جولائی 2001ء میں سی ایس ایس کے انٹرویو سے فارغ ہوتے ہی چالیس روزہ چھٹی ختم ہو گئی، میں نے واپس پولیس لائن حاضری دی۔ دو دن بعد ایس ایس پی کے دفتر سے حکم نامہ ملا کہ صاحب یاد فرما رہے ہیں۔ چھٹی پر جانے سے قبل میں تھانہ فیکٹری ایریا کا ایس ایچ او تھا اور اُس سے قبل تھانہ صدر فیصل آباد، فوراً دل میں خیال آیا کہ ہو نہ ہو اب پھر کسی تھانے میں بطور ایس ایچ او تعینات کرنے کیلئے ایس ایس پی صاحب کی طرف سے بلاوا آیا ہے۔ پہلی دونوں تعیناتیوں میں مجھے دس ہزار روپے ماہانہ انٹرٹینمنٹ الائونس ملتا تھا اور دو تین مرتبہ اچھی کارکردگی کی وجہ سے تعریفی سرٹیفکیٹ کے ساتھ نقد انعام بھی مل جاتا تو ماہانہ تیس ہزار کے لگ بھگ رقم اکٹھی ہو جاتی اور پورا مہینہ عزت و آبرو سے گزر جاتا۔ یہی سوچتا ہوا میں ایس ایس پی صاحب کے دفتر پہنچا کہ اگر مہتمم تھانہ کا حکم نامہ ملا تو پھر ماہانہ دس ہزار روپے کا مطالبہ کروں گا مگر میری توقعات کے برعکس ایس ایس پی صاحب نے مجھے فیلڈ پوسٹنگ کے بجائے اپنا سٹاف آفیسر تعینات کر لیا اور کہنے لگے ''ان شا ء اللہ اب آپ نے جلد ہی سی ایس ایس کوالیفائی کر لینا ہے لہٰذا ابھی سے آپ وردی پہننا بند کر دیں اور سادہ کپڑوں میں ہی نوکری کریں ‘‘۔ ان کے اعتماد اور یقین سے بھرپور الفاظ میرے لئے باعثِ تسکین بھی تھے اور قابلِ فخر بھی۔یہاں میری ذمہ داریوں میں ایس ایس پی آفس میں پبلک ڈیلنگ اور میڈیا مینجمنٹ کے علاوہ دو درجن سے زائد وہ کیسز بھی تھے جو آئی جی صاحب کی طرف سے تفتیش کیلئے تفویض کئے گئے تھے، مجھے اُن کیسز کی میرٹ پر پیروی کرنا تھا۔
شام واپسی پر میں نے وہ تمام فائلز اپنی گاڑی میں رکھیں اور پولیس ریسٹ ہائوس میں لے آیا۔ رات کو فائلز کو دیکھنا شروع کیا تو پتا چلا کہ زیادہ تر مقدمات اقدامِ قتل، ریپ، اقدامِ ریپ کے علاوہ لڑائی جھگڑے اور ضرر کی دفعات کے تحت درج کئے گئے تھے۔ عمومی طور پر ان جرائم کے مقدمات کی نوعیت بہت پیچیدہ اور مشکل ہوا کرتی ہے۔ دیہی علاقوں میں جہالت اور انا پرستی کی بنیاد پر قریبی رشتہ داروں میں لڑائی جھگڑے اور رشتہ سے انکار کے عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ زمین کی تقسیم، پانی کی وارہ بندی اور فصل کے اجاڑنے پر خونیں لڑائیاں لڑی جاتی ہیں اور پھر انا کی تسکین کیلئے بے گناہ لوگوں کو مقدمات میں پھنسا دیا جاتا ہے۔ مال مویشی بیچ کر اور آڑھتی سے ادھار پکڑ کر تفتیشی کو پیسے دیے جاتے ہیں اور جھوٹی انا اور عزت و وقار کے تحفظ اور بچائو کی خاطر مخالفین پر قافیۂ حیات تنگ کرنے کا ہر حربہ آزمایا جاتا ہے۔ چونکہ میں خود ایسے ماحول میں پلا بڑھا ہوں تو مجھے دیہی وسیب اور اس سے جڑی سماجی برائیوں کا بخوبی ادراک تھا اور بطور ایس ایچ او ان تمام معاملات سے نبرد آزما بھی ہو چکا تھا۔ اگلے ہی روز ایس ایس پی صاحب نے مجھے ان مقدمات کی تفصیلی فہرست تیار کرنے اور ان کی پیروی کی حکمتِ عملی بنانے کا حکم دیا۔
دو دن تک میں ان مقدمات کو تفصیل سے پڑھتا رہا، ابتدائی رپورٹ سے لے کر چالانِ ضمنی تک سب کچھ باریک بینی سے دیکھا، گواہان کے بیانات بھی پڑھے، مختلف تفتیشی افسران کی ضمنیاں بھی ملاحظہ کیں، اس دوران بہت سے تضادات اور مشکوک حالات و واقعات ابھر کر سامنے آئے۔ کچھ مقدمات پر پیسے کی چمک دمک بھی نظر آئی۔ میں نے سفید صفحات پرحاشیے لگائے، جملہ مقدمات کی دفعات کی رو سے فہرست بنائی اور ہر مقدمے کے سامنے اپنی مختصر سمری تحریر کی اور دو دن بعد ایس ایس پی صاحب کے سامنے اپنی حکمتِ عملی تیار کر کے رکھ دی۔ میں نے انہیں اعتماد میں لیا کہ زیادہ تر مقدمات جھوٹی انا کی تسکین اور رشتہ داروں کے درمیان مختلف وجوہات پر قائم کئے گئے ہیں۔ ساتھ ہی درخواست کی کہ مجھے تفتیش میں مکمل آزادی اور خودمختاری دی جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے‘ جو قبول ہو گئی۔
میں نے ہفتہ میں دو مقدمات کی اعلانیہ تفتیش متعلقہ گائوں کی جامع مسجد میں کرنے کا فیصلہ کیا۔ پروگرام کے مطابق گائوں کی مسجد میں نمازِ ظہر یا عصر کے بعد امام مسجد کی موجودگی میں ملزم اور مدعی کے علاوہ جملہ گواہان بھی طلب کئے جاتے۔ سب اکھٹے نماز ادا کرتے اور بعد میں مسجد کے صحن میں ابتدائی رپورٹ سے لے کر گواہان کے بیانات سمیت تمام ضمنی تفصیلات کو جانچا اور پرکھا جاتا اور حقائق تک رسائی ممکن بنانے کے لئے قرآنِ پاک پر حلف کے ساتھ گفتگو کی جاتی۔ یہاں پر واضح رہے کہ مقررہ تاریخ سے پہلے مجھے جانے کہاں کہاں سے فون کروائے جاتے، سفارشی حضرات بالمشافہ ملنے بھی تشریف لاتے مگر میں سب کو متعلقہ مسجد میں مقررہ تاریخ پر تشریف لانے کا کہہ دیتا کہ سب کے سامنے انصاف کو یقینی بنایا جائے گا مگر کسی بھی انکوائری کے وقت کوئی سفارشی نظر نہیں آیا۔ مسجد میں اور قرآن مجید کی موجودگی میں کی گئی تفتیش میں سچ جھوٹ سے ایسے الگ ہو جاتا جیسے ابلے ہوئے انڈے کی سفیدی زردی سے جدا نظر آتی ہے۔ ایف آئی آر جھوٹ کا پلندہ ہو تو گواہان کے بیانات تضادات کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ من گھڑت قصہ محض شریکوں کو نیچا دکھانے اور اپنی جھوٹی انا کی تسکین کے لئے گھڑا جاتا ہے اور اپنی مرضی کے افسران سے تفتیش کروائی جاتی ہے۔ اس دوران دوسرا فریق اپنے اثر و رسوخ سے تفتیشی تبدیل کروا لیتا ہے اور معاملہ لٹک کر رہ جاتا ہے۔ البتہ مجھے سچ تلاش کرنے میں کوئی خاص دشواری نہ ہوتی کیونکہ مسجد میں فریقین کی موجودگی بذاتِ خود انصاف کے قرین ترین نظام کی ضمانت ہوتی تھی لہٰذا ایک ایک کر کے میں نے دو درجن کے قریب مقدمات حل کئے۔ بیشتر مقدمات انکوائری کے وقت ہی ختم ہو جاتے اور فریقین صلح کو ترجیح دیتے۔ امام مسجد صاحب دعا کرواتے اور بعد میں گائوں سے مٹھائی منگوا کر مسجد میں منہ میٹھا کیا جاتا۔ اگلے روز فریقین کو ایس ایس پی صاحب کے سامنے پیش کیا جاتا اور مقدمے کے اخراج پر اتفاق کیا جاتا۔ اس انوکھے طریقۂ تفتیش اور مقدمات کے جلد حل ہونے پر ایک معروف انگریزی جریدے کے بیورو چیف نے ایک خصوصی فیچر بھی لکھا اور اسے بے پناہ سراہا۔
ایس ایس پی صاحب کے الفاظ مبارک ثابت ہوئے اور سی ایس ایس کا رزلٹ انائونس ہوا تو میں کامیاب امیدواروں کی فہرست میں شامل تھا۔ سول سروسز جوائن کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا۔ تربیت کے مختلف مراحل سے گزرتا ہوا لاہور میں اسسٹنٹ کمشنر انکم ٹیکس سے سفر شروع ہوا، پھر ڈیپوٹیشن پر ضلعی حکومت، پنجاب اور وفاقی حکومت کے مختلف محکموں میں خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ پھر بطور ایڈیشنل کمشنر انکم ٹیکس تعینات رہا مگر وہ مسجد ماڈل میری یادداشت میں تازہ بہ تازہ رہا۔ چند ماہ قبل میں کمشنر کے عہدے پر تعینات ہوا تو ایک بار پھر میں نے اپنے ڈویژن کے چاروں اضلاع میں مسجد ماڈل لاگو کرنے کا پروگرام ترتیب دیا۔ اب مہینے کے چار جمعے چاروں اضلاع کی جامع مساجد میں باری باری ادا کئے جاتے ہیں جس میں اس ضلع کی انجمن تاجران، میڈیا کے نمائندے، چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے علاوہ ٹیکس بار اور سول سوسائٹی بھی شریک ہوتی ہے۔ جمعہ کے خطاب میں ٹیکس ادائیگی کے طریقہ کار اور اس کی ملکی تعمیر و ترقی میں کلیدی اہمیت میری گفتگو کا موضوع ہوتی ہے۔ نماز کے بعد کھلی کچہری میں تاجر برادری اور ٹیکس دہندگان کے مسائل اور شکایات کے حل کے لئے عملی اقدامات کیے جاتے ہیں اور یوں ایف بی آر اور ٹیکس گزاروں کے درمیان مکمل اعتماد اور باہمی تعاون کے فروغ کو بھی یقینی بنایا جاتا ہے۔
عدل و انصاف کی فراہمی ہو یا ٹیکس کی وصولی‘ ریاستی امور میں شفافیت نہایت ضروری ہے اور مسجد ماڈل اس سلسلے میں بہترین حکمتِ عملی ہے جسے استعمال میں لا کر ریاست اور عوام کے درمیان مستحکم اور دیر پا بنیادوں پر باہمی تعاون کی فضا قائم کی جا سکتی ہے۔ مسلسل سفر جاری ہے، رختِ سفر بھی وہی ہے، راستے بھی وہی اور منزلیں بھی وہی۔ محمد اسماعیل ندوی نے سچ ہی کہا تھا:
منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
مل جائے تجھ کو دریا تو سمندر تلاش کر