آلِ رسول اور اہلِ بیت اطہارؓ کی نسبت اُن کے خون میں شامل ہوئی اور سادات گھرانے میں آنکھ کھولی۔ گھر والوں نے حیدرِ کرار، فاتح خیبر حضرت علیؓ کے نامِ نامی سے نسبت جوڑی تو وہی شجاعت، وجاہت اور ہیبت گھٹی میں شامل ہو گئی۔ نواسۂ رسولﷺ کی کربلا میں دی جانے والی عظیم قربانی اور باطل کے جبر و استبداد کے سامنے کلمۂ حق پر صبر و رضا کے ساتھ ڈٹ جانے کی خُواور اس کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کا جذبہ انہیں ورثے میں ملا۔ یہی لازوال میراث 92سال تک اس مردِ قلندر کی عظمتِ کردار کی گواہی دیتی رہی اور اس عظیم کشمیری سیاسی رہنما کی متاعِ حیات ٹھہری جسے دنیا بھر کے لوگ سید علی شاہ گیلانی کے نام سے جانتے تھے۔ وہ چند روز قبل‘ یکم ستمبر کو بھارتی جارحیت اور ظلم و ستم کے خلاف لڑتے لڑتے بالآخر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے اور اپنے عظمتِ کردار اور علمِ و فضل کے خزانے سمیت منوں مٹی تلے جا سوئے۔
29 ستمبر1929ء کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ کے قصبے سوپور کے ایک گائوں ڈورہ میں پیدا ہونے والے اس مردِ مجاہد نے اپنی ابتدائی تعلیم مقامی سکول سے حاصل کی،پھر اعلیٰ تعلیم کیلئے لاہور کا رخ کیا اور اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئے۔ حصولِ تعلیم کے بعد جماعتِ اسلامی میں شمولیت اختیار کی اور عملی سیاست کا آغاز کر دیا ۔ کشمیریوں کے حقوق کی آواز بلند کی، تقسیمِ ہند کے وقت کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ کی جانب سے عیاری، مکاری اور چالاکی پر مبنی بھارت کے ساتھ ہونے والے الحاق کو مسترد کیا اور اقوامِ متحدہ کی قرارداد کی روشنی میں کشمیریوں کے لئے حقِ خود ارادیت کا مطالبہ ببانگِ دہل دہرانا شروع کیا تو بھارت سرکار نے 1962ء میں دس سال کیلئے پابند ِ سلاسل کر دیا۔ قید و بند میں ان پر مظالم کی انتہا کر دی گئی تاکہ اس مردِ حُر کے جوش و جذبے کو ٹھنڈا کیا جا سکے مگر ایسا نہ ہو سکا۔
جیل سے رہائی کے بعد سید علی گیلانی کے جوشِ خطابت میں روانی بڑھ گئی۔ الفاظ کے چنائو میں مزید نکھار آگیا اور لہجے میں ترشی اور کاٹ کا عنصر نمایاں ہوا تو اُن کی مقبولیت میں بھی گراں قدر اضافہ ہونے لگا۔ اپنے آبائی حلقے سوپور سے وہ تین بار منتخب ہو کر مقبوضہ وادی کی پارلیمنٹ میں اپنی خطابت کے جوہر دکھاتے رہے اور بھارتی حکومت کو نہ صرف اقوامِ متحدہ کے ساتھ کئے گئے وعدے یاد دلاتے رہے بلکہ انہیں کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کرنے اور استصوابِ رائے کا مطالبہ دہراتے بھی نظر آئے۔ وہ لگ بھگ پانچ دہائیوں تک کشمیر کی سیاست پر چھائے رہے اور 1993ء میں مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے اتحاد پر مبنی آل پارٹیز حریت کانفرنس کا قیام عمل میں آیا تو جلد ہی اُس کے سربراہ منتخب ہو گئے۔یہ ذمہ داری انہوں نے گزشتہ سال جون تک بطریقِ احسن ایسی نبھائی کہ اپنے جوشِ خطابت اور علم و فضل کی طاقت سے ہمیشہ بھارت سرکار کیلئے خوف کا استعارہ بنے رہے۔ وہ حکومتی جارحیت کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے رہے اور ہمیشہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ اُن کا نام کشمیریوں کی مزاحمت کی علامت بن گیا اور اُن کی تقریریں اور تحریریں کشمیری نوجوانوں کو بھارتی مظالم کے خلاف لشکرِ حسینؓ کی بے باکی اور حریت پر مائل کرتی رہیں۔ گیلانی صاحب تنِ تنہا کشمیریوں کی آواز بن کر اُن کے حقوق کی جنگ لڑتے رہے اور بھارتی مظالم، کرفیو اور قید و بند کی اندھیری راتوں سے گھبرانے کے بجائے ہمیشہ امید و آرزو کے چراغ جلاتے رہے۔ جب کشمیریوں کی ساری قیادت حوصلہ ہار جاتی ‘وہ تب بھی نئے جذبے، نئی امنگ اور ترنگ کے ساتھ کشمیری نوجوانوں کوپکارتے اور اپنے جوشِ خطابت سے اُن کے لہو گرماتے نظر آتے تھے۔ اُن کی آواز کی گونج وادیٔ کشمیر کے دونوں اطراف میں سنائی دیتی اور اس کی بازگشت دہلی کے طاقت کے ایوانوں کو لرزا دیتی۔
گیلانی صاحب عمر بھر ''جرمِ عشق ‘‘میں مبتلا رہے اور اسے کمال مہارت، متانت اور سچائی کے ساتھ اوجِ ثریا کی بلندیوں تک پہنچایا۔ کارزارِ سیاست سے عشق کیا تو کشمیر دشمنوں کیلئے خوف کی علامت بن گئے اور کشمیریوں کے سب سے محبوب اور مقبول لیڈر کے طور پر تادم ِ حیات چھائے رہے۔ حق گوئی، راست بازی اور اصولوں پر مبنی اُن کی سیاسی جدوجہد سیاہ فام افریقی رہنما نیلسن منڈیلا کی چھبیس سالہ قید و بند سے بھی زیادہ مشکلات اور آزمائشوں سے بھرپور رہی مگر وہ ظالم بھارتی درندوں کے سامنے علمِ حسینؓ تھامے سینہ سپر رہے اور جرأت و بہادری کی فقید المثال داستان رقم کرتے رہے۔
سیاست کے بعد انہیں علم و آگہی سے گہرا شغف تھا‘ اور تمام عمر فکری ریاضت میں مشغول رہے۔ انہیں قرآنِ مجید،تاریخِ اسلام، سیاسی تاریخ، اردو زبان اور فارسی سے عشق کی حد تک لگائو تھا۔گفتگو میں روانی اور الفاظ کے ساتھ جادو جگانے کا فن بھی ان کے گہرے مطالعے اور فکری تحقیق کا عملی مظہر تھا۔ انہوں نے ساری زندگی کلامِ اقبالؒ کو اپنی فکری پختگی اور خطابت کی طاقت کیلئے بطورِ ہتھیار استعمال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے شاعرِ مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کے فارسی زبان میں تین شعری مجموعوں کا اردو ترجمہ بھی کیا۔ اس کے علاوہ بھی درجنوں کتب تصنیف کیں جن میں ایام اسیری پر مبنی ''رودادِ قفس‘‘ نمایاں ہے۔ کشمیر اور پاکستان کے ساتھ ان کا عشق اُن کا سب سے بڑا جرم تھا جس کی پاداش میں انہیں قید و بند کی صعوبتیں عمر بھر جھیلنا پڑیں۔ انہیں عشق کے اس امتحان سے کئی بار گزرنا پڑا مگر ہر بار وہ سرخرو ہوکر نکلے اور ان کا عشق فتح یاب ہوا۔ گولیوں کی بوچھاڑ اور بارود کی چار سو پھیلی بُو بھی ان کے پائے استقلال اور استقامت میں لغزش کا سبب نہ بن سکی ۔وہ باطل طاقتوں کے نرغے میں ''ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘‘ کا نعرۂ حق بلند کرتے رہے۔ عمر بھر رسم ِ شبیری ادا کرنے والے سید علی گیلانی کہتے جاتے، ''میرا نام علی ہے اور میں دہشت گرد نہیں ہوں، میں کشمیر میں پاکستان کا پرچم ہوں، ہاں! وہی کشمیر جو پاکستان کہ شہ رگ ہے‘‘۔
سید علی شاہ گیلانی آگے بڑھتے رہے اور عمرِ رواں تیزی سے اس جہاندیدہ شیر کو جسمانی طور پر کمزور کرتی گئی۔ گزشتہ سال جون میں انہوں نے خرابیِٔ صحت کے سبب آل پارٹیز حریت کانفرنس کی سربراہی سے رضاکارانہ دستبرداری کا اعلان کیا اور اپنے نائب محمد اشرف صحرائی کو قیادت سونپ دی‘ جوماہِ مئی میں بھارتی قید میں کورونا کے سبب وفات پا گئے۔ سید علی گیلانی آخری لمحے تک کشمیریوں کی آواز بنے رہے اور پاکستان ہی کو کشمیریوں کا اصل وطن اور حقیقی ٹھکانہ قرار دیتے تھے۔ بھارتی دہشت گردی کے خلاف وہ دنیا بھر میں اپنی تحریر و تقریر سے آواز بلند کرتے رہے۔ انہیں اپنے ''جرمِ عشق ‘‘پر ہمیشہ ناز رہا اور اس عشق کے سب مراحل میں وہ ہمیشہ اکیلے اور یکتا آگے بڑھتے، لڑتے اور دشمن سے پنجہ آزمائی کرتے نظر آتے۔ اسلام، قرآن ،علم، سیاست، کشمیر اور پاکستان اُن کے عشق کے مختلف پرتو ہیں۔ وہ اپنے سیاسی نظریے، کشمیر اور پاکستان سے والہانہ محبت اور عقیدت سے جڑے رہے۔ یکم ستمبر کو جب ان کی سانسوں کی لڑی ٹوٹی تو انہیں پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر تدفین کیلئے تیار کیا گیا مگر یہ مرا ہوا شیر بھی بھارتی جارحیت کا شکار ہو گیا۔ اس مردِ قلندر کا جسدِ خاکی چھین لیا گیا اور رات کی تاریکی میں وصیت کے برعکس‘ گھر کے قریب ہی انہیں دفنا دیا گیا۔ اُن کی قبرستانِ شہدا میں دفنائے جانے کی خواہش بھی پوری نہ کی جاسکی۔ وہ مردِ مجاہد زندگی بھر دشمنوں کیلئے خوف کی علامت رہا اور مر کر بھی ان کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا۔ فیض احمد فیضؔ نے شاید یہ اشعار برسوں پہلے اسی سچے عاشق اور پکے پاکستانی کے حوالے سے لکھے تھے :
یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سرِ رہ سیاہی لکھی گئی
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سرِ بزمِ یار چلے گئے
نہ رہا جنونِ رخِ وفا، یہ رسن یہ دار کروگے کیا
جنہیں جرمِ عشق پہ ناز تھا، وہ گناہ گار چلے گئے