َََََسرزمینِ کربلاکادکھ

میدان کربلا میں امام حسین ؓنے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی اور اللہ سے تائید اور نصرت چاہی۔ اس کے بعد اتمام ِحجت کے لیے دشمنوں کی صفوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: لوگو جلدی نہ کرو‘ پہلے میری بات سن لو۔ مجھ پر تمہیں سمجھانے کا جو حق ہے اسے پورا کر لینے دو اور میرے آنے کی وجہ بھی سن لو۔ اگر تم میرا عذر قبول کر لو گے اور مجھ سے انصاف کرو گے تو تم انتہائی خوش بخت انسان ہو گے لیکن اگر تم اس کے لیے تیار نہ ہوئے تو تمہاری مرضی۔ تم اور تمہارے شریک مل کر میرے خلاف زور لگا لو اور مجھ سے جو برتائو کرنا چاہتے ہو کر ڈالو۔ اللہ تعالیٰ میرا کارساز ہے اور وہی اپنے نیک بندوں کی مدد کرتا ہے۔آپ نے فرمایا کہ لوگو تم میرے حسب و نسب پر غور کرو اور دیکھو کہ میں کون ہوں۔ اپنے گریبانوں میں جھانکو اور اپنے آپ کو ملامت کرو۔ تم خیال کرو کیا تمہیں میرا قتل اور میری توہین زیب دیتی ہے؟ کیا میں تمہارے نبیﷺکا نواسا اور ان کے چچیرے بھائی کا بیٹا نہیں جنہوں نے سب سے پہلے اللہ کے رسولؐ کی آواز پر لبیک کہا اور اس کے رسول پر ایمان لائے۔ کیا سید الشہدا حضرت امیر حمزہ ؓمیرے والد کے چچا نہ تھے؟ کیا جعفر طیار ؓمیرے چچا نہ تھے؟ کیا تمہیں رسول اللہ ﷺ کا وہ قول یاد نہیں جو انہوں نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں فرمایا تھا کہ دونوں نوجوانانِ جنت کے سردار ہوں گے۔ اگر میرا یہ بیان سچ ہے اور ضرور سچ ہے تو بتائو کہ تمہیں ننگی تلواروں سے میرا مقابلہ کرنا ہے؟ اور اگر تم مجھے جھوٹا سمجھتے ہو تو آج بھی تم میں سے وہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے میرے متعلق رسول اللہ ﷺ کی حدیث سنی ہے۔ تم ان سے دریافت کر سکتے ہو۔ تم مجھے بتائو کہ کیا آپ ﷺ کی اس حدیث کی موجودگی میں بھی تم میرا خون بہانے سے باز نہیں رہ سکتے؟لیکن کوفیوں اور ان کے سرداروں کی عیاری‘مکاری اور رعونت کے باعث ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ صرف حربن یزید تمیمی پر آپ کی اس تقریر کا اثر ہوا اور وہ یہ کہتے ہوئے لشکر حسینؓ میں شامل ہوگئے کہ یہ جنت یا دوزخ کے انتخاب کا موقع ہے‘ میں نے جنت کا انتخاب کر لیا ہے خواہ مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے یا جلا دیا جائیـ۔ آخر کار امامِ عالی وقار اسلام کی سربلندی ‘دین ِحق کی بقااور اپنے محبوب ناناسے بے پناہ محبت کو سچ ثابت کرنے کیلئے معرکۂ حق وباطل میں حیدرِکرارکی بے مثل شجاعت کا پیکر بن کر سینہ سپر ہوئے اور ایثاروقربانی کی اک ایسی لازوال داستان رقم کر ڈالی کہ آج تک ہر دل کی دھڑکن میں نامِ حسین ؓ اَمر ہو چکا۔
کسی بھی معتبر قوم کے لیے اس کے ماضی کی شاندار روایات نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں اوروہ ان سنہری روایات سے حال کشیدکرتی ہے۔ امام حسین ؓنے یزید کے ہاتھ پر بیعت نہ کر کے حق پرستی‘ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے اور باطل کے سامنے ڈٹ جانے کی روایت قائم کی۔یہ قربانی ہمارے لیے مشعل راہ اور ایک نمونہ ہے کہ ہم اپنے اپنے حالات میں اس کی پیروی کریں‘ مگر یہ بد قسمتی ہے کہ ہم سامراجی خدائوں کی اطاعت میں حق پرستی کو بھول کر حسینی روایات سے میلوں دورکھڑے نظر آتے ہیں۔ امام حسین ؓنے اپنے اہل و عیال اپنے نانا کے دین پر قربان کر کے وفاشعاری کی روایت قائم کی مگر ہم ان قابلِ فخر روایات کو اپنی عملی زندگیوں میں شامل کرکے اپنی اگلی نسل تک صحیح معنوں میں پیغامِ حسینؓ نہیں پہنچا سکے۔ امام حسینؓ ؓنے اپنی ذات کو پسِ پشت ڈال کر دینِ حق کی سلامتی و سربلندی کو ترجیح دی جبکہ ہم ذاتی مفادات کی جنگ میں الجھ چکے ہیں۔ آج بظاہر حسینیت کا علم تھامے ہوئے ہیں مگر اس قربانی کے مقاصد کے ساتھ ہماری کمٹمنٹ نظر نہیں آتی۔ کربلا کے پیاسے ہونٹوں کی خشکی کو فراموش کر کے جام و سرور کی محفلوں میں جا بیٹھے ہیں۔ اطاعت کا معیار کردار نہیں‘ طاقت‘ جاہ و حشم اوردولت ٹھہر چکا ہے۔پوری مسلم اُمہ اندرونی خلفشار‘گروہی انتشار اور فرقہ پرستی کا شکار ہوکر اغیار کے سامنے بچھی پڑی ہے اور ذلت ورسوائی کے زخم چاٹ رہی ہے۔اسی حالتِ زار کو شاعرِمشرق حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمداقبال نے اپنے شہرہ آفاق کلام شکوہ جواب شکوہ میں اس طرح اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے:
