اٹھارہویں صدی کے آخر میں صنعتی انقلاب کا آغاز ہوا اور جلد ہی پوری دنیا پر چھا گیا۔ سرمایہ داروں نے فیکٹریاں لگائیں اور پیداواری صلاحیت بڑھانے، مال کمانے اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششیں کرنے لگے۔ مقابلے کی فضا پیدا ہوئی تو فیکٹریاں اور کارخانے ڈبل شفٹ پر چلانے شروع کر دیے مگر ان کارخانوں میں ایندھن کے ساتھ ساتھ مزدورں کے خون پسینے کو بھی جلانا شروع کر دیا گیا۔ اس خوفناک استحصال پر گوشت پوست کے بے بس انسان چیخ اُٹھے۔ انہوں نے اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنا شروع کی اور 1880ء کی دہائی میں محنت کشوں کی طرف سے آٹھ گھنٹے کے اوقاتِ کار کے مطالبے کے لیے پریڈ، مارچ اور احتجاج کا آغاز ہوا جس سے یومِ مزدور کی بنیاد پڑی۔ ٹریڈ یونینز، مزدور تنظیموں اور دیگر سوشلسٹ اداروں نے کارخانوں میں آٹھ گھنٹے کام کے مطالبے پر زور دیا مگر بے رحم سرمایہ داروں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، بالآخر تنگ آکر مزدوروں نے اس ظلم کو مزید سہنے سے انکار کر دیا اور مکمل ہڑتال کر دی۔ تین مئی کو اس سلسلے میں شکاگو میں منعقدہ مزدوروں کے ایک احتجاجی جلسے پر حملہ ہوا جس میں چار مزدور ہلاک اور ستر سے زائد زخمی ہوئے۔ اس بربریت کے خلاف محنت کش احتجاجی مظاہرے کیلئے Hey مارکیٹ سکوائر میں جمع ہوئے تو پولیس نے مظاہرین کو روکنے کیلئے ان پر تشددکیا۔ اسی دوران ایک بم دھماکا ہوا جس میں ایک پولیس افسر ہلاک ہو گیا، اس پر پولیس نے مظاہرین پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جس کے نتیجے میں بے شمار مزدور ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ اس موقع پر سرمایہ داروں نے مزدور رہنماؤں کو گرفتار کر کے پھانسیاں دیں حالانکہ ان کے خلاف کوئی ثبوت بھی نہیں ملا تھا؛ تاہم انہوں نے مزدور تحریک کیلئے جان دے کر سرمایہ دارانہ نظام کی بر بریت واضح کر دی۔ ان رہنماؤں نے کہا ''تم ہمیں جسمانی طور پر تو ختم کر سکتے ہو لیکن ہماری آواز نہیں دبا سکتے‘‘ اور یہ بات حرف بحرف درست ثابت ہوئی کیونکہ یہ قربانی رائیگاں نہیں گئی اور بالآخر مزدوروں کے اوقاتِ کار آٹھ گھنٹے طے کر دیے گئے۔
المیہ یہ ہے کہ یہ اوقاتِ کار طے ہو جانے کے باوجود مزدور کے مسائل میں زیادہ کمی واقعی نہیں ہوئی۔ پورے سال میں ایک دن ایسا آتا ہے جب ہم مزدور کے حقوق کی بات کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر ویران آنکھوں اور افلاس زدہ چہرے والے مزدوروں کی تصاویر شیئر کی جاتی ہیں، وٹس ایپ سٹیٹس پر یکم مئی کے حوالے سے مختلف پوسٹرز اور تصویریں نظر آتی ہیں اور پھر ٹی وی چینلز پر بھی مزدوروں کو مناسب جگہ مل جاتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ذہن میں مزدور کا تصور بہت محدود ہے۔ درحقیقت یہ وہ طبقہ ہے جس کی زندگی چھوٹے چھوٹے مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ ایک مزدور جب پورا دن مزدوری کر کے ایک ایک کر کے کمائے ہوئے چند سو روپے لے کر واپسی کی راہ لیتا ہے تو اس کے چہرے پر تھکن کے کوئی آثار نہیں ہوتے بلکہ اسے یہ خوشی سرشار کر رہی ہوتی ہے کہ اس نے اپنے بچوں کے کھانے کا بندوبست کر لیا ہے اور اس کے بچوں کو آج فاقہ نہیں کرنا پڑے گا۔ مزدور اس دن نہیں تھکتا جس دن وہ شدید محنت کے بعد کئی لیٹر پسینہ بہا کر بچوں کی روٹی کمانے میں کامیاب ہو جاتا ہے بلکہ وہ اس وقت تکان کا شکار ہوتا ہے جب اس کا دن مزدوری کے انتظار میں خالی چلا جاتا ہے۔ جس شام اسے خالی ہاتھ گھر لوٹنا پڑے وہ شام اس کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں ہوتی۔ جو لوگ ماہانہ تنخواہ وصول کرتے ہیں وہ عموماً آغازِ مہینہ میں ہی اکٹھا راشن خرید لاتے ہیں اور پھر پورا ماہ اس فکر سے آزاد ہو جاتے ہیں لیکن مزدور کی زندگی اتنی پُر آسائش نہیں ہوتی کیونکہ وہ روز مرّہ کی اشیائے خور ونوش روزانہ کی بنیاد پر خریدتا ہے۔ جس دن مزدور بغیر دیہاڑی کے گھر کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے اس کے ذہن میں اَن گنت جھکڑ چلتے ہیں۔ ایک باپ کے لیے بچوں کا فاقہ برداشت کرنا آسان چیز نہیں ہوتی۔ ایک ریڑھی بان جو شام تک سبزی بیچنے میں ناکام ہو جاتا ہے‘ شام کو ریٹ گرا کر منتوں پر اتر آتا ہے۔ وہ محض اتنی رقم کمانے کو ہی غنیمت جانتا ہے جس سے اپنے بیوی بچوں کو فاقے سے بچا سکے۔ اسی طرح ہمارے گھریلو ملازمین ہیں‘ جو ہمارے بچے ہوئے کھانے، پرانے کپڑوں اور جوتوں کے حصول کیلئے ہماری خوشامد کرتے ہیں اور ہم انہیں لالچی قرار دے کر نخوت سے منہ موڑ لیتے ہیں‘ اگر کچھ دینا بھی پڑے تو اس طرح کہ اس کی آنے والی نسلیں بھی ہماری ممنونِ کرم رہیں۔ اگر کوئی ملازم ایڈوانس تنخواہ کی بات کرتا ہے تو ہم حیرت زدہ ہوکر یہ سوال کرتے ہیں کہ تم نے ''سارے پیسے‘‘ اتنی جلدی اڑا بھی دیے کہ اب مزید پیسوں کی ضرورت آن پڑی۔ اور جس دن گھریلو ملازمہ چھٹی کر لے‘ وہ دن بیگم صاحبہ کی زندگی کا مشکل ترین دن ہوتا ہے۔
حضور کریمﷺ کی حدیثِ مبارکہ ہے ''مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دی جائے‘‘ لیکن فیکٹری مالکان پسینہ تو درکنار مزدور کا لہو خشک کر کے بھی مزدوری ادا نہیں کرتے۔ ہم اپنے گھروں میں روٹی کھاتے ہوئے کبھی اس کسان کا تذکرہ نہیں کرتے جس نے دن رات ایک کر کے فصل کی حفاظت کی، طرح طرح کے مسائل کا سامنا کیا، بے موسمی بارشوں نے کیسے اس کے دل کو لرزایا اور پھر جب فصل پک کر تیار ہوئی تو اسے کس طرح خود کو محنت سے کم صلے پر بہلانا پڑا۔ حلال رزق کا مطلب اس کسان سے پوچھوکہ پسینہ بن کے جس کے بدن سے لہو ٹپکتا ہے۔ احسان دانش‘ جنہیں دنیا شاعرِ مزدور کے نام سے جانتی ہے‘ جب پنجاب یونیورسٹی میں مہمانِ خصوصی کے طور پرمدعوہوئے تو انہوں نے دورانِ خطاب طلبہ کو یہ کہہ کر حیرت میں مبتلا کر دیا کہ اس ہال کی دیواروں میں اِن کا لہو اور پسینہ بھی شامل ہے۔ ''میں پورا پورا دن بیل کی جگہ کام کرکے پانی نکالتا تھا، اینٹیں ڈھوتا تھا اور شام کو مطالعہ کرتا تھا‘‘۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے دنیا کو خبردار کر چکے ہیں کہ کورونا کے تباہ کن اثرات کی وجہ سے دنیا کے ایک ارب بیاسی کروڑ غریب افراد رات کا کھانا کھائے بغیر ہی سونے پر مجبور ہیں اور اس تعداد میں مزید اضافہ ہونا لازمی امر ہے۔ اس تناظر میں کل دنیا ''یومِ مزدور‘‘ منائے گی اور محض سوشل میڈیا پر رسمی کارروائی کے طور پر افلاس زدہ چہروں کی تصاویر کی تذلیل ہو گی، غربت اور بھوک کا مذاق اڑایا جائے گا اور سرمایہ داری اور مادہ پرستی کا رسیا انسان مزدورں کے حقوق کی پامالی پر مگرمچھ کے آنسو بہاتا نظر آئے گا۔ یوں یکم مئی کا سورج بھی ہمیشہ کی طرح مغربی افق میں شرمندگی کی چادر اوڑھ کر غروب ہو جائے گا۔ ہمارے مزدور، کسان، ہاری، مزارعین اور پسے ہوئے طبقے کے مسائل ایک جیسے ہیں کیونکہ وہ ہر روز موت سے اپنی زندگی کا قرض مانگتے ہیں اور یہ مزدور اپنی نمناک آنکھوں کے ساتھ کئی تلخ سوالات پوچھتے نظر آتے ہیں جن کا شاید ہی کسی کے پاس کوئی جواب ہو۔ کیا اُن کے باپ دادا کی طرح اُن کے بچوں کے بچے بھی مزدورہی بننے پر مجبور ہوں گے؟ کیا اُن کی زندگی میں کوئی ایسا نظام آئے گا جس میں اک مزدور کا بیٹا اپنی محنت اور قابلیت کے بل بوتے پر طاقت کے ایوانوں میں حقِ نمائندگی حاصل کر سکے؟ کیا مزدور کو اس کی محنت کا پورا اور بروقت صلہ ملنا شروع ہو جائے گا؟ انہی سوالات پر مبنی مزدور کے جذبات کو ایک شاعر نے اپنی ایک خوبصورت نظم میں بیان کیا ہے:
نوچ کر اپنے جواں جسموں کی پُرنور بہار
کب تلک اور کریں گے رُخِ قاتل پہ نثار
روک سکتے نہیں سیلاب کو زندانوں کے در
تیغ بن جائے اگر ہاتھ میں لیں شاخِ شجر
اٹھ کھڑے ہوں گے یہ جلاد کی صورت اک دن
دیں گے قاتل کو نہ فریاد کی مہلت اک دن