یہ امر روزِ روشن کی طرح واضح اور عیاں ہے کہ افراد ہی اقوام کی تقدیر کے معمار ہوتے ہیں اور ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ بن کر عالمی افق پر پوری آب و تاب سے چمک کر اپنی روشنی سے نہ صرف اپنے ملک و قوم کی پہچان بنتا ہے بلکہ انسانی زندگیوں میں آسودگی اور خوشحالی کا باعث بھی بنتا ہے۔ جب قوم کا ہر شخص اپنے اندر احساسِ ذمہ داری اور قومی جذبہ اجاگر کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر وہ قوم عالمی برادری میں عزت اور افتخار کی دولت سے سرفراز ہو جاتی ہے۔ اسی حقیقت کو پہچانتے ہوئے امریکی تاریخ کے سب سے کم عمر منتخب ہونے والے صدر جان ایف کینیڈی نے اپنے پہلے صدارتی خطاب کے دوران اپنی قوم کو للکارتے ہوئے کہا تھا ''مجھ سے یہ نہ پوچھیں کہ یہ ملک آپ کے لیے کیا کر سکتا ہے بلکہ یہ پوچھیں کہ آپ اس ملک کے لیے کیا کر سکتے ہیں‘‘۔ قومی ذمہ داری اور انفرادی شعور کا کلیدی کردار ہی دراصل کسی بھی قوم کو عظیم سے عظیم تر بنانے کا نسخۂ کیمیا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہماری معیشت کی مضبوطی اور استحکام کیلئے محصولات کا بڑھنا اوران میں مسلسل اضافہ لازمی امر ہے، ہم اپنے حصے کا ٹیکس ادا کرنے سے پہلوتہی کرتے ہیں۔ ڈرائنگ روم میں سجی محفلِ یاراں ہو یا کسی چوک چوراہے میں ہونے والی گفتگو، کوئی علمی مباحثہ ہو یا آپس کی غیر رسمی بات چیت‘ ہر موقع پر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ہم ٹیکس کیوں دیں؟ آخر حکومت ہمارے لیے کرتی ہی کیا ہے اور کون سی سہولتیں وہ ہمیں فراہم کر رہی ہے کہ ہم قومی خزانے میں اپنا حصہ ڈالیں اور اپنی آمدنی سے ٹیکس ادا کریں؟ مجھے تعلیمی اداروں، تاجر تنظیموں اور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی مختلف تقریبات اور سیمینارز میں گفتگو کیلئے مدعو کیا جاتا ہے اور متذکرہ بالا سوال ہمیشہ میرے سامنے رکھا جاتا ہے۔ اگرچہ میں سرکاری حیثیت میں حکومتِ وقت کی نہ تو نمائندگی کر رہا ہوتا ہوں اور نہ ہی ترجمان کی ذمہ داری سر انجام دیتا ہوں بلکہ اپنی ذاتی حیثیت میں ان کے سامنے چند معروضات رکھ کر اس اہم سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہمارے سرکاری سکولوں میں تعلیم بالکل مفت ہے اور انہی اداروں سے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات آج بھی سول سروس سے لے کر ڈاکٹرز، انجینئرز اور دیگر شعبہ جات میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں جبکہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں سکول لیول پر ہزاروں اور کالج و یونیورسٹی لیول پر لاکھوں روپے فیس ادا کرنا پڑتی ہے جبکہ عالمی رینکنگ میں آج بھی پاکستان کی صفِ اول کی درسگاہ قائدِاعظم یونیورسٹی اسلام آباد ہے جہاں درس و تدریس کے اعلیٰ معیار کے علاوہ سائنسی تحقیق پر قابلِ تحسین توجہ دی جاتی ہے۔ شعبۂ صحت میں دیکھیں تو ہمارے سرکاری ہسپتالوں میں روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں مریضوں کے مفت علاج معالجہ کے علاوہ آپریشن اور قیام و طعام کی سہولتیں بھی فراہم کی جاتی ہیں جبکہ خدانخواستہ آپ یا آپ کے کسی عزیز کا واسطہ کسی بھی پرائیویٹ ہسپتال سے پڑ جائے تو چند ایام کے علاج کے بعد لاکھوں روپے کا بل آپ کے ہاتھ تھما دیا جاتا ہے۔ اگرچہ پولیس کی کارکردگی پر بے پناہ سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں مگر پھر بھی‘ کیا آپ رات کو موٹروے یا قومی شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے گشت پر مامور پولیس کی گاڑی اور اس پر جگمگاتی اور دور سے نظر آنے والی نیلی بتی دیکھ کر اپنے آپ کو محفوظ محسوس نہیں کرتے؟ کیا آپ کے بچے یہ دیکھ کر اطمینان کا اظہار نہیں کرتے؟ کیا یہ بھی درست نہیں کہ بے ہنگم ٹریفک کو منظم انداز میں رواں دواں رکھنے والا محض ایک کانسٹیبل اگر چوک میں موجود نہ ہو تو وہاں آناً فاناً طوفانِ بدتمیزی برپا ہو جاتا ہے۔ کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ آپ کا بیٹا یا بیٹی محض چند ہزارخرچ کر کے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج جیسے عالمی معیار کے ادارے سے ڈاکٹر بننے میں کامیاب ہو جاتا ہے جبکہ یہی ڈگری کسی بھی نجی میڈیکل کالج میں ایک کروڑ سے بھی زائد رقم خرچ کر کے ہی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ یہی حال ڈینٹیسٹری، انجینئرنگ اور دوسری پیشہ ورانہ تعلیم کا ہے۔ ملک بھر میں موٹر وے کی سہولت کے علاوہ قومی شاہراہیں، پبلک ٹرانسپورٹ، ہوائی اڈے، بندر گاہیں، پارکس، سیر و سیاحت کے مقامات، سٹیڈیم اور دیگر سرکاری املاک اور ان پر اٹھنے والے اخراجات‘ یہ سب کہاں سے پورے ہوتے ہیں؟ یہ سب آپ کے ادا کردہ ٹیکسز سے ہی ممکن ہو پاتا ہے۔ اس کے علاوہ عوامی فلاح و بہبود کیلئے پناہ گاہیں، لنگر خانے، بیت المال اور زکوٰۃ کے نظام سے بھی لاکھوں افراد مستفید ہوتے ہیں۔ ہاں! یہ بھی حقیقت ہے کہ ان جملہ سہولتوں میں اضافے اور بہتری کی گنجائش ہمیشہ سے موجود رہی ہے اور آج بھی ہے مگر اس کیلئے زیادہ رقوم درکار ہیں اور ہمیں قومی تعمیر و ترقی کے عمل میں تیزی اور بہتری لانے کیلئے اپنے وسائل اور آمدن کے مطابق ٹیکس ادا کرنا ہے‘ تبھی ہم وطنِ عزیز کو خوشحال، خود مختار اور خوددار بنا سکتے ہیں۔
ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ہماری مشرقی اور مغربی سرحدیں ہمیشہ سے ہی ہماری قومی سلامتی اور داخلی استحکام کیلئے خطرات کا باعث بنتی رہی ہیں اور مسئلہ کشمیر کے پُرامن حل تک ہم کبھی بھی اپنی دفاعی طاقت اور حکمتِ عملی پر سمجھوتا نہیں کر سکتے اور نہ ہی قومی ترجیحات میں دفاعِ پاکستان کی بنیادی حیثیت کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ آبادی اور عسکری طاقت میں ہم سے کئی گنا بڑا دشمن ملک اپنے تمام تر مذموم ارادوں اور ناپاک سازشوں کے باوجود ہماری جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی خلاف ورزی کی جرأت نہیں کر سکا اور آج الحمدللہ پاکستان ایک ایٹمی قوت کی حیثیت سے پوری مسلم امہ میں عزت و احترام سے دیکھاجاتا ہے۔ اندرونی خطرات اور ملک دشمن عناصر سے نمٹنے کیلئے ہماری مسلح افراج، پاکستان رینجرز اور پولیس کے جوانوں اور افسران نے اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کیے ہیں تاکہ ہم پاک سرزمین پر آزادی کے ساتھ پُرامن زندگیاں گزار سکیں۔ ان شیر جوانوں نے ہمارا کل محفوظ بنانے کیلئے اپنا آج قربان کر دیا اور عظیم مائوں کے سجیلے جوانوں نے اپنے خونِ جگر سے ہمارے پیارے وطن کی آبیاری کی۔ یہ جذبہ ہمارا مشترکہ اثاثہ ہے اور ان شہیدوں کی امانت بھی۔ لہٰذا اپنے قومی پرچم کو ہمیشہ سر بلند رکھنا ہماری اجتماعی قومی ذمہ داری ہے اور اس کیلئے ہمیں آگے بڑھنا ہے اور قومی معیشت کو اندرونی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ سے نکالنے کیلئے اور معاشی خود انحصاری حاصل کرکے کشکولِ گدائی توڑنے کیلئے قومی خزانے میں اپنے حصے کا ٹیکس جمع کرانا ہے۔ وطنِ عزیزکی اس سے بڑی خدمت کوئی اور نہیں ہو سکتی اور نہ ہی حب الوطنی کے اظہارکا اس سے بہتر کوئی ذریعہ ہوسکتا ہے۔
اس ساری گفتگو کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس ملک میں ٹیکس ادا کرنے والے لوگ موجود نہیں، ایسا نہیں ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں ملک میں ٹیکس فائلرز کی تعداد 15 لاکھ سے بڑھ کر 29 لاکھ ہو گئی ہے اور اس میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔ ایف بی آر نے گزشتہ مالی سال میں ریکارڈ ٹیکس جمع کیا اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ 4 ہزار ارب کی نفسیاتی حد عبور کر کے 47 سو ارب سے زائد محصولات اکٹھے کیے۔ رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ میں 850 ارب سے زائد ٹیکس وصول کیا گیا اور اس سال کیلئے مختص کیے گئے 5837 ارب روپے کے محصولات کو یقینی بنانے کیلئے شاندار آغاز کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بیرونِ ملک پاکستانی بھی بڑھ چڑھ کر رقوم پاکستان میں منتقل کر رہے ہیں جبکہ روشن ڈیجیٹل اکائونٹ میں جمع کروائی گئی رقم 2 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بھی بیرونِ ملک پاکستانیوں کی تقلید کرتے ہوئے قومی معیشت کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کریں اور اپنے اپنے حصے کا ٹیکس ادا کریں۔ یہ پوچھنے کے بجائے کہ یہ ملک ہمارے لیے کیا کر سکتا ہے‘ یہ پوچھیں کہ ہم اس کیلئے کیا کر سکتے ہیں۔ اقوامِ عالم میں وطنِ عزیز پاکستان کو باعزت مقام دلوانے کا راز اسی بات میں مضمر ہے۔