دمِ تقریر تھی مسلم کی صداقت بے باک
عدل اس کا تھا قوی‘ لوثِ مراعات سے پاک
شجرِ فطرتِ مسلم تھا حیا سے نم ناک
تھا شجاعت میں وہ اک ہستی ٔفوق الادراک
جو بھروسا تھا اُسے قوتِ بازو پر تھا
ہے تمہیں موت کا ڈر‘ اُس کو خدا کا ڈر تھا
ہر کوئی مستِ مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو! یہ اندازِ مسلمانی ہے
حیدری فقر ہے نہ دولتِ عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبتِ روحانی ہے؟
آج ہم سب کو امام حسینؓ سے عشق کا دعویٰ تو ضرور ہے لیکن خاکِ کربلاشاہدہے کہ دعویٰ عشق کی پاسداری کون کر رہا ہے اور کون حسینیت کو فراموش کرچکا ہے۔سرزمینِ کربلا کے اسی کرب کو شورش کاشمیری نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا ہے کہ ہم مردہ یزید پر لعنتیں بھیجتے ہیں مگرزندہ یزیدوں کی پوجا کررہے ہیں۔آج بھی کرب وبلا عراق‘ ایران‘فلسطین اور افغانستان میں برپا ہے۔ امام حسین ؓ کی قربانی اور حق پرستی کا جذبہ اکناف عالم میں پھیل چکا ہے اور وہ مظلوم‘مجبوراور مقہور قوموں کے دلوں میں موجزن ہے۔ اگر امام حسینؓ میدانِ کرب وبلا میں عظیم قربانی نہ دیتے تو آج ہر محلے‘گلی‘گاؤں اور شہر میں یزید مظلوموں کو جینے نہ دیتے۔ہم دیکھتے ہیں کہ ظلم ‘ ناانصافی ‘ رعونت اور جبر کا دنیا میں سب سے بڑا نشانہ مسلمان ہیں اور اس ناقابلِ بیان دکھ کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں اسوہ حسینی سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے جو یہ بتاتا ہے کہ حق کی خاطر ڈٹ جانا ہی بقا کی ضمانت ہے۔ اگر آپ سمجھوتے کرتے رہیں ‘ ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو نظر انداز کریں اور حق کو پسِ پشت ڈالیں گے تو نہ عزت کی زندگی نصیب ہو گی نہ قومی تشخص پروان چڑھے گا۔ امام حسین ؓ کی قربانی کی صورت میں ہمارے پاس وہ نمونۂ ہدایت موجود ہے جس کی پیروی کی جائے تو عالمی سطح پر در پیش مسائل میں سے بیشتر کا خاتمہ ممکن ہے۔ مگر مد نظر رہے کہ در س حسین ؓ صرف یہی نہیں بتاتا کہ بیرونی اور خارجی عوامل کا مقابلہ کس طرح کرنا ہے بلکہ ہمیں اسی میں داخلی سماجی مسائل سے نمٹنے میں بھی مدد ملتی ہے‘ ہمیں اپنے سیاسی نظام ‘ سماجی ڈھانچے اور عوامی سطح پر طرز عمل میں بھی اس سے رہنمائی ملتی ہے۔ امام عالی مقام کی شہادت کا سبب ان کا کوئی ذاتی اختلاف نہ تھا ‘ آپ ایک اجتماعی مقصد کو لے کر کھڑے ہوئے تھے‘ یعنی کسی سماج میں نمایاں مقام رکھنے والی شخصیات پر یہ آج بھی اسی طرح فرض ہے کہ وہ قومی مقاصد کی پامالی کے خطرے کے مقابل ڈٹ جائیں۔ جمہوری نظام میں جہاں ووٹ کے اختیار نے ہر شخص کو اہم مقام پر فائز کر دیا ہے تو یہ بلا تفریق ہر فرد کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ اپنے اس حق کا استعمال نہایت سوجھ بوجھ کے ساتھ کرے۔حق بینی و حق آگاہی کی صلاحیت کو کام میں لائے‘ ضمیر کی آواز کو نظر انداز نہ کرے۔ نااہل ‘ قومی مقاصد سے نابلد اورابن الوقت لوگوں کے مقابلے میں قومی مفادات سے آگاہ‘ دیانتدار اور باصلاحیت افراد کو حقِ حکومت دلانا بھی اسوہ حسینی ہے۔ سماجی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانا‘ کمزوروں کے ساتھ کھڑے ہو جانا‘ خواہ یہ آپ کی گلی کی سطح پر ہو‘ قومی سطح پر یا عالمی سطح پر‘ یہ بھی اسوہ حسینی ہے۔ حق اور انصاف کو طاقت کے زور پر مسخ کرنے والوں کے مقابلے میں کھڑا ہونا کتنا اہم ہے اس کا اندازہ ہم سماجی سطح پر لگا سکتے ہیں کہ کتنے ہی معاملات میں کسی ایک فرد کا قیام ملکی اور بعض اوقات عالمی سطح کی تحریک کی صورت اختیار کر گیا۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ ہم اپنے ذاتی مفادات‘ لالچ یا خوف میں اکثر ایسا نہیں کرپاتے اور یہ بھی سر زمین کربلا کے لیے در حقیقت دکھ کی ایک وجہ ہے کہ ہم اس قربانی کو مان کر بھی اس کی پیروی اور اس سے سیکھنے سے محروم ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں