو گیا کہ بدقسمت اسامہ کو ٹارگٹ کر کے گولیوں سے چھلنی کیا گیا اورذاتی رنجش اور انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ طاقت کا بدترین استعمال اور نہتے معصوم شہری کا خوفناک ترین استحصال ہے جس سے پنڈی، اسلام آباد‘ جڑواں شہروں کے مکین خوف اور اضطراب کا شکار ہیں کہ ان کی اور ان کے بچوں کی زندگی کتنی محفوظ ہے۔ اسامہ کی ہلاکت نے ایک دفعہ پھر سانحہ ساہیوال تازہ کر دیا اور ماڈل ٹائون کی پولیس گردی دوبارہ یادوں میں ابھر کے سامنے آئی مگر یہ حادثات اور مظالم قصۂ پارینہ ہی بن جاتے ہیں۔ جانے والے راہِ عدم کے مسافر محض اپنے پیاروں کے لیے زندگی بھر کے غم کا ورثہ چھوڑ جاتے ہیں۔ نوجوان اسامہ کی موت پر ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل اداس ہے۔
ابھی اسامہ کی بے گناہ ہلاکت پر غم و غصہ جاری ہی تھا کہ بلوچستان کے علاقے مچھ میں ہزارہ برادری پر قیامتِ صغریٰ برپا کر دی گئی، دو اور تین جنوری کی درمیانی شب گیارہ افراد کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔بد قسمتی سے گزشتہ اٹھارہ برس سے ہزارہ برادری آگ اور خون کے اس کھیل میں اُن پاکستان دشمنوں کے نشانے پرہے جو ملک میں افراتفری، لسانی اور مذہبی انتشار اور بد امنی کی آگ لگانا چاہتے ہیں۔ ہمسایہ ملک کی ریشہ دوانیاں بلوچستان میں کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد آشکار ہو چکی ہیں۔ پاکستان کی مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بے پناہ قربانیوں اور موثر حکمتِ عملی کی بدولت پاکستان کے دشمنوں کے دانت کھٹے ہو چکے ہیں اور نائن الیون کے بعد افغانستان کے بعد پاکستان کو اگلا ہدف بنانے کا خواب چکنا چور ہو چکا مگر ہمارا دشمن دن رات پاکستان میں بدامنی اور افراتفری پھیلانے کے لیے بے پناہ وسائل خرچ کر رہا ہے۔ سی پیک اور گوادر پورٹ کے تیزی سے مکمل ہوتے ہوئے منصوبے اور ان سے جڑے معاشی ترقی اور صنعتی انقلاب نے ہمارے دشمن کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ حال ہی میں یورپ بھر میں اس کے کئی نیٹ ورک بے نقاب ہوئے ہیں جن کا واحد مقصد پاکستان کے خلاف زہر اگلنا تھا۔ اب مودی سرکار کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں مل رہی اور اپنے مذموم مقاصد میں ناکامی کے زخم چاٹ رہی ہے۔ یہ سب حقائق اپنی جگہ مگر ہزارہ برادری کی قربانیاں اور غم کی گھڑی یقینا ایک کڑی آزمائش تھی۔ ٹھٹھرتی سردی میں وہ کئی روز تک لاشیں کھلے آسمان تلے رکھ کر اپنے پیاروں کے قاتلوں کی گرفتاری اور انہیں بے نقاب کرنے کا مطالبہ کرتے رہے۔ بالآخر حکومت کی یقین دہانیاں کام آئیں‘ پھر وزیر اعظم خود ان کے پاس پہنچے اور ان سفاک قاتلوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے عزم و یقین دہانی کے ساتھ ہزارہ برادری کی اشک شوئی ہوئی مگر ان کے دکھ کا مداوا کبھی نہ ہو پائے گا۔ جس گھر سے جنازہ اٹھتا ہے وہاں سے خوشیاں روٹھ جاتی ہیں، امنگیں چھوٹ جاتی ہیں، خواہشیں ٹوٹ جاتی ہیں اور مایوسی اور غم کے ڈیرے میں خوف کے بسیرے ہونے لگتے ہیں۔ ہزارہ کے غم میں ہر آنکھ اشکبار ہوئی اور ملک بھر میں سوگ کا عالم رہا۔
نئے سال کا آغاز عالمی سیاست میں بھی بھونچال لے کر آیااور پہلے ہی ہفتے کے آخر میں صدر ٹرمپ کے حامی کانگریس پر چڑھ دوڑے اور نومنتخب صدر جوبائیڈن کی توثیق کیلئے بلائے جانے والے اجلاس کو تہ و بالا کرنے میں کامیاب رہے۔ امریکی تاریخ میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا اور ڈھائی سو سالہ امریکی سیاسی تاریخ میں چوالیس صدور کے ادوار میں اتنی سیاسی کشمکش اور کشیدگی کبھی دیکھنے کو نہیں ملی جتنی ٹرمپ کے دورِ حکومت میں نظر آئی۔ بالخصوص آخری سال میں کورونا وبا اور اس سے جڑے معاملات میں صدر ٹرمپ نے محض الفاظ کی جنگ لڑی اور امریکی قوم کو تقسیم کیا، چین کے خلاف محاذ کھولا عالمی ادارۂ صحت سے امریکا کو باہر نکالا اور کورونا کے ہاتھوں امریکیوں کی ہلاکتوں پر ٹھوس عملی اقدامات کرنے سے گریز کیا۔ ہزاروں کی تعداد میں امریکی روزانہ مرتے رہے اور ان کا صدر ماسک تک نہ پہن سکا۔ وہ امریکا کے صدارتی انتخابات کو جعلی اور فراڈ قرار دیتا، اپنے حامیوں کو مشتعل کرتا رہا اور پھر چھ جنوری کو امریکی سیاست، جمہوریت اور عالمی قیادت کے سب دعوے پوری دنیا میں مذاق بن کر رہ گئے۔ یوں ٹرمپ نے امریکا کی سیاسی اور جمہوری قدروں اور اصولوں کی جڑیں ہلا کر رکھ دیں جنہیں دوبارہ مضبوط بنانے میں کافی وقت لگے گا۔ اب صدر ٹرمپ کے ہنگامی مواخذے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔
اسامہ کی ہلاکت سے لے کر ہزارہ برادری پردشمن عناصر کے وار تک اور پھر امریکی سیاست میں انہونی نے نئے سال آغاز خون آلود کر دیا ہے اور ہر طرف موت، خون، آنسو، خوف اور مایوسی کے ڈیرے ہیں۔ پہلے ہفتے میں ہی ظلم کا راج، جبر کا دور دورہ اور سفاکی کا چرچا رہا۔ انسانیت، اخلاقیات اور قدریں طاقت اور اختیار کے سامنے بے بس نظر آئیں۔ان تین کربناک حادثات نے لفظوں سے مٹھاس چھین لی، پھولو ں سے رنگ مٹا دیے اور کالم کے الفاظ جذبات میں مچل کر سالِ نو کا پہلا نوحہ بن کر آنکھوں سے چھلک گئے ۔ احمد فراز نے سچ ہی تو کہا تھا ؎
آئو رو لیں فرازؔ دنیا کو ؍ خوش دلِ نامراد ہو کچھ تو