فکرِ اقبال کے وارث

میرے روحانی پیشوا، محسن و مربی پروفیسر رحمت علی المعروف بابا جی کی ساری زندگی ذکرِ خدا، عشقِ مصطفیﷺ اور فکرِ اقبالؒ کی جستجو، تحقیق اور ترویج میں گزری ہے۔ ان کے مداح انہی حوالوں سے اُن کے سحر میں گرفتار ہو جاتے ہیں، ان کے علم و فضل اورشخصیت و کردار کے گن گاتے ہیں اور ان کے فیضِ عام سے مستفیض ہوتے ہیں۔ بابا جی کا کمال یہ ہے کہ وہ عجز و انکسار کا پیکر ہیں اور ہمیشہ خود کو ایک طالبعلم گردانتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ علمی و فکری میدان میں انہوں نے جو کچھ سیکھا یا سکھایا‘ یہ دولت ا نہیں شاعرِ مشرق، حکیم الامت، عظیم فلسفی حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کی شاعری میںموجود نادر نظریات اور بلند پایہ خیالات کی بدولت ملی۔ وہ یقینا علامہ اقبال کے فن اور شخصیت پر گفتگوکا ملکہ رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ماہِ نومبر کی آمد کے ساتھ ہی ان کی مصروفیات بڑھ جاتی ہیں۔ انہیں ملک بھر میں ہونے والی تقریبات میں مدعو کیا جاتا ہے اور جیدی میاں اُن کے تمام پروگرامز اور سرگرمیوں کو مرتب کرتے ہیں ۔جیدی میاں بڑی مہارت، خندہ پیشانی اور وضعداری سے تمام دعوت نامے وصول کرتے ہیںاور بابا جی کے احکامات کی روشنی میں انہیں ترتیب دیتے ہیں۔ بابا جی کی گفتگو سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے اور ہر شہر میں اُن کے پرستار موجود ہیں۔ میری خوش بختی کہ مجھے بابا جی کی نظرِ التفات کی نعمتِ نایاب نصیب ہوئی اور گزشتہ دو دہائیوں سے اُن کی صحبت میں تربیت کے کٹھن مراحل طے کرنے کا موقع ملا۔ بلاشبہ اگر میرے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں کوئی ربط اور تاثیر ہے تو یہ بابا جی کی ہی توجہ، تربیت اورفکری ریاضت کے سمندر کے پاتالوں سے ملنے والے گوہر ِنایاب کے سبب ہے۔
ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی9 نومبر کی شام بابا جی کی رہائش گاہ پر علامہ اقبال کی ولادت باسعادت کے حوالے سے ایک پُروقار تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں نہ صرف ملک بھرسے بابا جی کے مداحین تشریف لائے بلکہ فکرِ اقبال پر روشنی ڈالنے اور پُرمغز گفتگو کرنے والے اقبالیات کے ماہر مفکرین اور عملی شخصیات بھی شریک ہوئیں۔ نماز ِ مغرب کی ادائیگی کے فوراًبعد نشست کا آغاز ہوگیا۔ سب سے پہلے کلامِ اقبال کو خوش گلو فنکاروں نے نہایت عقیدت سے گایا اور ماحول کو فکرِاقبال کی حرارت سے ایسے گرمایا کہ سامعین جھوم کر رہ گئے۔ اس کے بعد گفتگو کا مرحلہ شروع ہوا اور ملک کی بڑی قدآور علمی شخصیات نے اقبال کی شاعری میں موجود تاریخی حوالوں، فلسفۂ خودی کے اسرار ورموز اور نوجوانوں کو للکارنے والے موضوعات کا احاطہ کیا جن کی بدولت وہ برصغیر کے مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے جگانے میں کامیاب ہوئے۔ اُن کے سیاسی افکار کے حوالے سے بھی مدلل گفتگو ہوئی اور مقررین نے نہایت خوبصورتی سے سامعین پر یہ بات آشکار کی کہ علامہ اقبال کے الہ آباد کے تاریخی اجلاس میں مسلمانوں کیلئے ایک الگ مملکت کے تصور نے گویا انہیں ایک نئی زندگی، ایک نیا ولولہ اور ایک نئی سمت عطا کی جس عظیم خواب کی تعبیر قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے قیام کو یقینی بنا کرہمارے اسلاف کوعطاکر دی۔ یہ علامہ اقبال ہی تھے جو اپنی سیاسی بصیرت اور روحانی طاقت سے بھانپ چکے تھے کہ اُن کے تصور ِ پاکستان کو عملی حقیقت صرف قائداعظم کی شخصیت ہی ممکن بنا سکتی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے قائداعظم محمد علی جناح کو‘ جو دلبرداشتہ ہو کر لندن میں قیام پذیر تھے اور سیاست سے لا تعلقی اختیار کر چکے تھے‘ خطوط لکھے اور انہیں واپس ہندوستان آنے پر آمادہ کیا۔ یہ مصورِپاکستان کا وہ احسانِ عظیم ہے جسے ہماری آئندہ نسلیں بھی نہیں چکا پائیں گی۔ یہ تمام باتیں اس محفل کو معطر کرتی رہیں اور سامعین کو متوجہ کرنے اور فکری دنیا میں سفر کرنے پر مجبور کرتی رہیں۔ ایک پُرکیف ماحول میںایسی گفتگو یقیناسننے والوں کے دلوں میں امیدو آرزو کے کئی چراغ روشن کرتی جارہی تھی اور وہ روشنی سامعین کی چمکتی ہوئی آنکھوں میں واضح نظر آرہی تھی۔
ہمیشہ کی طرح سامعین کی نظریں بابا جی کے صدارتی خطاب پر مرکوز تھیں اور وہ بڑی بے چینی سے اُن کی گفتگو کے منتظر تھے۔ جب جیدی میاں نے مسندِ خطاب بابا جی کے حوالے کی تو سامعین کی خوشی دیدنی تھی۔ بابا جی نے مردِ قلندر کی روحانی بصیرت اور فلسفیانہ تدبر پر روشنی ڈالی اور علامہ اقبال کی اسلامی تاریخ پر گہری گرفت اور قرآنِ مجید کے ان کے گہرے مطالعے پر دل کھول کر گفتگو کی۔ بابا جی کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی ہر بات شاعرِ مشرق کے اشعار سے مزین کر لیتے ہیں اور اپنی ہر دلیل پر علامہ اقبال کے اشعار کے حوالے سے پیش کرتے۔ پھر اشعار کی ادائیگی کا فن بھی بابا جی کو خوب آتا ہے۔ مسلمانوں کی موجودہ حالتِ زار، اندرونی خلفشار اور سیاسی انتشار کے اسباب بھی ان کے خیالات ِ جلیلہ کے احاطے میں آئے۔ انہوں نے علامہ کا یہ شعر پڑھا: اُخوت اس کو کہتے ہیں، چُھبے کانٹا جو کابل میں؍ تو ہندوستاں کا ہر پیر و جواں بیتاب ہو جائے۔ مگر آج ملت ِاسلامیہ کا شیرازہ بکھر چکا ہے، ذاتی مفادات اور فرقہ بندی کے فسادات نے امت کا تصورتہ و بالا کر دیا ہے۔بقول اقبال: کہیں فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں، کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔ بابا جی نے آج کے نوجوانوں کو آڑے ہاتھوں لیااور کہا : جنہیں اقبال کے فکر ی ورثہ کا وارث بن کر شاہین بننا تھا اور پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرنا تھا، جنہیں اپنے عظیم اسلاف کے نقشِ قدم پر چل کر اس گردوں کا تارہ بننا تھا جس نے کارِ حیات میں گل ولالہ کا اک نیا جہان آباد کرنا تھا‘ جس نے اپنے من میں ڈوب کر سراغِ زندگی پانا تھا، جس نے ستاروں سے آگے کے جہانوں کی تلاش میں ستاروں پر کمند ڈالنا تھی، جس نے علم کی شمع سے محبت کر کے غریبوں کی حمایت کا دم بھرنا تھا، جس نے اپنے عملِ پیہم سے چمنِ زیست میں رنگِ بہار کا سبب بننا تھا اور جس نے فلسفۂ خودی سے بہرہ ور ہو کر پاکستان کو ایک عظیم مملکت بنانا تھا وہ نوجوان خرافات میں گھر کر کردار کی پستیوں کا شکار نظر آتا ہے۔ وہ اقبال کا شاہین بننے کے بجائے کرگس کے جہاں میں آباد ہے۔
بابا جی کی گفتگو آخری مرحلہ میں داخل ہوئی تو اُن کی آواز ہمیشہ کی طرح رندھ گئی اور بوجھل الفاظ میں جذبات کا عنصر نمایاں ہونے لگا۔ وہ کہنے لگے: خدائے ربِ ذوالجلال کا بے پایا ں کرم ہے کہ وطنِ عزیز پاکستان کی فضائیہ نے اپنے نغمات اور ترانوں میںاقبال کے شاہین کو زندہ رکھا ہوا ہے اور فکرِ اقبال نے ہماری مسلح افواج کے سجیلے جوانوں میں عقابی روح بیدار کر رکھی ہے جس کے طفیل ہماری فوج کا ڈنکا پوری دنیا میں بجتا ہے۔ یہ ہمارے شاہین ہی ہیں جنہوں نے ملکی دفاع کو یقینی بنانے کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ یہ شاعر مشرق کے فلسفۂ خودی کی نعمت ہی تو ہے جس نے ہمیں دشمن کے مقابلے میں ہمیشہ سرخرو کیا۔ اسی فقید المثال جذبے سے سرشار ایم ایم عالم نے 1965ء کی جنگ میں پلٹ کر‘ جھپٹ کر ایک ہی تباہ کن وار میں دشمن کے پانچ جنگی جہازوں کو ٹھکانے لگا کر ورلڈریکارڈقائم کیا تھا، پاک فضائیہ کے کم سن شہید راشد منہاس نے اس وقت جرأت وبہادری کی تاریخ رقم کی جب اگست 1971ء میںمشق کے دوران اس کے سینئر پائلٹ نے جہاز کا کنٹرول سنبھال کر طیارے کا رخ بھارت کی طرف کرنا چاہا۔ اسی طرح کی شاندار مثال وِنگ کمانڈرمحمدنعمان اور سکواڈرن لیڈر حسن محمود صدیقی ہیں جنہوںنے 27فروری2019ء کو ملک کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے پر دو بھارتی طیارے مار گرائے اور مگ 21 کے پائلٹ ابھینندن کو زندہ گرفتار کیا۔ یہی شاہین فکرِاقبال کے اصل وارث ہیں جن کی عقابی نگاہیں دفاعِ وطن پر ہر لمحہ مرکوز ہیں اور جن کے حوصلے ہمالیہ سے زیادہ بلند ہیں۔ جیدی میاں نے لنگر کے انتظامات مکمل کر کے چھوٹی سی چٹ بابا جی کے سامنے رکھی تو انہوں نے اپنی گفتگو سمیٹے ہوئے حضرت ِعلامّہ اقبال کے اس فکر انگیز شعر پرگفتگو تمام کرتے ہوئے سامعین سے اجازت طلب کی کہ:
عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل نہ بن جائے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں