جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک‘ جن میں بنگلہ دیش اور بھارت نمایاں ہیں‘ کی طرح پاکستان میں بھی کورونا کی تیسری لہر میں شدت آتی جا رہی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر ملک میں پازیٹو کیسز کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور جڑواں شہر راولپنڈی سمیت پنجاب کے تقریباً تمام بڑے اضلاع‘ لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد، سیالکوٹ، گجرات، شیخوپورہ اور سرگودھا‘ میں کوروناکی تازہ لہر نے تباہی مچانا شروع کر دی ہے اور ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومتی ذرائع نے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ حکومت کی طرف سے جاری کردہ ہدایات پر سختی سے عمل کریں، ماسک کا استعمال یقینی بنائیں، شادی بیاہ کی تقریبات اور دیگر اجتماعات سے گریز کریں اور غیر ضروری نقل وحمل اور سفر سے بھی اجتناب کریں کہیں ایسانہ ہوکہ ہسپتال کورونا مریضوں سے مکمل طور پر بھر جائیں اور سرکاری وسائل اور سہولتیں کم پڑ جائیں۔ گزشتہ ایک ہفتے سے ہر روزانہ نئے کورونا مریضوں کی تعداد چار ہزار سے تجاوز کر رہی ہے اور پچاس سے زائد ہلاکتیں سامنے آ رہی ہیں جو یقینا ایک تشویشناک صورتحال کی عکاسی کرتی ہیں اور ضروری امر یہ ہے کہ عوام اجتماعی طور پر ایک ذمہ دار قوم ہونے کا عملی ثبوت دیں اور اس موذی وبا کے پھیلائو کو روکنے میں اپنا موثر کردار ادا کریں۔
حال ہی میں وزیراعظم اور اُن کی اہلیہ بھی کورونا کا شکار ہوئے‘ وزیراعظم تو صحت یاب ہونے کے بعد اپنی ذمہ داریاں سنبھال چکے ہیں؛ تاہم اب صدرِ مملکت اور وزیر دفاع پرویز خٹک اس وائرس کے خوفناک حصار میں جکڑے جا چکے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے یقینا کورونا کے خلاف جنگی بنیادوں پر اقدامات کیے، موثر حکمت عملی وضع کی اور سرکاری ہدایات کو عملی طور پر رائج کرنے اور تمام تر وسائل کو بروئے کار لا کر اس مہلک وبا کے پھیلائو کوروکنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں پاکستان ایک کامیاب رول ماڈل کے طور پر لیا گیا ہے اور عالمی ادارۂ صحت سمیت تقریباً سبھی عالمی اداروں نے پاکستانی حکومت کے اقدامات کی تعریف کی، بالخصوص سمارٹ لاک ڈائون، مائیکرو اور جزوی لاک ڈائون کی پالیسی نے پاکستانی معیشت کو تباہی سے بھی بچائے رکھا اور انسانی زندگیوں کے تحفظ کے ساتھ ساتھ کاروباری طبقے اور روزگار کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا، جس سے ایک طرف ہمیں کورونا کے خلاف کامیاب حکمت عملی اپنانے میں مدد ملی تو دوسری طرف ملکی معیشت کا پہیہ بھی مسلسل چلتا رہا، نیز غریب افراد کے گھروں تک امدادی رقم اور کھانے پینے کی اشیا کی فراہمی بھی یقینی بنائی گئی۔ اس شاندار کامیابی اور منفرد ماڈل کی دنیا بھر میں پذیرائی ہوئی اور اس سارے عمل میں وزیراعظم نے مستقل مزاجی اور عزم وہمت کا مظاہرہ کیا جس سے کوروناکے خلاف جاری جنگ میں اب تک پاکستان سرخرو رہا ہے، پورا سال لوگوں کی نہ صرف قیمتی جانوں کو محفوظ بنایا گیا بلکہ انہیں بیروزگار ہونے سے بھی بچایا گیا جو یقینی طور پر ایک بڑی کامیابی ہے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ کورونا کی تشویشناک صورتحال کے پیش نظر اب حکومت نے مزید سخت اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور پنجاب بھر میں تمام دکانیں، کاروباری مراکز اور تجارتی سرگرمیاں شام چھ بجے تک محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ دو دن مکمل طور پرکاروباری بندش رہے گی؛ البتہ ان پابندیوں کا اطلاق میڈیکل سٹور، کریانہ شاپس، بیکریز، پٹرول پمپس، ٹائر شاپس، سبزی، فروٹ اور ایل پی جی شاپس وغیرہ پر نہیں ہو گا۔ اس طر ح پنجاب بھر کے شادی ہالز اور مارکیز پر مکمل پابندی لگا دی گئی ہے اور وہ کسی قسم کے اِن ڈور یا آئوٹ ڈور اجتماعات اور تقریبا ت نہیں کر سکیں گے۔ پنجاب بھر میں اِن ڈور ریسٹورنٹس پر بھی مکمل پابندی لگا دی گئی ہے البتہ کھانا پارسل لے جانے کی اجازت ہو گی۔ صوبے بھر کے تمام پارکس اور تفریحی مقامات بھی بند رہیں گے اور یہی پابندی تمام سینما ہالز اور درباروں پر بھی عائد ہو گی۔ مزیدبراں کھیل کود، ثقافتی میلے اور سماجی اجتماعات پر بھی مکمل پابندی رہے گی۔ پنجاب بھر میں ماسک پہننا لازم قرار دیا گیا ہے اور صوبے کے تمام سرکاری ونجی اداروں کو پچاس فیصد عملہ ڈیوٹی پر بلانے کا کہا گیا ہے۔ پنجاب کے اضلاع‘ لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان، سرگودھا، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، گجرات اور شیخوپورہ‘ میں ٹرانسپورٹ پر مکمل پابندی عائد ہو گی، البتہ ریلوے کو 70 فیصد مسافروں کے ساتھ سروس جاری رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر (این سی او سی) کے تازہ ترین اعداد وشمار کورونا وائرس کے خوفناک پھیلائو کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ گزشتہ چند روز سے روزانہ کی بنیاد پر ہلاکتوں کی تعداد چالیس سے زیادہ ہے جبکہ چوبیس گھنٹوں میں چار ہزار پانچ سو سے زائد اوسطاً نئے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔ اب تک کوروناسے ہلاک ہونے والے افراد کی کل تعداد ساڑھے چودہ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور پاکستان میں کورونا کے مصدقہ کیسز کی تعداد چھ لاکھ ستر ہزار سے بڑھ چکی ہے۔ اب جبکہ تیسری لہر میں آئے روز شدت آ رہی ہے‘ ضروری اقدامات اور ہنگامی بنیادوں پر ٹھوس حکمت عملی کے ساتھ پورے ملک میں عمل پیرا ہونا وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکا ہے۔ وفاقی دارالحکومت اور پنجاب کے علاوہ خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان میں بھی وائرس کا پھیلائو بڑھا ہے‘ وہاں پر بھی سخت پابندیاں لاگو کرنا ضروری ہو چکا ہے‘ اس سلسلے میں کے پی حکومت اعلان کر چکی ہے اور جلد ہی سندھ حکومت کی طرف سے بھی اعلان متوقع ہے۔ اگر فوری طور پر مزید پابندیاں نہ لگائی گئیں تو ہلاکتوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے اور ملک بھر کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ حکومت یکم اپریل سے گیارہ اپریل تک 12 فیصد شرح والے شہروں میں لاک ڈائون کو مزید مو ثر بنانے کا اعلان پہلے ہی کر چکی ہے۔ قابل توجہ پہلویہ ہے کہ نئی پابندیوں کا اطلاق انڈسٹری، کنسٹرکشن اور گڈز ٹرانسپورٹ پر نہیں کیا جا رہا اور یہی امر عوام میں حکومتی اقدامات کو مقبول بنانے میں کردار کرتے ہیں کیونکہ اِن شعبوں سے وابستہ روزگار کے مواقع معیشت کا پہیہ چلانے میں معاون ثابت ہوں گے البتہ کورونا کی تیسری لہر اور اس کی ممکنہ تباہ کاریوں سے بچائو کیلئے ضروری ہے کہ پورے ملک میں بلاامتیاز لاک ڈائون کیا جائے اور پابندیوں کا اطلاق تمام شعبوں میں بلاتفریق یقینی بنایا جائے۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ حکومت کی سربراہی میں ایک ہمہ گیر اور بھرپور آگاہی مہم کے ساتھ ساتھ سخت پابندیوں پر عمل بھی لازم بنایا جائے۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو بہرصورت قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور انہیں سخت سزائیں دی جائیں تاکہ قیمتی انسانی جانوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ اس ضمن میں حکومت کے ساتھ ساتھ علماء کرام، اساتذہ، میڈیا پرسنز، کالم نگاروں، طلبہ اور نوجوانوں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کورونا کے خلاف قومی جہاد میں اپنا بھرپورکردار ادا کریں اور اس موذی وبا کے پھیلائو کے خلاف عوامی سطح پر رائے عامہ ہموار کرنے میں اپنا حصہ ڈالیں۔ اب بھی وقت ہے کہ گزشتہ برس کی طرح مو ثر اقدامات کر کے کورونا کو شکست دی جائے‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت ہمارے ہاتھ سے نکل جائے اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں۔
حکومتی سطح پر کورونا ویکسین لگانے کا عمل بھی تیزی سے جاری ہے اور ساٹھ برس اور اس سے زائد عمر کے افراد کو کورونا کی مفت ویکسین لگائی جا رہی ہے جبکہ پچاس برس اور اس سے زائد عمر کے شہریوں کی رجسٹریشن کا عمل بھی شروع کیا جا چکا ہے مگر اس عمل کی سست روی پر کافی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ بائیس کروڑ آبادی کے حامل ملک میں کورونا کے خلاف ویکسی نیشن مکمل کروانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر نہ صرف حکومت مزید کورونا ویکسین کا انتظام کرے بلکہ پرائیویٹ سیکٹر اور صوبوںکو بھی سہولتیں فراہم کرنی چاہئیں تاکہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ویکسین لگا کر اس مہلک وبا سے محفوظ رکھا جا سکے۔ البتہ حکومت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کی کڑی نگرانی کرے تاکہ وہ مناسب قیمت میں بہترین معیار کی ویکسین عوام کو فراہم کرے۔ یہ حکومتی کارکردگی اور مستعدی کا کڑا اِمتحان ہے اور ہم توقع رکھتے ہیں کہ حکومت اور عوام مل کر آزمائش کی اس گھڑی میں سرخرو ہوں گے۔