بحیثیت معاشرہ ہم اس المیے سے دوچار ہیں کہ اپنی زندگی میں احتیاط اور اعتدال‘ دونوں صفات کو غیر اہم گردانتے ہیں مگر دوسری طرف زندگی پُرسکون گزارنے کی خواہش اور تمنا بھی رکھتے ہیں۔ دراصل کامیاب اور متوازن زندگی کا راز قناعت اور اعتدال پسندی میں پوشیدہ ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں افراط و تفریط سے بچنا اور بیچ کی راہ اختیار کرنے کا نام اعتدال پسند ی ہے۔ حق تعالیٰ نے کسی کو غریب اور کسی کو دولت مند بنایا مگر خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں راحت اور سکون کی زندگی میسر ہے۔ بے شک دولت و ثروت کم میسر ہو مگر اس پر بخوشی راضی رہنا ہی اصل زندگی ہے اور حقیقی خوشی بھی۔ قلبی اطمینان کے لیے ضروری ہے کہ آپ مطمئن ہوں اور ذرائع آمدن کے مطابق اپنے اہل و عیال پر خرچ کریں۔ اگر اہلِ ثروت ہیں تو لباس‘ رہائش اور خوراک میں وسعت پیدا کریں لیکن اسراف سے بچیں۔ اگر نادار ہیں تو جو میسر ہے‘ اس پر قناعت کریں۔ قناعت اور معتدل مزاجی اعلیٰ ترین انسانی صفات ہیں۔ خواہشات کے تابع ہوئے بغیر بے جا لالچ اور حرص سے بچا جا سکتا ہے۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ لالچ اور حرص انسانی سرشت میں شامل ہیں۔ حرص کئی طرح کی ہو سکتی ہے۔ دولت کی، عہدے اور مرتبے کی، جائیداد کی، کاروں‘ گھروں اور فیکٹریوں کی۔ فطری طور پر انسان ازل سے خوب سے خوب ترکی جستجو میں ہے۔ کھانے، لباس، تقریبات اور مختلف رسوم و رواج کے نام پر دولت مند طبقہ اسراف میں حد سے نکل جاتا ہے یا اس قدر بخل سے کام لیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر بھی ادا نہ ہو سکے اور گھر والوں کو ترساتا رہتا ہے۔ میانہ روی یہی ہے کہ نہ تو ہاتھ کھلے چھوڑ دیے جائیں اور نہ گردن سے باندھ دیے جائیں۔ اعمال و افعال ہوں یا عبادات‘ تعلقات ہوں یا رشتے داریاں، معاشرتی اقدار ہوں یا رسم و رواج‘ معتدل راہ اختیار کرنا ہم سب کیلئے اشد ضروری ہے۔ اسی میں پُر سکون اور اطمینان بخش زندگی کا راز مضمر ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ''دولت مندی یہ نہیں کہ مال و اسباب زیادہ ہو بلکہ دولت مندی یہ ہے کہ دل غنی و بے نیاز ہو‘‘ (صحیح بخاری)۔کامیاب وہ شخص ہے جسے اسلام نصیب ہوا، گزر بسر کے لیے روزی ملی، تعلیم و تربیت کے مواقع اور صحت ملی‘ جو ماں باپ کی محبت اور شفقت میں پروان چڑھا اور جسے زندگی گزارنے اور جائز ذرائع آمدن کا وسیلہ عطا ہوا۔ اطمینانِ قلب اور قناعت پسندی وہ نعمتیں ہیں جو فقیر کو بھی بادشاہ بنا دیتی ہیں۔ اگر آپ کے پاس دولت اور دنیاوی نعمتوں کے ڈھیر ہوں مگر آپ کو دلی سکون میسر نہ ہو تو سب کچھ آپ کے کس کام کا؟ آپ کو سونے کیلئے سکون آور ادویات لینا پڑیں‘ کھانے میں نمک جیسی بنیادی چیز منع ہو تو سوچنے کی بات ہے زندگی پھیکی‘ بے چین اور ادھوری ہو گی۔ قناعت پسندی کا درس قدرت نے جا بجا دیا ہے۔ غور و فکر اور تدبر کی بات ہے۔ سیپ کی قناعت کا انجام اور صلہ ہی ہے کہ قدرت ِکا ملہ پانی کے ایک قطرے کوقیمتی موتی بنا دیتی ہے۔ اگر سیپ قطرے پر قناعت نہ کرے تو پانی منہ سے باہر آنے لگے گا اور یوں سیپ موتی سے محروم ہو جائے گی۔ نعمت تھوڑی بھی بہت ہوتی ہے اگر قناعت، اعتدال اور توکل پر اکتفا کیا جائے۔ رزق رب کی عطا سے ملتا ہے۔ ہمارے مال، عزت اور مرتبوں پر صرف اپنا ہی حق نہیں‘ کچھ فرائض اور ذمہ داریاں بھی ہم پر عائد ہوتی ہیں۔ صلہ رحمی کرنا، پڑوسیوں کے حقوق، معاشرتی اور اخلاقی قدروں کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں اور بین الاقوامی اداروں کی طرف بنائے جانے والے معیارات اور قوانین کی پاسداری بھی ہمارا فرض ہے۔ جن پر اللہ کا فضل ہے‘ ان پر لازم ہے کہ وہ کمزوروں کو اپنے ساتھ شامل کریں۔ خلیفہ ہارون الرشید نے نہر کناے چہل قدمی کرتے ایک شخص کو مچھلیاں پکڑتے دیکھا۔ رک کر پوچھا کہ کتنی مچھلیاں پکڑ لیتے ہو؟ جواب ملا: تین؛ ایک گھر میں استعمال کرتا ہوں اور دو بازار میں فروخت کر کے ضرورت کی اشیا لے لیتا ہوں۔ خلیفہ نے کہا مجھے اپنا حصہ دار بنا لو۔ کچھ پس و پیش کے بعد وہ مان گیا۔ اس کو نیا جال اور دیگر سامان خلیفہ نے مہیا کر دیا اور کہا کہ ہم دونوںآدھے آدھے کے حصہ دار ہوں گے‘ میرا حصہ جمع کرتے رہنا اور پھر بغداد آکر مجھے دے جانا۔ کچھ عرصے کے بعد وہ ہارون الرشید کے عالی شان محل میں کھڑا خلیفہ کو اس کا حصہ دے رہا تھا تو حیران و پریشان تھا کہ اس کو حصہ داری کی کیا ضرورت تھی؟ خلیفہ نے سمجھایا کہ تمہاری قناعت پسندی کی وجہ سے میں نے تمہیں اپنا حصہ دار بنایا‘ تمہارے نصیب کا رزق بھی اب میرے رزق میں شامل ہو گیا ہے۔
دولت اور دنیاوی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی ضرورت اور اہمیت اس قدر ہے کہ اگر اس میں چھپی بھلائی اور مصلحت سمجھ میں آجائے تو ہم نا شکری اور فضول خرچی کا خیال تک دل میں نہ لائیں۔ افسوس آج مال کی حرص اور خود نمائی کا رواج اس قدر عام ہو گیا ہے کہ اس ناسور نے معاشرے کو کھو کھلا کر دیا ہے۔ احساسِ برتری اور مال و متاع پر فخر و غرور اور حسب و نسب پر تفاخر نے معاشرتی توازن بگاڑ دیا ہے۔ غریب اور دولت مند اشرافیہ کے لائف سٹائل یکسر الگ الگ ہو گئے ہیں۔ تفریق بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 60 فیصد شہری خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ضروریاتِ زندگی میں ایک طرف غیر معیاری اشیا اور مراعات یافتہ طبقے کیلئے برانڈڈ اشیائے خور و نوش دستیاب ہوں گی تو احساسِ کمتری اور احساسِ محرومی شدت سے جنم لے گا۔ لوگ دولت جائز اور ناجائز ذرائع سے حاصل کرنے میں اس قدر مگن ہیں کہ مخبوط الحواس ہو چکے ہیں۔ مولانا روم فرماتے ہیں ''کوئی شخص قناعت سے بے جان نہیں ہوتا‘ کمزور ی اور احساسِ کمتری میں مبتلا نہیں ہوتا‘ حرص کے سبب کوئی انسان سلطان نہیں بن جاتا‘‘۔
پاکستان ہی میں نہیں‘ دنیا بھر میں اسراف، احساسِ برتری اور دکھاوے کا رواج ہے۔ امریکا کے شہر لاس اینجلس میں ایک مہنگی ترین مارکیٹ موجود ہے جہاں موزے کے ایک جوڑے کی قیمت بھی دو ہزار ڈالر سے کم نہیں۔ باقی اشیا کا بھی یہی حال ہے۔ اگر ہم بے جا خواہشات کے پیچھے بھاگنے کے بجائے اپنے جائز ذرائع آمدن میں صبر اور شکر کے ساتھ جینا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے وسائل اور اخراجات میں توازن رکھنے کا ہنر اور سلیقہ سیکھنا ہوگا۔ دوسروں کے نصیب اور مقدر سے حسد کرنے کے بجائے قناعت اور اعتدال پسندی کی روایت اپنانے کی کوشش اور صلاحیت پیدا کرنا ہوگی۔ جھوٹی اور تصنع والی زندگی سے سوائے بے سکونی‘ بے چینی اور خود فریبی کے کچھ نہیں ملتا۔ ہمیں اپنی چادر دیکھ کر پائوں پھیلانے کی ضرورت ہے‘ اسی کے اندر خوشی اور اطمینانِ قلب پوشیدہ ہے۔ شیخ سعدیؒ گلستانِ سعدی میں ایک واقعہ درج کرتے ہیں کہ حریص کی مثال ایسے ہے کہ حرص کے سبب پورا سمندر کوزے میں بھرنا چاہتا ہے۔ ایک دفعہ شیخ سعدی نے اپنے تاجر دوست کے گھر رات کو قیام کیا‘ رات بھر اس نے سونے نہیں دیا اور اپنی کامیاب تجارت کے قصے سناتا رہا۔ جب ایران اور توران کی سنا چکا تو کہنے لگا کہ اس کی ساری آرزوئیں پوری ہو چکی ہیں‘ بس ایک آخری خواہش باقی ہے۔ شیخ سعدی نے پوچھا :وہ کیا؟ کہنے لگا کہ میں فارسی گندھک لے کر چین جائوں‘ چین سے برتن لے کر روم جائوں‘ روم کا کپڑا لے کر ہندوستان بیچوں‘ ہندوستان سے فولاد لے کر شام جائوں‘ شام سے شیشہ لے کر یمن فروخت کروں‘ یمنی چادریں لے کر واپس فارس آ جائوں۔ شیخ سعدی نے اس کے چہرے کو بغور دیکھا جہاں لالچ کی بے حساب لکیریں نمودار ہو چکی تھیں۔ پھر اس نے لمبا سانس لیا اور کہا: اس کے بعد میں بقیہ زندگی اپنی دکان پر گزاروں گا۔ شیخ سعدی شیرازی فرماتے ہیں ''دنیا دار کی تنگ نگاہ کو یا تو قیامت پُر کر سکتی ہے یا قبر کی مٹی‘ تیسرا کوئی راستہ نہیں‘‘۔ ایک طرف خواہشوں کے غلام ہیں جنہیں مال وزر اور شان و شوکت کے فریبوں نے اپنے حصار میں جکڑ رکھا ہے تو دوسری طرف فقر و مستی کی دنیا آباد کئے ہوئے وہ خوش نصیب‘ جو روحانی سکون اور قلبی اطمینان کی دولتِ بے پایاں سے مالامال ہیں۔ آپ خود کو کہاں دیکھتے ہیں؟
شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ نے کیا خوب کہا تھا:
نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو‘ وہ قیصری کیا ہے