پنجاب کی ثقافت، رہن سہن، اقداراوررسم ورواج کی بقا اوراحیا میں مقامی شعرا، فنکاروں اور لوک گلوکاروں کا کردار ہمیشہ سے نمایاں رہا ہے۔پنجابی صوفی شاعری ہو یالوک گیت، ہمیں اپنی ماں بولی سے سچا پیار انہی کے طفیل نصیب ہوا۔ 1980ء کی دہائی کے اوائل میں ہمارے دیہات میں بجلی کی سہولت محدود تھی، اس وقت کمپیوٹر تھا نہ موبائل فون، نہ انٹرنیٹ اور نہ ہی سوشل میڈیا کی یلغار۔ ذرائع ابلاغ میں ریڈیو کی حکمرانی تھی، محض چند گھرانوں میں ٹیلی وژن کی عیاشی موجود تھی۔ پاکستان ٹیلی وژن واحد چینل تھا اور وہ بھی چند گھنٹے کیلئے، نشریات کا آغاز عصر سے شروع ہوتا، رات نو بجے خبر نامے کے بعد فرمانِ الٰہی کے ساتھ یہ اختتام پذیر ہو جاتی تھیں۔ دیہی آبادی رات کو نمازِ عشاء کے بعد سو جاتی اور ہم رات کے ڈرامے اور خبر نامے کے بعد سونے کی تیاری شروع کرتے۔ باہر کھیت کھیلان میں ہل چلاتے ہوئے ٹریکٹر پر چلتے ہوئے ٹیپ ریکارڈر کی اونچی آوازمیں گانے سنائی دیتے اور پنجابی شاعری میں دوہڑے اور ماہیے ہماری دیہی ثقافت اور رہن سہن کی عکاسی کرتے تو گویا دل باغ باغ ہو جاتا۔ ان سریلی آوازوں میں فوک میوزک کے تین قد آور نام ہمارے کانوں میں رس گھولتے جن میں منصور ملنگی، طالب حسین درد اور اللہ دتہ لونے والا شامل تھے۔ موسیقی کے پیچ و خم اور سُر کے تال میل سے نابلد ہونے کے باوجود ان بڑے فنکاروں اور مانے ہوئے گلوکاروں کے پنجابی گیت قلب و روح میں اتر جاتے۔ لڑکپن کے ابتدائی ایام میں ہی اپنی ماں بولی میں شعر و سخن سے شغف انہی تین مسحورکن آوازوں کی وجہ سے بڑھا اوراس کے ساتھ ساتھ اپنی ثقافت سے گہرے رشتے بھی استوار ہونے لگے۔
اُس دور میں تفریح کے ذرائع اور سہولتیں محدود ہونے کے سبب شادی بیاہ کی تقریبات اور مقامی میلوں پر کہیں رقص و سرود کی محافل منعقد ہوتیں اور ان تین فنکاروں میں سے کسی ایک کو بھی مدعو کر لیا جاتا تو مہمانوں کے علاوہ علاقے کے دوسرے افراد بھی ایک جمِ غفیر کی شکل میں آن دھمکتے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے خاندان میں خوشی کے ایک موقع پر کس طرح برادری کی پُر زور فرمائش پر اللہ دتہ لونے والا کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا جن کی شہرت اس وقت آسمانوں پر تھی۔ خطیر رقم لے کر دو‘ تین ماہ ایڈوانس میں فنکشن کا وقت طے ہو پاتا تھا لہٰذا انہیں مدعوکرنے کیلئے چنیوٹ کے ایک سیاسی وڈیرے کی خدمات لینا پڑیں جس کے اثر و رسوخ کے سبب اللہ دتہ لونے والا نے ہمارے گائوں میں آنے کی ہامی بھر لی۔ جیسے ہی ہمارے علاقے میں اس عظیم فنکار کی آمد کی اطلاع عام ہوئی توپورا علاقہ اس دن اور وقت کے انتظار میں مضطرب رہنے لگا۔ پھر وہ شام آن پہنچی اور لوگ جوق در جوق متعین جگہ پر ٹولیوں کی شکل میں امڈ آئے ۔اللہ دتہ لونے والا کو اپنے درمیان پا کر پورا مجمع مسرت سے مالا مال تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جیسے ہی اس سریلے گلوکار نے اپنے ہارمونیم اور طبلے کے تال میل ملائے توسامعین پرسکوت طاری ہو گیا۔ معروف پنجابی شاعر مہر ریاض سیال کے مشہور ِ زمانہ دوہڑے سے آغاز ہوا اور اپنی روایتی اونچی لَے میں یہ مصرع پڑھا ''نت اپنی بال کے سیکی کر، تو آس کسے دی رکھ ناہیں ‘‘ تو گویا یہ مسحور کن آواز آسمانوں سے جا ٹکرائی اور پھر گونجتی ہوئی واپس آکر سامعین کے قلب و روح میں اتر گئی۔ لگ بھگ دو گھنٹے اس خوبصورت فنکار نے سننے والوں کو اپنی منفرد آواز کے سحر میں گرفتار رکھا اورانہیں ہمیشہ کیلئے اپنا گرویدہ بنا لیا۔
یہ عظیم فنکار 1957ء میں چنیوٹ کے نواحی گائوں لونے والا میں پیدا ہوا اور سریلا ہونے کے سبب بچپن سے ہی سکول میں نعت و ترانے پڑھتا ۔ سکول اسمبلی میں علامہ محمد اقبال ؒ کی دعائیہ نظم ''لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ باترنم سناکر پورے سکول کو اپنی جادو بھری آواز کے سحر میں گرفتار کر لیتا۔ اک دفعہ اپنے دلآویز سر سنگیت کے سبب سکول کی بزمِ ادب تقریبات میں اول پوزیشن حاصل کی تو اس کے استادنظامی صاحب نے اللہ دتہ لونے والا کے والدِ گرامی سے مشاورت کے بعد اسے اوکاڑہ کے بزرگ فنکارمیاں عـیسٰی کی شاگردی میں دے دیا جہاں اسے فوک میوزک کی باقاعدہ تربیت ملی مگر اپنے بزرگ استاد کی جلد وفات کے بعد اس کے بیٹے طالب حسین کی شاگردی میں ہارمونیم کی تربیت حاصل کی اور یوں پنجابی فوک گائیکی میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔اپنے منفرد اندازِگائیکی کے سبب اللہ دتہ لونے والا نے درجنوں ایوارڈزاپنے نام کیے۔اُن کی فنی خدمات کے اعتراف میں صدرِپاکستان نے اسے تمغۂ حُسنِ کارکردگی سے نوازا تو پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگویجز آرٹس اینڈ کلچر نے انہیں پرائیڈ آف پنجاب کا اعزاز بخشا۔ 1960کی دہائی کے وسط میں شروع ہونے والا یہ سفر چند دن پہلے اس وقت اختتام پذیر ہوا جب اللہ دتہ لونے والا پینسٹھ برس کی عمر میں حرکتِ قلب بند ہونے سے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے اور یوں پنجابی فوک میوزک کا آخری چراغ بھی گل ہو گیا اور ہمارا ملک ایک عظیم گلوکار سے محروم ہو گیا۔
چند برس قبل جھنگ کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے پنجابی شاعر مہر ریاض سیال کی کتاب ''دسکارے‘‘ کی تقریبِ رونمائی میں مجھے مہمانِ خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا تو میں ہامی بھرنے کے باوجود یہ سوچ کر پریشان رہا کہ انگریزی ادب اور لا میں ڈگری لینے اور سول سروس کے گورکھ دھندے میں الجھے رہنے کے سبب بھلا میں مہر ریاض کے شعر و سخن پر کیا بات کروں گا، مگر پھر مجھے اپنے بچپن کے زمانے میں کانوں میں رس گھولتی آواز یاد آئی اور اللہ دتہ لونے والا کی مسحور کن آواز میں گائے ہوئے مہر ریاض سیال کے دوہڑے یاد آئے جن کے سبب نہ صرف پنجابی ثقافت اور اپنے مقامی رہن سہن سے آشنائی ہوئی بلکہ ماہ و سال گزرنے کے ساتھ ساتھ ان گیتوں میں چھپے معانی و مفاہیم کے اسرار و رموزبھی سمجھ آنے لگ گئے، زندگی گزارنے کے قرینے اور احساسِ ذمہ داری کے جذبات بھی اجاگر ہونے لگے۔ میں پوری دیانتداری سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ سکول کے زمانہ طالبعلمی میں نہ کسی موٹیویشنل سپیکر سے پالا پڑا اور نہ ہی تھِنک بگ فلاسفی کا ادراک ہوا‘اگر بڑے خواب دیکھنے اور زندگی میں منفرد مقصد حاصل کرنے کی ضد ٹھانی تو یہ پنجابی شعرا کے دوہڑے اور گیت ہی تھے جنہوں نے اِن عظیم فنکاروں کے سریلے اندازِ گائیکی کے سبب میرے اندر گھر کر لیا تھا اور انجانے میں مجھے کسی بڑی منزل کی طرف دھکیل بھی رہے تھے، یہی لوک گیت تھے جو سکول آتے جاتے راستے میں کسی ٹریکٹر پر چلتے ٹیپ ریکارڈر پر سننے کو مل جاتے تھے اور نجانے مجھ جیسے کتنے نوجوانوں کو ان منفرد لوک گلوکاروں نے اپنے دل لبھانے والے گیتوں سے کامیابی کے راہ دکھائی ہوگی اور زندگی میں خودی اور خودانحصاری کے سنہرے اصول اپنانے میں اپنا کلیدی کردار انجام دیا ہوگا۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگاکہ یہ گیت اور ان کو گانے والے سریلے فنکار ہی دراصل ہمارے پنجابی کلچر، اس کی دیہی زندگی اور اس کے ساتھ جڑے ہوئے رومانس کو زندہ رکھے ہوئے تھے۔ اب وہ شعرا نہیں رہے، نہ وہ عابد تمیمی، رحمٰن صحرائی، یٰسین اور نہ ہی مہر ریاض‘ جن کے پنجاب کی مٹی میں گندھے ہوئے دوہڑے اور ماہیے ایک طرف ہمیں اپنی ماں بولی سے پیار کرنا سکھاتے تو دوسری طرف ہمیں اپنی دھرتی ماں کے سچے بیٹے بن کر اس کیلئے کوئی قابلِ فخر بڑا کام کرنے پر اکساتے رہتے۔ بلاشبہ ان فنکاروں نے ہمیں اپنے وطن، اپنی مٹی اور اس کی جڑوں سے ایک مضبوط تعلق استوار کرنے اور اسے مضبوط تر بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ منصور ملنگی اور طالب حسین درد چند برس قبل منوں مٹی تلے جا سوئے تو فوک موسیقی اور پنجابی شاعری کو اللہ دتہ لونے والے نے اپنے سریلے گیتوں میں زندہ رکھا۔ اب وہ بھی راہِ عدم سدھار گئے ہیں تو میں سوچ رہا ہوں کہ اب پنجابی وسیب کے ساتھ ہمارا رشتہ کس طرح مضبوط ہو گا اور اپنے پیارے پنجاب کی ماں بولی اور اس میں ہونے والی شاعری کو اگلی نسلوں تک کون پہنچائے گا۔ جب بھی یہ خیال آتا ہے تو پریشانی لاحق ہو جاتی ہے کہ ہمارے بچے تو پہلے ہی انگلش میڈیم سکولوں میں زیرِ تعلیم ہیں اور پنجابی زبان اور اس کی شاعری و گائیکی سے نا آشنا ہیں‘ کہیں ان عظیم فنکاروں کے مرجانے کے سبب ہماری ماں بولی ہی نہ مر جائے اور خدانخواستہ یہ زرخیز مٹی بانجھ نہ ہو جائے جسے اللہ دتہ لونے والا کی سریلی آواز نے چار چاند لگارکھے تھے۔