پولیس بالخصوص پنجاب پولیس ہمیشہ سے ہدفِ تنقید رہی ہے جس کی بڑی وجوہات میں اس ادارے میں رشوت ستانی، سفارش، بدکلامی، جسمانی سزا، عقوبت خانے اور زیرِ حراست ہلاکتیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بے پناہ طاقت اور وسیع اختیارات کا ناجائز استعمال بھی پولیس کیلئے شروع دن سے باعث ِ ندامت رہا ہے۔ مختلف ادوار میں من پسند افراد کی بھرتی اور پھر جی بھر کے ان چہیتوں کے ذریعے سیاسی مخالفین پر قافیۂ حیات تنگ کیا جاتا رہا اور یوں اس ادارے کی ساکھ اور پیشہ ورانہ صلاحیت پر کئی سوال جنم لیتے رہے۔ انہی مسائل اور وجوہات کی بنا پر اسے ملک میں امنِ عامہ قائم کرنے میں دشواری کا سامنا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ 1980ء اور 90ء کی دہائی میں پاکستان ٹیلی وژن کے ڈراموں میں پولیس پر تنقید اور تضحیک بامِ عروج پر جا پہنچی۔ مشہورِ زمانہ ڈرامہ ''اندھیرا اجالا ‘‘میٹرک پاس ڈائریکٹ حوالدار کرم داد کی کارستانیوں کی بدولت شہرت کی بلندیوں پر پہنچا اور انسپکٹر جعفر حسین کی اداکاری نے پولیس کلچر کی حقیقی معنوں میں عکاسی کا حق ادا کر دیا۔ رہی سہی کسر ''ففٹی ففٹی‘‘ نے نکال دی۔ اس پسِ منظر میں 1997ء میں پنجاب حکومت نے پولیس کلچر کو یکسر تبدیل کرنے کا اصولی فیصلہ کیا اور تھانے کی سطح پر پڑھے لکھے نوجوان انسپکٹر تعینات کرکے پولیس اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی عدم اعتمادی کی خلیج کو کم کر کے باہمی تعاون اور مثالی تعلقات قائم کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اس مقصد کے حصول کیلئے پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے شفاف میرٹ پر مبنی تین سو انسپکٹرز کی بھرتی کا عمل شروع کیا گیا جو اپریل 1998ء میں مکمل کیا گیا اور پھر پولیس کالج سہالہ میں مثالی تربیت کی فراہمی اولین ترجیح نظر آئی۔ ''سہالہ یاترا‘‘ کے مصنف محمد آصف رفیق اور راقم الحروف اسی منزل کے مسافر ٹھہرے۔
میں نے لگ بھگ ڈھائی سال بطور لیکچرار انگلش گورنمنٹ کالج کمالیہ خدمات سرانجام دینے کے بعد 22جولائی 1998ء کو شعبہ تعلیم کو خیر باد کہا اور اگلے ہی روز فیصل آباد پولیس میں بطور انسپکٹر حاضری دے دی۔ تقریباً دو ماہ بعد ایک سال کی پیشہ ورانہ تربیت کیلئے پولیس کالج سہالہ روانگی ہوئی اور میں دوبارہ لاہور منتقل ہو گیا۔پھر سہالہ اور لاہور کے مابین سفر شروع ہوا اور بڑا ضلع ہونے کے باعث لاہور سے تعلق رکھنے والے ہم پچاس سے زائد کورس میٹ ایک بڑی بس کرایہ پر لیتے اور سیدھا پولیس کالج سہالہ جا پہنچتے۔ کبھی کبھار ویک اینڈ پر سب مل کر اسی طرح لاہور واپس آجاتے۔ یہ سفر شغل میلے، گپ شپ اور شرارتوں سے عبارت تھا اور یوں ایک تھکا دینے والا لمبا سفر پلک جھپکتے ہی ختم ہو جاتا۔ اس خوشگوار سفر کی سب سے بڑی اور منفرد وجہ ''شاہد اور جیراں‘‘ کی وہ فرضی رومانوی داستان تھی جسے میں نے اور آصف رفیق نے بڑی مہارت، برجستگی اور تخیل کی ہنر مندی آزماتے ہوئے تخلیق کیا۔ اس کہانی میں دیہاتی ثقافت، رومان، شرم و حیا، سادگی،شرمیلا پن، کردار نگاری اور افسانوی نوعیت کے سارے رنگ تھے ۔یوں ''شاہد اور جیراں‘‘کی کہانی ہمارے لاہور سے سہالہ تک کے سفر کا ایک خوبصورت حوالہ بن گئی۔ میں نے آصف کے اندر کا تخلیق کار پہچان لیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ آگے جا کر اس کے قلم میں مزید پختگی اور روانی آئے گی کیونکہ ربِ کریم نے اسے کہانی کو جاندار انداز سے بیان کرنے کی پوری صلاحیت اور ہنر مندی سے نوازا تھا۔
پنجاب بھر سے ہمارے کورس میٹس سہالہ پہنچے اور ہماری پیشہ ورانہ تربیت، پولیس پر یکٹیکل ورک اور قانون پر مکمل دسترس کے لیے پولیس سروس کے بہترین اور مایہ ناز افسران کا انتخاب کیا گیا۔ ہماری جسمانی فٹنس کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان آرمی کے کمانڈوز اور پاکستان ملٹری اکیڈمی کا کول کے ڈرل ماہرین کو مامور کیا گیا۔ ہماری اخلاقی تربیت اور کردار سازی کے لیے سینئر پولیس افسران، علما کرام اور موٹیویشنل سپیکرز کو خصوصی لیکچرز کے لیے مدعو کیا جاتا۔ یوں ہماری مثالی تعلیم و تربیت اور شخصیت و کردار کی تعمیر و تشکیل کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی اور ایک سال تک ہم سہالہ کے گرم و سرد موسم میں ایک کٹھن، صبر آزما مگر یادگار قیام کی یادیں سمیٹے بیدیاں روڈ لاہور آن پہنچے جہاں تین ماہ کا ایلیٹ کمانڈو کورس ہمارا منتظر تھا اور ہماری تربیت کا لازمی جزو بھی۔ بارہ ہفتوں پر مبنی یہ کمانڈو کورس بھی ایک شاندار تجربے کے طور پر ہمیشہ ہماری یادوں کا اہم حصہ بن گیا اور ہم جسمانی فٹنس کے سب مراحل طے کر کے اپنے اپنے اضلاع میں پہنچ گئے جہاں عملی تربیت مکمل کر کے ہمیں تھانوں کے مہتمم کے طور پر تعینات کیا جاناتھا۔
یوں 'سہالہ یاترا‘ایک طرف مصنف کے حیرت انگیز مشاہدات اور گہری نظر کی بدولت دورانِ تربیت رونما ہونے والے مختلف واقعات پر خوبصورت تبصرہ کرتی ہے تو دوسری طرف پاکستانی معاشرے کے مختلف سماجی اور معاشی مسائل، ناہمواریوں اور دشواریوں کو بھی زیرِ بحث لاتی ہے جو مصنف کے وسیع مطالعہ، ذاتی تجربات، تخیل کی اڑان اور گہرے مشاہدات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ انتہائی سنجیدہ موضوع پر بات کرتے کرتے اچانک طنز و مزاح کی وادی میں اتر جاتا ہے اور اپنے نیم خواندہ انسٹرکٹر زکی گلابی اردو کے رنگین لہجوں کو بڑی آسانی سے بیان کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ یہ کتاب پڑھتے ہوئے ہمیں خوشگوار حیرت کے جہان سے بار بار گزرنا پڑتا ہے کہ اچانک سنجیدہ گفتگو کے دوران قہقہوں کا دور شروع ہو سکتا ہے۔ ایک ہی سانس میں سرد و گرم لہجہ اختیار کرنا، قادر الکلام ادیب کی نشانی ہوتی ہے جو ہمیں آصف میں بدرجہ اتم ملتی ہے۔
ہماری پولیس میں بھرتی کے اشتہار سے لے کر پولیس کالج سہالہ اور ایلیٹ سکول بیدیاں روڈ لاہور کی لگ بھگ پندرہ ماہ پر مشتمل تربیت کے شب و روز کے تمام احوال کو اپنی خداداد صلاحیتوں اور تخلیقی ہنرمندی کی بھٹی میں پکا کر ایک خوبصورت کتاب کی شکل میں بھلا اور کون سامنے لا سکتا تھا سوائے آصف رفیق کے‘ جو ''شاہد اور جبراں‘‘ کی کہانی کی تخلیق میں میرا ساتھی مصنف تھا اور جس کے تخلیقی جوہر بہت پہلے سامنے آچکے تھے۔ 'سہالہ یاترا‘ دراصل پولیس کالج سہالہ کی تربیت پر سب سے پہلا اور مستند حوالہ ہے اور پولیس اور عوام کے درمیان بڑھنے والی خلیج کے اسباب اور وجوہات پر ایک مدلل گفتگو بھی۔ یہ کتاب دراصل ہماری مشترکہ یادوں پر مبنی ایک بیش قیمت اثاثہ ہے اور ان سے جڑے ہمارے خوبصورت رشتوں اور اُن کی سچائی کا ذریعۂ اظہار بھی۔ آصف رفیق نہ جانے کب سے میرا ساتھی ہے۔ دیہاتی پسِ منظر سے لے کر گورنمنٹ کالج لاہور کے اوول گرائونڈ تک، پولیس کالج سہالہ سے لے کر ایف بی آر تک اور فیصل آباد ریجنل ٹیکس آفس میں میرا سب سے پیارا، با اعتماد ساتھی اور سَچا اور سُچا دوست بھی۔ ہماری بائیس سالہ رفاقت اب رقابت کا روپ دھارنے لگی ہے کیونکہ وہ صاحبِ کتاب بن کر مجھ سے آگے نکل گیا ہے۔آصف رفیق کی کتاب دراصل ان بائیس سالوں کی ہماری رفاقت، اس سے جڑی خوبصورت یادوں اور پولیس کالج سہالہ اور بیدیاں روڈ کے شب و روز پر مبنی اُن یادگار دنوں کی امانت بھی ہے جو ہم گزار آئے اور جو اب کبھی لوٹ کر واپس نہیں آئیں گے۔ سب سے بڑھ کر وہ شہدا جو ہمارے ہمسفر تھے مگر فرض کی ادائیگی کے دوران وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے اور وہ وطنِ عزیز کی خدمت میں ہمیں بہت پیچھے چھوڑ کر خود شہادت کے عظیم اور قابلِ رشک مرتبے پر فائز ہو گئے۔ آصف کی کتاب میں اُن سب شہدا کو قابلِ تحسین الفاظ میں یادوں کی لڑی میں پرویا گیا ہے جو مصنف کی اپنی دھرتی ماں اور اپنے ساتھیوں سے سچے رشتوں کی ٹھوس گواہی اور مستند دلیل ہے۔ سہالہ یاترا ہمارے عہدِ شباب کے سنہرے خوابوں اور جواں جذبوں سے شروع ہو کر ڈھلتی عمر کی اداس رُت کے گلاب لمحوں کو امر کرتی ہوئی اردو ادب میں ایک خوبصورت اضافہ کرتی دکھائی دیتی ہے۔ آصف رفیق کو ڈھیروں مبارکباد اور بے پناہ دعائیں کہ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!