''تاریخ میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ کو بدل دیتے ہیں اور اس سے بھی کم لوگ ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل دیتے ہیں اور شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے اپنی قوم کیلیے ایک علیحدہ ریاست حاصل کی ہو۔ محمد علی جناح نے یہ سارے کام کیے‘‘۔ یہ الفاظ سٹینلے والپرٹ نے اپنی کتاب ''جناح آف پاکستان‘‘ کے آغاز میں قلمبند کیے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے اور ان کی شخصیت بہت ہی جامع بنیادوں پر استوار تھی۔ وہ شروع ہی سے ذہین، محنتی اور مستقل مزاج تھے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت ان کی ذات میں بدرجہ اتم موجود تھی‘ اسی نے ان کی زندگی کو نئی جہت عطا کی۔ محترمہ فاطمہ جناح اپنی کتاب ''مائی برادر‘‘میں لکھتی ہیں ''جناح کو والد نے بزنس کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے انگلینڈ بھجوایا کیونکہ ان کا خاندان کاروبار سے منسلک تھا مگر انہوں نے لنکنز اِن کے گیٹ پر آویزاں دنیا کے عظیم قانون دانوں کی فہرست میں نبی آخر الزماںﷺ کا نام سب سے اوپر لکھا دیکھا تو اپنا ارادہ بدل لیا۔ انہوں نے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لے لیا‘‘۔ قائداعظم کی قائدانہ صلاحیتوں کا اندازہ یونیورسٹی کے دور سے ہی ہو جاتا ہے۔ آپ نے برصغیر کے تمام طلبہ کو اکٹھا کیا اور دادا بھائی نوروجی کو سٹوڈنٹ کونسل کے انتخابات جتوانے کے لیے ساری مہم چلائی اور بالآخر کامیاب ٹھہرے۔ جب 1905ء میں دادا بھائی آل انڈیا نیشنل کانگریس کے صدر منتخب ہوئے توانہوں نے قائداعظم کو اپنا سیکرٹری مقرر کر لیا اور 1906ء میں انہوں نے آل انڈیا کانگریس میں شمولیت اختیار کر لی۔ جب 1909ء میں وہ مرکزی قانون ساز کونسل کے ممبر کی حیثیت سے منتخب ہوئے تو اس وقت لارڈ ولنگٹن نے ان کو دیکھ کر کچھ ایسے الفاظ کہے جن سے انہیں اپنی توہین محسوس ہوئی۔ برصغیر میں قائداعظم ہی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے لارڈ ولنگٹن کے منہ پر جرأتمندی سے سخت الفاظ میں اس کے رویے کی مذمت کی۔ آپ نہایت مستقل مزاج انسان تھے اور ہمیشہ قانون کا احترام کیا‘ کبھی جیل نہیں گئے۔ آپ شدت آمیز سیاست پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ کبھی انا، ضد اور اصولوں پر سودے بازی نہیں کی۔
سرسید احمد خاں نے مسلم قوم کو جدید تعلیم حاصل کرنے، سائنس اور ٹیکنالوجی کے مضامین پڑھنے اور انگریزی زبان سیکھنے کی ترغیب دی اور علی گڑھ میں مسلمانوں کو جدید خطوط پر تعلیم حاصل کرنے پر زور دیا۔ یہی وہ وقت تھا جب دو قومی نظریے کی بازگشت بلند ہوئی اور دور اندیش مسلم قیادت نے یہ بھانپ لیا کہ مسلمانانِ برصغیر کو اپنا الگ تشخص برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ انگریز کی کثرتِ رائے والی سوچ اور ہندوئوں کی تنگ نظری‘ ہر دو محاذوں پر سیاسی جنگ لڑیں اور یہ لڑائی سیاسی اور نظریاتی بنیادوں پر اور مسلمہ حقیقتوں کے ادراک کے بغیر ناممکن تھی۔ بیسویں صدی کے اوائل ہی سے کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے مسلمانانِ ہند کی آنکھیں کھول دیں۔ مسلمانوں نے کانگریس سے ناامید ہو کر 1906ء میں اپنی الگ جماعت ''آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کی بنیاد رکھی اور بعد ازاں اس پلیٹ فارم سے سیاسی حقوق کی حفاظت کے لیے آواز بلند کی۔ قائداعظم محمد علی جناح 1916ء تک کانگریس اور مسلم لیگ‘ دونوں جماعتوں کے ممبر رہے اور امن کے سفیر کہلائے مگر نہرو رپورٹ نے آپ پر ہندوئوں کی تنگ نظری اور محدود سوچ کو آشکار کر دیا اور اب آپ جیسے فطین شخص کے لیے فیصلہ لینا مشکل نہ تھا۔ آپ نے کانگریس سے ہمیشہ کیلئے اپنی راہیں جدا کرلیں اور علیحدہ سیاسی تشخص کے لیے دن رات کوششیں شروع کر دیں۔
1930ء میں علامہ محمد اقبال نے خطبہ الٰہ آباددوقومی نظریے کی وضاحت کی اور فصاحت سے کہا کہ انہیں شمالی مغربی اکثریتی علاقوں میں ایک الگ خود مختار ریاست بنتی نظر آرہی تھی۔ اس پر ہندوذہنیت نے مولانا ابو الکلام آزاد کو کانگریس کا صدر بنا دیا۔ شملہ کانفرنسوں میں مسلم لیگ کی نمائندگی قائداعظم اور کانگریس کی نمائندگی کے لیے ابو الکلام آزاد کو جیل سے ضمانت دے کر شامل کیا گیا۔ وہ دو قومی نظریے کے سخت مخالف تھے۔ ان گول میز کانفرنسوں کے بعد قائداعظم اپنوں سے مایوس ہو کر انگلینڈ چلے گئے۔
1934ء میں انگلینڈ سے واپسی پر مسلم لیگ کی قیادت‘ 1940ء میں قراردادِ لاہور۔ اس کے بعد یک نکاتی ایجنڈے پر کام شروع کر دیا گیا اور 1946کے الیکشن میں مسلم لیگ تمام مکمل تیس نشستیں جیت کر کابینہ میں شامل ہوئی، لیاقت علی خان پہلے وزیرِ خزانہ بنے اور تاریخی عوام دوست بجٹ دیا۔ اس پر ابو الکلام آزاد نے کہا کہ اس عوامی بجٹ کے ذریعے سردار پٹیل کو تقسیم کے منصوبے پر راضی کر لیا گیا ہے۔ معروف تاریخ دان ڈاکٹر عائشہ جلال نے اپنی کتاب ''سٹرگل فار پاکستان‘‘ میں ان حقائق کو بیان کیا ہے جن کی بدولت پاکستان کا وجود ممکن ہوا۔ قائداعظم کے سیاسی مخالفین بھی آپ کے بااصول اور نہ جھکنے‘ نہ بکنے کی خصوصیات کی تعریف کرتے ہیں۔ لارڈ مائونٹ بیٹن نے کہا: اگر جناح نہ ہوتا تو پاکستان نہ بنتا۔ نریندر مودی اور آر ایس ایس کے نظریات کے حامل ایل کے ایڈوانی نے بھی قائداعظم کی شخصیت کو سراہا۔ جسونت سنگھ نے اپنی کتاب میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ یہ جناح ہی تھے جن کی سیاسی بصیرت اور دوراندیش فطرت سے ہندوستان تقسیم ہوا اور ہندوئوں کو انگریز کی غلامی سے نجات دلانے والے بھی جناح ہی تھے۔ بعد میں ان دونوں کو انتہا پسندوں کے ہاتھوں اس اعتراف کی قیمت بھی ادا کرنا پڑی۔
معرض وجود میں آنے کے بعد پاکستان کو قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت بہت مختصر عرصے کے لیے میسر رہی مگر قائد نے جو راستے دکھائے وہ بڑے واضح ہیں۔ وقت اور حالات نے ثابت کیا کہ ان کا الگ ریاست کا حصول اور دو قومی نظریہ درست تھا۔ شیخ عبداللہ اور مقبوضہ کشمیر کی قیادت‘ جو دو قومی نظریے کی مخالف تھی‘ آج مودی سرکار کی فسطائیت دیکھ کر چیخ اٹھی ہے کہ ہم سے غلطی ہوئی تھی۔ اب انڈیا کی سکھ کمیونٹی بھی اپنے بڑے‘ ماسٹر تاراسنگھ کے بھارت میں شمولیت کے فیصلے پر پچھتا رہی ہے۔ آج ہم جن مسائل کا سامنا کر رہے ہیں وہ اس بات کے غماز ہیں کہ ہم نے قائد کی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ اگر ہم ایمان‘ اتحاد‘ تنظیم اور کام‘ کام اور صرف کام کے اصولوں پر قائم رہتے تو حالات یکسر مختلف ہوتے۔ قائداعظم نے مسلمانانِ برصغیر کے لیے ایک الگ ریاست وجود میں آنے پر کہا کہ یہاں ہر طبقے، ہر نسل، ہر رنگ، ہر عقیدے اور ہر علاقے کے لوگوں کو آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے حقوق کو حاصل کر سکیں۔ 11 اگست 1947ء کو آپ نے فرمایا ''آپ لوگ آزاد ہیں‘ اس ملکِ پاکستان میں مندروں، مسجدوں اور عبادت گاہوں میں جانے کے لیے، آپ کا مذہب کیا ہے، ذات کیا ہے اور قوم کیا ہے، اس کا ریاست کے معاملات سے کوئی سروکار نہیں‘‘۔ اس وقت ہم جس طرح کے حالات سے گزر رہے ہیں اور جن مسائل کا ہمیں سامنا ہے ان سب کا حل معیاری تعلیم اور اخلاقی تربیت میں پوشیدہ ہے۔
پروفیسر رحمت علی المعروف بابا جی بانیٔ پاکستان کی ایک ایک بات کی گہرائی میں اتر جاتے ہیں اور اس کی عقلی دلیلیں تراش لاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مودی سرکار کے ظلم و بربریت اور وحشت نے ایک طرف بھارت کے سیکولرازم کا بھانڈا پھوڑا ہے تو دوسری طرف بانیٔ پاکستان کے دو قومی نظریے کو ایک مرتبہ پھر زندہ کر کے اس کی صداقت پر مہر ثبت کر دی ہے۔ آج پاکستان کے اندر وہ خود ساختہ لبرلز بے آسرا ہو چکے ہیں جو قائد کے نظریات پر تنقید کر کے بھارت سے دوستی کیلئے امن کی آشا کا راگ الاپا کرتے تھے۔ بابا جی فرماتے ہیں کہ مودی کا شکریہ‘ اگرچہ اس کے سفاکانہ حکومتی ہتھکنڈوں اور ظلم و ستم کے سبب بھارت میں اقلیتوں پر قافیۂ حیات تنگ ہوا ہے مگر قائد کے دو قومی نظریے کو نئی طاقت ملی ہے۔ بانیٔ پاکستان نے سچ فرمایا تھا ''وہ مسلمان جو قیامِ پاکستان کی مخالفت کر رہے ہیں‘ ان کی بقیہ زندگی بھارت کے ساتھ اپنی وفاداری ثابت کرنے میں گزر جائے گی‘‘۔ قائد کے اس قولِ صادق کی حقیقت آج بھارت کے مسلمانوں سمیت دنیا بھر پر آشکار ہو چکی ہے۔