اس کی پُرشکوہ عمارت، اس کے بلند و بالا مینار، سرسبز و شاداب رنگ برنگے پھولوں سے مزین اوول گرائونڈ، تاریخی بخاری آڈیٹوریم اور سر فضل حسین ریڈنگ روم، رومانس سے بھرپور اوپن ایئر تھیٹر، منفرد طرزِ تعمیر اور بڑی بڑی راہداریاں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کو ایک ممتاز تعلیمی ادارہ بنا دیتی ہیں۔ اس عظیم درسگاہ کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخی اقدار اور شاندار روایات ہیں اور اس سے وابستہ بہت سی قد آور علمی و ادبی شخصیات ہیں جن میں شاعرِ مشرق حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ سرفہرست ہیں۔ ان کے علاوہ پطرس بخاری، پروفیسر اشفاق علی خان، صوفی تبسم اس کے تاریخی ورثے میں پورے قد کاٹھ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس کی بے مثال تعلیمی خدمات اور حسنِ کارکردگی کی بدولت یہاں سے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات نے نہ صرف وطنِ عزیز پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں اس کے عظیم سفیر موجود ہیں۔ سیاست ہو یا تجارت، شعر و سخن ہو یا صحافت، علم و ادب کا میدان ہو یا طب و جراحت، سول بیورو کریسی ہو یا مسلح افواج، کھیل ہوں یا اتھلیٹکس‘ تمام شعبہ ہائے زندگی میں راوینز اپنا سکہ جمائے نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس عظیم علم کدہ میں تعلیم حاصل کرنا پاکستان کے ہر طالبعلم کا خواب بن جاتا ہے۔ جس کی تعبیر میں وہ محنت اور میرٹ کے بل بوتے پر اس کا حصہ بن جاتا ہے اور وہ یوں ان سنہری اقدار سے فیضیاب ہو نے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اشفاق احمد صاحب نے سچ کہا تھا کہ آپ گونمنٹ کالج لاہور سے نکل بھی جائیں تو یہ آپ کے اندر سے نہیں نکل پاتا۔ اس کا طلسم زندگی بھر آپ کی پائوں کی زنجیر بن جاتا ہے اور پھر آپ خود کو عمر بھر اس کا اسیر پاتے ہیں۔ انہوں نے مزید یہ بھی کہا تھا کہ اس مادرِ علمی کے بارے میں درسگاہ کے لفظ میں ''س‘‘ اضافی ہے اور یہ اِک درگاہ ہے، اک روحانی سلسلہ ہے، اس فیضِ عام سے مستفیض ہونے والی کئی نسلیں اپنی دونوں دنیائوں کو سنوار چکی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
گورنمنٹ کالج لاہورکی عظیم روایات میں سے ایک درخشندہ روایت اس کے طلبہ میں باہمی اتحاد، تنظیم اور گہرے روابط ہیں جو زندگی بھر کے لئے ان کو تسبیح کے دانوں کی طرح ایک دھاگے میں پرو دیتے ہیں۔ ان میں ذات پات، مذہبی، سیاسی، لسانی، فرقہ، سماجی و معاشی درجہ بندی سے بالاتر صرف ایک ہی رشتہ قائم ہو جاتا ہے جسے راوین کہتے ہیں۔ کسی بھی دنیاوی مقام و مرتبہ کی تفریق یا امتیاز اس مضبوط تعلق کو کمزور نہیں ہونے دیتا اور یہ لازوال محبت عمر بھر راوینز کا قیمتی اثاثہ بن جاتی ہے۔ اسی گہرے تعلق کا علم مجھے گورنمنٹ کالج کے زمانہ طالب علمی میں اس وقت ہوا جب ہمارے گائوں سے ایک نوجوان نے محکمہ تعلیم میں نوکری کی درخواست جمع کروائی تو اس پر یہ اعتراض لگا کر واپس کر دیا گیا کہ وہ امیدوار مطلوبہ عمر سے تین سال آگے نکل چکا ہے۔ اس کی منظوری صرف سیکرٹری تعلیم ہی دے سکتے تھے۔ وہ مایوسی کا مجسمہ بن کر ایک شام ہمارے ہاں نیو ہاسٹل آن پہنچا اور اپنی داستانِ غم سنا کر مدد کی درخواست کی۔ رات میس کے کھانے پر ہم نے سیکرٹری تعلیم کے بارے میں معلوم کیا تو پتا چلا کہ وہ بھی راوین ہیں اور بڑی اچھی شہرت کے بیورو کریٹ ہیں۔ اگلی صبح میں اور سیف بھائی کالج کے یونیفارم میں اس امیدوار کی درخواست لے کر سول سیکرٹریٹ لاہور جا پہنچے۔ ایک چھوٹے کمرے میں موجود ان کے سٹاف سے ڈرتے ڈرتے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ ہم دونوں سیکرٹری تعلیم طارق سلطان صاحب سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ پہلے اس شخص نے حیرت سے ہماری طرف دیکھا اور پھر ایک چِٹ پر ہمارے نام لکھے اور گورنمنٹ کالج لاہور کے طالب علم لکھ کر چٹ اندر روانہ کر دی۔ ہمارے تعجب کی انتہا نہ رہی جب اگلے ہی لمحے ہمیں اندر بلا لیا گیا۔ جیسے ہی ہم سیکرٹری صاحب کے کمرے میں داخل ہوئے وہ اپنی کرسی چھوڑ کر میز کے سامنے آ چکے تھے اور بڑے پُرتپاک انداز میں ہمیں خوش آمدید کہا۔ کرسی پر بٹھایا اور چائے یا کافی کی چوائس دی۔ زندگی میں پہلی مرتبہ کافی کا سن کر اسی پر اتفاق کر لیا گیا۔ ہم نے مدعا بیان کیا تو انہوں نے اپنے سٹاف کو ہماری درخواست دیتے ہوئے کہا کہ اس پر عمر کم کرنے کی منظوری کا خط بنا دیا جائے۔ ہمارے جذبات دیدنی تھے۔ سیکرٹری صاحب کی کرسی کے پیچھے دیوار پر گورنمنٹ کالج کی ٹاور والی تصویر آویزاں دیکھ کر ہمیں مزید خوشی ہوئی۔ جب تک ہماری کافی ختم ہوئی‘ سیکرٹری تعلیم کی منظوری والی چٹھی ہمارے حوالے ہو چکی تھی۔ ہم نے اجازت لی تو دوبارہ اسی تپاک سے ہمیں الوداع کہتے ہوئے محترم سیکرٹری صاحب نے اپنی کرسی کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ کل کو آپ نے یہاں بیٹھنا ہے، پھر گورنمنٹ کالج کی تصویر کی طرف دیکھ کر کہنے لگے کہ ہم سب نے مل کر اس عظیم درسگاہ کی سنہری روایات کو آگے بڑھانا ہے۔ تیس سال قبل اس دفتر سے ہم نکلے تو اپنا دل وہیں چھوڑ آئے اور یادوں کا ایک اثاثہ لے آئے، تربیت کا سلیقہ لے آئے۔ ان درخشندہ روایات کا عملی مظاہرہ اور اس سفر کو جاری رکھنے کا عزمِ صمیم اپنے خوابوں کے جہاں میں سمیٹے ہم نیو ہاسٹل لوٹ آئے۔
جی سی کی سنہری روایات میں سے ایک خوبصورت روایت اولڈ راوینز یونین بھی ہے جو دراصل اس عظیم مادرِ علمی سے فارغ التحصیل طلبہ پر مشتمل ہے جس کا ہر دو سال بعد باقاعدہ الیکشن ہوتا ہے اور پھر منتخب نمائندے نہ صرف گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کی تعمیر و ترقی کیلئے کام کرتے ہیں بلکہ ان کی توجہ کا مرکز راوینز کی تعلیم و تربیت سے لے کر ان کی فلاح و بہبود، تعلیمی وظائف اور ملازمت کے مواقع اور کیریئر کونسلنگ سمیت مختلف امور سر انجام دینا ہوتا ہے۔ عام طور پر اس یونین کی صدارت سول بیورو کریسی کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ افسر کے پاس چلی آ رہی ہے۔ اتوار چودہ فروری اولڈ راوینز کے انتخابات منعقد ہوئے اور انتخابی مہم بہت بھرپور انداز میں چلائی گئی اور دونوں پینل انتہائی سرگرم دکھائی دیے۔ دونوں دھڑوں نے نہایت ہی منظم انداز میں راوینز تک اپنے رسائی یقینی بنائی۔وٹس ایپ گروپس میں اپنے اپنے منشور اور امیدواروں کا تعارف شیئر کیا گیا، فیس بک پر اپنے اپنے پیغامات نشر کئے گئے بلکہ سوشل میڈیا پر مہم اس وقت انتہائی عروج پر نظر آئی جب دونوں پینلز کی حمایت میں ملک کے تمام نامور ٹی وی اینکرز بھی میدان میں اتر آئے اور وڈیو پیغام ریکارڈ کروا کر اپنے اپنے پسندیدہ امیدواران کی حمایت کا اعلان کیا۔ معروف گلوکار خواتین نے بھی اپنا حصہ ڈالا اور شوبز کے ستارے بھی پیچھے نہ رہے۔ یہ اس سال کے الیکشن کا رنگین اور منفرد پہلو تھا جس کی بدولت اولڈ راوینز یونین کے انتخابات ملک میں جاری سینیٹ کے الیکشن کو پیچھے چھوڑتے نظر آئے۔
دوسرے راوینز کی طرح میں بھی 14 فروری کو اپنی مادرِ علمی پہنچا۔ کالج کے اندر ہمیشہ کی طرح دلی خوشی اور روحانی تسکین کی دولت ملی۔ برسوں بعد کئی ہم جماعت احباب سے ملاقات کا شرف ملا۔ بخاری آڈیٹوریم میں الیکشن کیلئے ووٹنگ ہو رہی تھی تو اس کے سامنے والے صحن کے دونوں حصوں میں ووٹ مانگے جا رہے تھے۔ بچھڑے ہوئے دوست جذباتی انداز میں بغلگیر ہوتے نظر آئے، سیلفیاں لیتے نوجوان راوینز تو فوٹو سیشن کرواتے اولڈ راوینز، سارا منظر دیدنی تھا۔ خوشیاں، خوش گپیاں، قہقہے، معانقے اور مصافحے جاری رہے اور یوں الیکشن کا عمل اپنے منطقی انجام کو جا پہنچا۔ اس ساری گہما گہمی میں سب اپنے سرکاری عہدے، سماجی و سیاسی وابستگی اور مقام و مرتبہ سے بے نیاز نظر آئے۔ نہ کوئی ڈی آئی جی، نہ کمشنر، نہ سیکرٹری، نہ کلکٹر، نہ ایم این اے، نہ ایم پی اے، نہ وزیر، نہ سینیٹر۔ صرف اور صرف راوینز ہی راوینز۔شام پانچ بجے ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد میں نے احباب سے اجازت لی، مرکزی ٹاور پر نظر ڈالی تو یوں لگا کہ وہ بھی بوجھل دل سے مجھے الوداع کہہ رہا ہے۔ واپس نکلتے ہوئے مجھے مرحوم طارق سلطان صاحب کے تیس سال پہلے کہے ہوئے وہ الفاظ یاد آئے ،''کل کو یہاں آپ نے بیٹھنا ہے اور ہمیں مل کر اس عظیم درسگاہ کی سنہری روایات کو آگے بڑھانا ہے‘‘۔ لوگ چلے جاتے ہیں، وقت گزر جاتا ہے مگر درخشندہ روایات زندہ رہتی ہیں۔ ناصر کاظمی کا یہ شعر اس امر کی مزید وضاحت کرتا ہے:
دائم آباد رہے گی دنیا ؍ ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا