ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی عید میلادالنبیﷺ پورے مذہبی جوش وخروش، مثالی عقیدت اور مذہبی احترام کے ساتھ منائی گئی۔ دنیا بھر کے مسلمانوں نے نبی آخر الزماںﷺ کی ولادتِ باسعادت کی خوشی میں گھروں میں چراغاں کیا، درود و سلام کا ہدیۂ عقیدت پیش کیا، نعتیہ اشعار کے نذرانے بارگاہِ رسالت مآبﷺ میں پیش کیے اور ہزاروں افراد پر مشتمل قافلوں نے جلوس نکالے۔ اس موقع پر سرکاری و نجی عمارات کو رنگ برنگی روشنیوں کے ساتھ دلہن کی طرح سجایا گیا۔ سرکاری و نجی اداروں اور درسگاہوں میں نعت و درود شریف کی محافل کا انعقاد کیا گیا۔ سیرتِ رسولﷺ کے ہر ہر گوشے پر سیر حاصل گفتگو ہوئی اور اسوہِ کامل پر چلنے کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا۔
اس مرتبہ جشن ولادتِ رسولﷺ کا ایک نمایاں پہلو حکومتِ پاکستان کی سرپرستی رہا۔ وزیرِاعظم کی طرف سے رحمۃ للعالمین اتھارٹی کا قیام ایک خوش آئند اقدام کے طور پر سراہا گیا‘ اس اتھارٹی کے مقاصد میں ریاستِ مدینہ کی طرز پر مملکت کی ترقی کا راستہ ہموار کرنا، نوجوانوں میں دینِ اسلام کی تعلیمات کو فروغ دینا اور انہیں اسوۂ کامل پر عمل پیرا کرنا، دین اسلام کا گہرا مطالعہ اور تاریخ پر دسترس رکھنے والے علماء کرام کی زیرِ نگرانی مذہبی تحقیق کو آگے بڑھانا، دینِ اسلام کے خلاف جاری پروپیگنڈے کا بھرپور مقابلہ کرنا، اس کے علمی اور منطقی جواب میں اسلام کا صحیح تشخص اجاگر کرنا اور عالمی امن کا قیام یقینی بنانے کے لیے پاکستان کے کردار کو نمایاں کرنا شامل ہیں۔ یہ بلاشبہ اسلاموفوبیا کے خلاف ایک مضبوط دفاعی لائن کھڑی کرنے کیلئے اٹھایا جانے والا قابلِ تحسین قدم ہے۔ اس اتھارٹی کے منشور کو آگے بڑھاتے ہوئے پنجاب حکومت بھی میدان میں آگئی ہے اور وزیراعلیٰ نے ایک ارب سے زائد رقم رحمۃ للعالمین سکالر شپ کیلئے مختص کر دی ہے جس کے تحت ہونہار اور مستحق طلبہ و طالبات کو اپنے تعلیمی اخراجات میں درپیش مشکلات کے حل میں مدد ملے گی اور وہ مالی پریشانیوں سے آزاد ہو کر پوری یکسوئی سے اپنی تعلیم مکمل کر کے ملک و قوم کے قابلِ فخر سپوت بن کر اس کی عزت و وقار میں اضافہ کا سبب بنیں گے۔
سیرتِ طیبہ کے حوالے سے ایوانِ صدر میں ایک شاندار تقریب ہوئی اور کنونشن سنٹر میں وزیراعظم پاکستان کی زیرِ صدارت ایک روح پرور تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اس ماہِ مبارک کا تقدس بلاشبہ اسی جذبۂ ایمانی کا متقاضی ہے اور جشن آمدِ رسولﷺ پر جس قدر خوشی اور شادمانی کا مظاہرہ کیا جائے‘ وہ کم ہے۔ مگر یہاں پر سب سے اہم سوال اسوۂ رسولؐ سے سیکھ کر اسے اپنے لئے مینارۂ نور بنا کر اپنی زندگیوں کو اس سانچے میں ڈھالنے کا ہے۔ مذکورہ ساری تقاریب، دروس و خطبات، درود و سلام کی محافل، ذکرِ مصطفیﷺ کی تقریبات اور جلسے جلوسوں کا حاصل یہ ہے کہ ہمیں عملی طور پر اپنے محبوب نبیﷺ کی حیاتِ طیبہ سے سیکھ کر اپنی شخصیت اور کردار میں اسوۂ حسنہ کی جھلک نمایاں کرنی چاہیے۔ بطورِ مسلمان ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے آقا محمد مصطفیﷺ نے عرب کی سر زمین پر چھائی جہالت، اخلاقی پسماندگی اور جرائم کے خاتمے کیلئے سب سے پہلے اپنی ذات اور اپنے کردار کو عملی نمونہ بنایا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ نبوت کے اعلان سے پہلے ہی آپﷺ کے کردار کے چرچے چہارسو پھیل چکے تھے۔ آپﷺ کو صادق و امین کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ راست گوئی، سچ، اخلاص، اعلیٰ اخلاق اور صبر و رضا آپﷺ کے کردار کی خوشبو بن کر کفارِ مکہ کو اپنا گرویدہ بنا چکے تھے۔ پھر اعلانِ نبوت کے بعد جب آپﷺ نے دینِ حق کی صدا بلند کی تو آپؐ کی تعلیمات ہر کسی کو اپنے سحر میں جکڑنے لگیں۔ اسلام کا پیغام جہالت کی سیاہ رات میں صبحِ نور بن کر شعور و آگہی کا استعارہ بن گیا۔ آپﷺ نے مکہ والوں کی ایذا رسانیوں، دشنام طرازیوں اور ظلم و بربریت کا صبر و استقامت کا پیکر بن کرمقابلہ کیا اور اپنے کردارکی طاقت سے کفار کے پتھرائے ہوئے دلوں کو نرم کیا اور انہیں اپنے شیریں کلام سے فتح کیا۔ جب آپﷺ نے اپنے بدترین دشمنوں کیلئے دعا کی اور اپنے راستوں میں کوڑا کرکٹ پھینکنے والوں کی تیمارداری کی تو کفار نے طاقتِ کردار کا فقیدالمثال مظاہرہ دیکھا۔ پھر ہجرتِ مدینہ کا وقت آیا تو بھی اپنے چچا زاد بھائی حضرت علیؓ کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ کفارِ مکہ کو اُن کی امانتیں واپس کریں گے اور پھر مدینہ کا رختِ سفر باندھیں گے۔ بعد ازاں یہی کردار مدینہ کی نوزائیدہ ریاست کے قیام، اس کے استحکام اور مضبوط دفاع کی ضمانت بنا۔ مہاجرین و انصار کے درمیان مثالی بھائی چارے سے لے کر غیر مسلم قبائل کے ساتھ مل کر ایک مثالی ریاست کے وجود کو عملی طور پر عدل و انصاف اور اخوت و مساوات کے سنہری اصولوں پر حقیقی طور پر فعال کر کے دنیا کیلئے ایک مثال بنا دیا۔ یہی اُن کے اسوۂ کامل کی حقانیت کی دلیل بھی ہے۔
بد قسمتی سے آج دنیا بھر کے مسلمان ہدفِ تنقید بنے ہوئے ہیں اور مغربی استعمار اور معاشی سامراج نے چاروں طرف سے مسلمانانِ عالم کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ امتِ مسلمہ اندرونی انتشار کی وجہ سے پسماندگی اور بے چارگی کا شکار ہے۔ فلسطین میں اسرائیلی جارحیت ہو یا کشمیری نہتے مسلمانوں پر مودی سرکار کی بربریت، شام و مصر و یمن ہو یا لیبیا، عراق اور افغانسان میں امریکی قیادت میں نیٹو افواج کی یلغار، روہنگیا کے مسلمانوں کی حالتِ زار یا خلیج میں سسکتے ترپتے عوام‘ ہر جگہ مسلمان ہی ظلم و ستم کا نشانہ بنائے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف امن کے دعویدار، جمہوریت کے علمبردار اور انسانی حقوق کے پرستار پوری دنیا کو اپنے استعمار کی نت نئی بدلتی چالوں سے یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔ یہ کسمپرسی اور بے بسی پوری امتِ مسلمہ کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ امتِ مسلمہ کی یہ حالتِ زار بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ پوری اسلامی دنیا میں دشمنانِ اسلام کی ناکامی اور اسلام کی سربلندی کیلئے دعائیں مانگی جاتی ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ ہماری دعائوں میں اثر نہیں رہا؟ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں وہی آگے ہیں، معاشی طاقت کے سارے پیمانے ان کے متعین کردہ ہیں، عالمی سیاست پر انہی کا راج ہے اور تجارت میں اغیار ہی کا سکہ چل رہا ہے۔ کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ ہم اپنے گریبان میں جھانکیں‘ اپنے کردار کا محاسبہ کریں اور اپنی انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی کردار کا احاطہ کر کے از سرِ نو اپنی ترجیحات کا تعین کریں۔
جن مغربی ممالک کو ہم نیست و نابود دیکھنا چاہتے ہیں وہاں عدل و انصاف کا بول بالا ہے، معاشی مساوات عام ہے اور انسانی حقوق کے فروغ کے لیے عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ان کی ریاستیں اور حکومتیں ہمہ وقت اپنے شہریوں کی جان، مال اور عزت کے دفاع میں کوئی کسر باقی نہیں اٹھا رکھتیں، انہیں معاشی خوشحالی کے برابر مواقع فراہم کرتی ہیں اور اپنے ملکی مفادات پر سودا بازی ہرگز نہیں کرتیں جبکہ ہم خیرات تو بے شمار کرتے ہیں مگر ٹیکس ادا نہیں کرتے، کاروباری معاملات میں کم تولنا، ذخیرہ اندوزی، گراں فروشی، منافع خوری، لوٹ کھسوٹ اور ملاوٹ کرنے سے باز نہیں آتے۔ رمضان کریم کی آمد پر مغربی ممالک میں اشیائے خور و نوش کو آدھی سے بھی کم قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے مگر مگر ہمارے ہاں انہی چیزوں کی قیمتیں تین گنا تک ہو جاتی ہیں۔ ہمیں گفتار کا نہیں کردار کا غازی بننا ہے۔ یہی انداز اسوۂ کامل کی پیروی کا تقاضا بھی ہے اور دونوں جہانوں میں کامیابی کا ضامن بھی۔ شاعرِ مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کا یہ شعر اسی موضوع کا خوبصورتی سے احاطہ کرتا ہے:
کی محمد سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا‘ لوح و قلم تیرے ہیں